حضرت محمدؐ کی نبوت اور رسالت پر
ایمان لانے کے بعد سر اطاعت خم کرنے کی پہلی صورت نماز ہے اور آخری صورت حج
بیت اﷲ ہے۔ حج سابقہ امتوں میں ادا کیا جاتا رہا۔ امت محمدیہ پر حج کی
فرضیت 9ہجری میں ہوئی۔ حضرت محمدؐ نے اپنی حیات طیبہ کا واحد حج 10ہجری میں
تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہؓ کے ساتھ ادا کیا۔آپ کا یہ حج ’’ حجتہ الوادع‘‘
کہلاتا ہے۔ حج ان تمام عاقل ، آزاد اوراہل ثروت مسلمانوں پر عمر بھر میں
ایک بار فرض ہے جو بیت اﷲ تک پہنچنے کے وسائل رکھتے ہوں۔ حج کی فرضیت قرآن
و حدیث سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ’’ اور لوگوں پر اﷲ کے لئے لازم
ہے کہ جو کوئی بیت اﷲ تک آنے کی قدرت رکھتا ہو وہ حج کے لئے آئے اور جس نے
کفر کی روش اختیار کی تو وہ جان لے کہ اﷲ تمام جہانوں سے بے نیاز
ہے۔‘‘ارشاد نبوی ہے۔ ’’ اے لوگو! تم پر حج فرض کیا گیا ہے۔ پس تم ضرور حج
کرو‘‘۔یو ں تو عبادت کے اور بھی طریقے ہیں مثلاً نماز، روزہ اور زکوٰۃ مگر
حج کی اہمیت یہ ہے کہ نماز اور روزہ صرف جانی عبادات ہیں اور حج جانی مالی
دونوں عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ حج کا قصد کرنیوالا خالص حج کی نیت سے نکلے۔
حج کے اخراجات حلال اموال میں سے ہونے چاہئیں۔ حج کرنے والا رب حقیقی سے
اپنے گناہوں پر توبہ کے ساتھ ساتھ لوگوں سے اپنی غلطیوں پر معذرت خواہ ہو۔
اہل وعیال کے لئے واپسی تک اخراجات کا انتظام کرے۔ قرض ہو تو اس کی ادائیگی
کردے۔بہت سے مسلمان ایسے ہیں جن کو دولت اور جوانی اﷲ نے دی مگر فریضہ حج
کو ٹالتے رہتے ہیں۔ بڑھاپے میں حج کو جاتے ہیں۔ اس وقت حج کے ارکان ان سے
صحیح طریقہ سے ادا نہیں ہوتے۔ زندگی کا کیا بھروسہ ہے جب وسائل مہیا ہوں
توہر مسلمان کو بلاتاخیر یہ فریضہ انجام دینا چاہئے۔جو شخص خلوص نیت سے سفر
حج اختیار کرتا ہے اس کے دل میں محبت الٰہی کی ایسی شمع روشن ہو جاتی ہے جو
اس کے قلب کو غلاظتوں سے پاک کر کے ہدایت سے منور کر دیتی ہے پھر وہ محبت و
اطاعت الٰہی کے جذبہ کے تحت عملی طور پر قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار
نظر آتا ہے۔احرام باندھتے ہی بندے پر کئی ایک حلال اشیاء مقرر ہ مد ت تک
حرام ہوجاتی ہیں۔ وہ ان اشیاء کی طرف میلان رکھتے ہوئے بھی حکم الٰہی کے
تحت ان سے پر ہیز کرتا ہے اور یوں ضبط نفس کا عملی مظاہرہ کرتا ہے۔ اس طرح
حج ضبط نفس کے لئے بھی بہترین تربیت ہے۔ حج انسان میں سادگی و اعتدال کی
صفات پیدا کرتا ہے اور فضول خرچی او ر فخر اورغرور سے بچاتا ہے۔حج کے اس
خاص موقع پر دنیا کے ہرکونے سے آنے والے بندگان الٰہی ایک لباس ، ایک امام
اور ایک مقصد کے تحت مساوات کابے مثال اور لازوال عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایسی مثال دنیا کے کسی بھی کونے میں دیکھنا نا ممکن ہے۔ خواہ وہ مساوات کے
علمبردار ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ دین اسلام ہی ہے جس کے ماننے والے رنگ ’نسل
علاقے‘ زبان اور امیری اور غربت کے مصنوعی امتیازات سے بالاتر ہوتے ہیں اور
حج کے موقع پر اس پر بہترین عمل کا اظہار کرتے ہیں۔مقام فکر ہے کہ جب ایک
شخص حج بیت اﷲ کے لئے گھر سے روانہ ہو تو اس کا دل شرک ’ منافرت‘ انتشار
اور دنیا وی خواہشات سے پاک وصاف ہونا چاہئے تاکہ اس کا حج شرف قبولیت کا
باعث بن جائے۔ اگر حج کر لینے کے بعد ایک انسان اپنی نفسانی خواہشات کو ختم
نہیں کرسکتا اور نفس کی سر کشی کو دبانہیں سکتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے
وہ حج پر گیا ہی نہیں۔ حج ایسا کرنا چاہئے کہ انسان کا ضمیر خود مطمئن
ہو۔حضور ؐ نے ارشاد فر مایا کہ حج کے بعد نفسانی خواہشات فسق و فجور اور
برائیوں سے اجتناب کرنے والے شخص کی مثال ایسی ہے جیسے ماں کے پیٹ سے جنم
لینے والا معصوم بچہ۔ آپ فرمایا کہ حج و عمرہ ادا کرنے والے اﷲ کے مہمان
ہوتے ہیں۔ ان کی تمام حاجتیں پوری اور دعائیں مستجات ہوتی ہیں۔قیامت کے دن
برائیوں سے اجتناب کرنے والے حاجیوں کی بخشش یقینی ہے۔ حدیث مبارک کے مطابق
ادائیگی حج میں جلدی کی تلقین کی گئی ہے تا کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں تنگ دستی
یا مجبوری تمہارا راستہ روک دے۔ ہر اہل مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اسے اسلام
کا ایک اہم رکن تصور کرتے ہوئے اسے پورے احترام و عقیدے اوراحکام شرعی کے
مطابق ادا کرے۔ اس دوران نفس کے خلاف جہاد اور عبادتوں ریاضتوں سے اﷲ کی
خوشنودی اور رضا حاصل کرے۔
|