پاکستان میں پان٬ چھالیہ٬ تمباکو اور گٹکے کے استعمال میں
تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن یہ اضافہ ہمیں ایک بہت بڑی تباہی کی جانب سے
لے کر جارہا ہے کیونکہ ان اشیا کے استعمال سے پاکستان میں منہ کا کینسر
تیزی سے پھیل رہا ہے- پاکستان کے اسپتالوں میں ایسی مریضوں ایک بڑی تعداد
دیکھی جاسکتی ہے جو کہ منہ کے کینسر کا شکار بن چکے ہیں- ہماری ویب کی ٹیم
نے منہ کے کینسر کے اسباب اور اس اسے بچاؤ کے حوالے سے معروف ڈاکٹر امتیاز
اطہر خصوصی بات چیت کی- آج کے آرٹیکل میں ہم آپ کو منہ کے کینسر کے حوالے
سے ڈاکٹر امتیاز اطہر سے حاصل ہونے والی اہم معلومات سے آگاہ کریں گے-
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ “ منہ کا کینسر (Oral Cancer) ایک ایسی بیماری
ہے جو ہمارے معاشرے میں عام ہے- یہ کینسر دنیا بھر میں پھیل رہا ہے لیکن
پاکستان میں گزشتہ 10 سے 15 سالوں میں دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ پھیلنا
والا کینسر یہی ہے لیکن اس سے بچاؤ بھی ممکن ہے“-
|
|
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق یہ کینسر ہر طبقے کے فرد میں موجود ہے چاہے وہ امیر
ہو یا پھر غریب -
ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ “ زبان٬ گال٬ مسوڑھے٬ دانت اور زبان کے نچلے کے
حصے کے کینسر کو منہ کا کینسر کہا جاتا ہے“-
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ترقی یافتہ ممالک میں زبان کا کینسر عام ہے جبکہ
ہمارے ہاں گال کا کینسر سب سے زیادہ پایا جاتا ہے- غیر مسلم ممالک میں زبان
کے کینسر کے عام ہونے کی وجہ وہاں شراب اور تمباکو نوشی کا کثرت سے استعمال
ہے اور یہ دونوں چیزیں مل کر ہی منہ کے کینسر کا سبب بنتی ہیں“-
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا تھا کہ “ ہمارے ہاں تمباکو نوشی ہوتی تو ہے لیکن
گزشتہ چند سالوں میں اس میں کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سگریٹ کے اشتہارات
پر لگائی جانے والی پابندی ہے لیکن بدقسمتی سے اس کی جگہ پاکستان میں دوسری
متعدد بری اقسام کی اشیا تیزی سے پھیل رہی ہیں“-
“ ان اشیا میں پان٬ چھالیہ٬ گٹکا٬ مین پوری اور چبائے جانے والے تمباکو
شامل ہیں جن کا استعمال زیادہ ہوگیا ہے- سادہ پان کھانا یا سونف الائچی
والا پان کھانا وہ بھی کبھی کبھی زیادہ مضرِ صحت نہیں ہے البتہ تمباکو والا
پان یا تمباکو کی دیگر اشکال جن میں نکوٹین کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے
انتہائی نقصان دہ ہوتی ہیں“-
“ پاکستان میں تمباکو کو کئی ایسی شکلوں میں دستیاب ہے جن کے کھانے سے منہ
لال نہیں ہوتا اور نہ ہی دیکھنے والے کو برا محسوس ہوتا ہے لیکن یہ انتہائی
زہریلا بھی ہوتا ہے“-
|
|
ڈاکٹر امتیاز کا یہ بھی کہنا تھا کہ “ ہمارے ہاں گٹکا بھی بہت زیادہ
استعمال کیا جاتا ہے جو کہ چھالیہ اور دیگر ملغوب اشیا کو شامل کر کے تیار
کیا جاتا ہے- یہ سگریٹ کے مقابلے میں سستا ہونے کی وجہ سے زیادہ استعمال
کیا جاتا ہے لیکن یہ جتنا سستا ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان دہ بھی ہوتا
ہے“-
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ چھالیہ انڈونیشیا میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے
اور یہ ایک پھل سے حاصل کی جاتی ہے- یہ پھل جب کچا ہوتا ہے تو اسے درخت سے
اتار کر خود پکایا جاتا ہے لیکن اس پکانے کے عمل میں ضروری ہوتا ہے کہ جس
جگہ چھالیہ کو رکھا جائے وہاں روشنی اور ہوا کا گزر نہ ہو لیکن کسی حد تک
نمی ضرور موجود ہو- لیکن اس عمل کے دوران چھالیہ میں ایک خاص قسم کی
پھپوندی لگ جاتی ہے جو کہ جگر اور منہ کے کینسر کا باعث بنتی ہے“-
ڈاکٹر امتیاز کا کہنا ہے کہ “ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ تمباکو کھانے سے
ہماری جسمانی سرگرمیاں متحرک رہتی ہیں٬ دماغ ترو تازہ رہتا ہے اور ہماری
کارکردگی بہتر ہوتی ہے لیکن دوسری طرف اس کے استعمال سے ہماری بھوک ختم
ہوجاتی ہے اور یوں ہمارے اندر غذا کم جاتی ہے“-
“ غذا کی کمی کی وجہ سے ہماری قوت مدافعت بھی کم ہوجاتی ہے اور یوں ہم
آہستہ آہستہ خود چل کر کینسر کی جانب سے قدم بڑھا رہے ہوتے ہیں“-
|
|
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ پہلے منہ کا کینسر صرف بوڑھے افراد میں ہی پایا
جاتا تھا لیکن اب یہ بچوں اور نوجوانوں میں بھی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے“-
ڈاکٹر امتیاز کا یہ بھی کہنا ہے کہ “ اگرچہ چھالیہ کھانے والوں میں منہ کا
کینسر کم ہی پایا جاتا ہے لیکن ان میں منہ کی دوسری بیماریاں ضرور پیدا
ہوتی ہیں جن میں منہ کا کم کھلنا یا کسی چیز کا ذائقہ محسوس نہ ہونا عام
بات ہے“-
“ ان بیماریوں کا کوئی مستند علاج بھی ابھی تک موجود نہیں ہے جبکہ ڈبلیو
ایچ او کی جانب سے ان بیماریوں کو کینسر سے پہلے کی اسٹیج کے طور پر نامزد
بھی کیا گیا اور یہ بھی کینسر کی جانب ہی ایک پیش قدمی ہے“-
ڈاکٹر امتیاز کے مطابق “ نسوار بھی ایک خطرناک نشہ ہے اور یہ پہلے تو صرف
افغانستان اور خیبرپختونخواہ میں ہی کیا جاتا تھا لیکن اب یہ پاکستان کے
دیگر شہروں میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے- اور نسوار کو منہ کے جس حصے میں
رکھا جاتا ہے وہی حصہ کینسر کا شکار ہوجاتا ہے“-
ڈاکٹر امتیاز کہتے ہیں کہ “ ایسی تمام اشیا جو منہ کے کینسر کا سبب بن رہی
ہیں ان سے بچاؤ کا ایک ہی طریقہ ہے کہ آپ ان کا استعمال ترک کردیں- اگرچہ
یہ عمل انتہائی مشکل ہے لیکن اپنے دماغ کو کھلا رکھ کر اور اپنے دل پر پتھر
رکھ کر اسے ترک کرنے کا فیصلہ ضرور کریں٬ کیونکہ ہم تھوڑی دیر کے سکون کے
لیے ان چیزوں کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن بعد میں ہمیں اس کی بھاری قیمت
چکانی پڑتی ہے“- |
|
|