عید قرباں اسلام کے دو تہواروں میں سے ایک ہے ،عید قرباں
کی اصل شان وشوکت اور اس کی روح راہ خدا میں اپنی عزیز ترین شی کی قربانی
پیش کرنا ہے جس کا سلسلہ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل
علیہ السلام کی بے مثال قربانی سے شروع ہوتا ہے ۔سیدنا حضرت ابراہیم علیہ
السلام کوبارگاہ خداوندی سے حکم ہواتھا کہ وہ اﷲ کی راہ میں اپنی سب سے
قیمتی چیز اور محبوب شئی قربان کریں۔ وہ تین رات مسلسل یہی خواب دیکھتے رہے
اور حکم کی پیروی میں اپنے بہتر سے بہتر جانوروں کی قربانی دیتے رہے مگر
خواب میں لگاتار ایک ہی حکم ملتا رہا کہ اپنی سب سے قیمتی شئی کی قربانی
دو، انبیاء اور پیغمبروں کے خواب سچے ہوا کرتے ہیں اس لئے حضرت ابراہیم
علیہ السلام نے اس غیبی اشارے کا مفہوم سمجھ کر اپنے بیٹے حضرت اسماعیل
علیہ السلام کوبارگاہ خدا میں قربان کا عزم مصصم کیا ۔اپنے خواب اور اس کے
مفہوم سے ننھے اسماعیل کوآگاہ کیا تو سعادت مند بیٹے نے بھی سرجھکاتے ہوئے
کہا کہ آپ اپنے رب کی رضا پوری کیجئے مجھے بھی آپ اسِ کے لئے آمادہ پائیں
گے۔قرآن نے ایثاروجذبہ کے اس بے مثال لمحے کی منظر کشی یوں کی ہے ۔رب افعل
ماتومر ستجدونی ان شاء اﷲ من الصابرین ۔
حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام رب کے حکم اطاعت میں خوشی بہ
خوشی تیا رتھے۔ بیٹے کو خوشی تھی رب کی بارگاہ میں قربان ہونے پر تو باپ کو
خوشی تھی منشاء رب کی کی تکمیل ہوجانے پر ،حضرت ابراہیم نے بیٹے کو لٹایا
،گردن پہ چھڑی چلائی لیکن چھڑی اپنا کام نہیں کررہی تھی ،بالآخر جنت کا ایک
مینڈھا ان کی جگہ ذبح ہوا آنکھوں سے پٹی ہٹاکر دیکھا تو پتہ چلا کہ اسماعیل
کے جگہ ایک جانور کی قربانی ہوگئی ہے ۔ اور اس طرح متعدد امتحانوں سے گذرنے
کے ایک مرتبہ پھر دونوں باپ بیٹے امتحان میں کامیاب وکامران ہوئے اور
پروردگار کے حضور میں سرخرو ہوئے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ واقعہ بتارہا ہے کہ اﷲ پاک کو دراصل
جانوروں کی قربانی مقصودنہیں ہے بلکہ متاع عزیز کی قربانی مقصودہے ،اخلاص
وﷲیت مقصود ہے -
قربانی کے عمل سے مقصود جانوروں کی قربانی نہیں ہے ، مہنگے ترین جانوروں کو
ایام قربانی میں ذبح کرنا نہیں ہے بلکہ اپنی سب سے عزیز شی کو اﷲ کی راہ
میں قربان کرنا ہے ۔ہرمسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ ہم اﷲ کی راہ میں
اپنے بیٹے کی قربانی کررہے ہیں ،زندگی کی سب سے قیمتی شی کو اﷲ کی راہ میں
نچھاوڑ کرنے کے جذبہ سے سرشارہیں۔ اگر ہم سے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا
حکم ہوگا تو بے چوں چرا ہم اس حکم کی تعمیل کریں گے ۔قربانی کا مقصد یہ ہے
کہ آدمی اپنے مفاد اور اغراض کو مفاد عامہ پرقربان کردے۔دوسروں کی ضروریات
کو ،اپنی ضروریات پر مقدم رکھے۔اوراپنے پورے وجود کو رضائے الٰہی کی خاطر
فناکردے۔سرتسلیم خم ہے جومزاج یارمیں آئے۔
جب تک یہ جذبہ ہمارے سینوں میں موجزن نہیں ہوگا ،عشق ومحبت کی یہ لگن یہ
ہمارے اند ر پیدا نہیں ہوگی اس وقت تک ہماری قربانی لاحاصل او ربے فائد ہ
ہے ۔ رسم اور فریضہ کی ادائیگی ضرور ہے لیکن اس روح ،اس منظر ،اس کیفیت اور
اس جذبے محروم ہے جس کی یاددہانی کے لئے امت مسلمہ پرقربانی کا یہ عمل واجب
قراردیا گیا ہے ۔شاعرمشرق علامہ اقبال اسی کا رونا رویا ہے کہ رگوں میں وہ
لہو باقی نہیں ہے وہ دل ،وہ آرزو باقی نہیں ہے۔ نمازوروزہ وقربانی وحج یہ
سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے-
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل علیہ السلام سب سے زیادہ عزیز
تھے ،انہوں نے بڑھاپے میں اپنی خدمت کے لئے رب کے حضور ایک بیٹے کے لئے
