قربانی کو اپنا جذب ِدروں بنائیں

جب عید آتی ہے تو اس عظیم الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جس کا تحفہ ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں دیے گئے حکم خداوندی کی تکمیل کے لیے اپنے لخت جگر فرمانبردار فرزند حضرت اسماعیل ؑکی شکل میں بارگاہ اقدس میں پیش کیا تھا۔

عید قرباں کی مسرتیں اور اس کے انوار وبرکات اس وقت دوچند ہوگئے جب کہ انہی دنوں میں حج کو فرض کیا گیا، تاکہ بندگان خدا قربانی ہی کے ایام میں مقامات قربانی کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کرلیں، دوسری طرف پوری دنیا کے مسلمان اپنی اپنی حیثیت کے مطابق قربانی پیش کرتے اور ساتھ ہی عید گاہوں اور شہر کی دوسری بڑی مساجد میں دو رکعت نماز شکرانہ بجا لاکر خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرتے ہیں، جو بزبان حال اس بات کے گویا ہوتے ہیں کہ ہم خوشی وغم ہر حال میں ایک اور متحد ہیں، ایک ہی خدا کے بندے اور ایک ہی رسول کے امتی اور ایک ہی ملت ابراہیمی کے خورشید مبیں اور اسی پر جانثار وفداکار ہیں۔

حضرت ابراہیم ؑکی طرف سے بارگاہ الہی میں پیش کردہ اس قربانی کو تقریبا ۴۰۰۰؍ سال کا عرصہ بیت چکا ہے، اس کے باوجود بہ حیثیت ِحکم الہی اب تک اس واقعہ کی یاد اور اس کے تازہ رکھنے میں کوئی نہ کوئی اہم مقصد پوشیدہ ہو سکتا ہے۔ اور وہ یہی ہے کہ خدائے پاک کو اپنے بندوں میں پائی جانے والی جانثاری وفدا کاری والی صفت بہت زیادہ محبوب ہے۔ چنانچہ یہ صفت حقیقی معنی میں وہ محور ہے جس کے ارد گرد اسلامی زندگی کا پہیہ چکر لگاتا ہے، اور یہی صفت حقیقت میں مسلمانوں کی قوت اور صحیح عقائد پر ثابت قدمی کا راز ہے، جس سے مسلمانوں کے دلوں میں اتباع وخودسپردگی کے جذبات فروغ پاتے ہیں اور وہ دینی اعمال میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں، اور دین کی جڑیں ان میں سد سکندری بن کر رسوخ حاصل کر لیتی ہیں، پھر ارادہ وعمل میں پختگی وعزیمت بھی پیدا ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ ایسے شاہین بن جا تے ہیں جو مصائب وآلام کی دشوار گزار گھاٹیوں میں آبلہ پائی سے تھک کر کبھی نہ گریں، جس کی نظیریں ہمیں سرفروشانِ اسلام کی زندگیوں میں بکثرت نظر آتی ہیں۔

اس قربانی نے حضرت بلال، حضرت عمار، ان کی والدہ حضرت سمیہ، ان کے والد حضرت یاسر رضی اﷲ عنہم میں ایسا جذبہ جانثاری وفداکاری پیدا کردیا کہ ان کو ایمان کی راہ سے ہٹا کر کفر اور اس کی تہذیب و تمدن کی طرف لوٹانے کے لیے بد معاش و بد حواس کفار مکہ نے ہزار کو ششیں کیں مگر بے سود رہیں۔ حتی کہ بعض جانثار نے یہاں تک جا نثاری کا مظاہر ہ کیا کہ خداکی محبت اور اس کے رسول ﷺ سے وابستگی کے جذبہ میں جان کی قر بانی تک پیش کردی، مگر کفار مکہ ان کے ایمان کا سودا نہ کر سکے۔

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس وقت اسلام کے نشیمن کو تیر ونشتر سے کہیں زیادہ سیاسی، فکری، تہذیبی، علمی، سائنسی اور ٹکنالوجی حملوں کا سامنا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مذہب اسلام سے ہٹ کر جتنے مذاہب اور تحریکات پائی جاتی ہیں سب نے اسلام کی مخالفت ٹھان لی ہے۔ گویا اس وقت ساری دنیا اسلام کی علمی وثقافتی جنگ کا میدان کار زار ہے۔ اس لیے جاں نثارانِ اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس راہ میں بھی اسلامی تہذیب وثقافت اور سیاست وفکر کے ہتھیار سے لیس ہوکر علمی وثقافتی حملہ آوروں سے نبرد آزمائی کے لیے میدان کارزار میں مضبوطی کے ساتھ قدم رکھیں۔ اگر صحیح معنی میں غور کیا جا ئے کہ جن جانگداز اور دشوار کن مراحل سے مسلمانان عالَم اس وقت گذر رہے ہیں اس کی کیا وجہ ہے․․․․؟ تو اندازہ ہوگا کہ وہ در اصل اسی قربانی اور فدائیت کے میدان میں کمزوری کا نتیجہ ہے۔

اسی لیے ہر سال عید قرباں کی آمد ہوتی ہے کہ مسلمان اس عظیم الشان اور تاریخی قربانی میں غور کریں اور قربانی وفداکاری کو اپنا جذبِ دروں بنائیں اور خداکے احکام کو بجا لانے میں تا زہ دم رہیں۔ یہی حضرت اسماعیل ؑکی فداکاری کا اہم ترین حصہ ہے۔
Mufti Muhammad Fayaz Qasmi
About the Author: Mufti Muhammad Fayaz Qasmi Read More Articles by Mufti Muhammad Fayaz Qasmi: 10 Articles with 10957 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.