فریاد کی تھی جوبارگاہ ایزدی میں شرف قبولیت سے نوازی گئی او رحضرت اسماعیل
علیہ السلام کی شکل میں صبرو رضاکی پیکر نیک سیرت خاتون حضرت ہاجرہ رضی اﷲ
عنہ کے گود میں حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسے ہونہار نبی کی ولادت ہوئی
۔لیکن رب نے اسی کو قربان کرنے حکم دیا ۔اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے
بغیر کسی جھجھک کے رب کی بارگاہ میں پیش کردیا ۔
افسوس کا عالم یہ ہے کہ آج کا مسلمان اس جذبے بالکلیہ محروم ہے ۔ جانوروں
کی قربانی کرنا ہی اس نے عید قرباں کا اصل مقصد سمجھ رکھا ہے ۔قربانی کے
روح اور اس کی حقیقت کو سمجھنے سے مکمل طورپر قاصر ہے ۔قربانی کے عمل کو جن
مقاصد کے تحت امت مسلمہ کا شعا ر بنایا گیا ہے وہ مقاصد مسلمانوں کی زندگی
سے بہت دور جاچکے ہیں۔ہر عمل کے ساتھ یہاں بھی دکھاوا آگیا ہے ۔معاشرہ میں
آج کل ایک فیشن مہنگے ترین جانوروں کی خریداری کا بھی ہے ۔ مہنگا جانور
خریدنا موٹا او رفربہ جانور کی قربانی کرنامقصود ضرور ہے لیکن اخلاص کے
جذبے کے ساتھ، ریاکاری کے لئے نہیں، گوشت کی زیادتی او رعمدگی کے کی وجہ سے
نہیں۔بہار،بنگال اور ان صوبوں کی بات کریں جہاں گاؤ کشی کی اجازت ہے تووہاں
گائے اور بکرے کے علاوہ دیگر جانوروں کی قربانی کرنے کو حقارت کی نظروں سے
دیکھا جاتا ہے ۔جو لوگ بیل یا بھینس کی قربانی کرتے ہیں انہیں طعن و تشنیع
کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مقصد گوشت کھانا ہے ۔
6 اکتوبرکو ہمارے ملک ہندوستا ن اور اس کے قرب وجوار میں عیدالاضحی منائی
جارہی ہے۔ میری زندگی کا یہ پہلا اتفاق ہے کہ 2014 کے عیدا لاضحی میں عرب
ممالک او ربرصغیرہندو پاک کے درمیان دودن کا فاصلہ ہوگیا ہے ۔ سعودی عرب
سمیت پورے مشرق وسطی میں 4 اکتوبر عیدالاضحی منائی گئی ہے ، دون دن کافاصلہ
ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ،شریعت اسلامیہ میں چاند دیکھنے کا اعبتار
ہے لہذا جہاں جب چاند دیکھاگیا ہے اسی اعتبار سے عید منائی جارہی ہے ،یہی
اصل مذہب او رمسئلہ اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،جو لوگ اس سے ہٹ
کر سعودی عرب کے مطابق عیدا لاضحی منارہے ہیں وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے
ہیں ،شرعی احکام کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔اطلاع مطابق لندن ،پاکستان،
ہندوستان سمیت کچھ ممالک میں کسی فرقہ نے 4 اکتوبر کو عید الاضحی کی نماز
اداکی ہے سعودی عرب کی مطابقت میں، تو کسی نے 5 کو اداکی ہے ایک دن کا
فاصلہ مان رویت ہلال کا اعتبار کئے بغیر۔البتہ اکثریت او راہل حق کی جماعت
6 اکتوبر کو ادا کررہی ہے ۔کیوں کہ چاندکے اعتبار اس خطے میں 10ذی الحجہ کی
تاریخ 6 اکتوبر بروز سوموار کو واقع ہورہی ہے ۔
عید قرباں کے اس مبارک موقع پر ہماری ذمہ دار ی بنتی ہے کہ ہم پڑوس کے ان
غریبوں کو ضرور یادرکھیں جو قربانی کی وسعت نہیں رکھتے ہیں ۔بہتر ہے کہ اس
مقع پر ہم آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کریں کہ ’’قربانی کے
گوشت کو تین حصوں میں تقیسم کیا جائے ایک حصہ غرباء میں تقسیم کیا جائے
،ایک حصہ رشتہ دار اور دوست و احباب کو دیا جائے او ر ایک حصہ اپنے اہل
وعیال کے رکھا جائے ‘‘۔ساتھ اس موقع پر تباہی وبربادی کے شکار کشمیر کو بھی
یاد رکھیں ، بے گھر ہوئے لاکھوں کشمیریوں کیلئے اپنا جانی ومالی تعاون جاری
رکھیں ۔
عید قرباں کے اس اہم ترین موقع پر ہم عالم اسلام سمیت اپنے تمام
احباب،محسنین و محبین اور معزز قارئین کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش
کرتے ہیں ۔ |