لوگوں کے دلوں سے خوف کیسے نکلے

ایک ساتھی نے بتایا کہ وہ چرم قربانی کے حوالے سے انتظامیہ کے ساتھ ایک میٹنگ میں شریک تھے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے تشریف لائے تھے اور ہر ایک نے مہم چرم قربانی کے حوالے سے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کچھ فیصلے ہوئے کچھ وعدے کیے گئے کچھ سنجیدہ اقدامات ہوتے ہوئے نظر آئے تو یہ تین دن کی مہم بغیر کسی چھینا جھپٹی کے بغیر آرام سے گزر گئی جس کے لیے انتظامیہ کی کوششوں کی تعریف کرنا چاہیے اسی میٹنگ میں کسی سرکاری وردی والے آفیسر نے یہ سوال اٹھایا کہ آخر لوگوں کے دلوں سے خوف کیسے نکالا جائے؟بظاہر تو یہ بہت چھوٹا سا سوال ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ بڑی اس کی اہمیت ہے اور اس سے کہیں زیادہ بڑا اس کا جواب ہے ۔آج کا ہمارا موضوع یہی ہے ابھی میں اس موضوع کے حوالے سے نکات سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک خبر پر نظر پڑی جس نے اس موضوع کا مسئلہ حل کردیا ۔

خبر کا عنوان تھا "ریحانہ کو پھانسی "ریحانہ کی تصویر کے ساتھ اس خبر کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ ایران میں ایک خاتون کو اپنی عزت کے دفاع میں ایک شخص کو قتل کردینے کی پاداش میں سنائی جانے والی سزائے موت پر عملدرآمد کردیا گیا ۔سزا پانے والی خاتون نے ایک شخص کو کئی سال قبل اس الزام میں قتل کردیا تھا کہ اس نے مبینہ طور پر اس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی 26سالہ ملزمہ ریحانہ جباری اور مقتول کے خاندان کے درمیان صلح کی کوششیں کی گئی تھیں تاہم مقتول کے ورثاء نے دیت لینے سے انکار کرتے ہوئے خاتون کے پھانسی کا مطالبہ کیا تھا ۔

یہ خبر پڑھ کر میں یہ سوچنے لگا کہ دنیا کی کسی انسانی حقوق کی تنظیم نے اس سزا پر کوئی اعتراض نہیں کیا کہ ایک عورت کو موت کی سزا نہ دی جائے کسی یورپی یونین نے ایرانی حکومت کو کوئی دھمکی نہیں دی کہ اگر کسی کو موت کی سزا دی گئی تو ایران کا ناطقہ بند کردیا جائے گا ۔لیکن پاکستان میں اگر کچھ لوگ دھماکہ کر کے سیکڑوں معصوم بے قصور لوگوں کے جسم کے چیتھڑے اڑا دیں تو ساری انسانی حقوق کی تنظیموں کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور ان کے مجرموں کو جب سزائیں سنائی جاتی ہیں تو ساری انسانی حقوق کی تنظیمیں ان مجرموں کے حق میں چیخ وپکار کرنے لگتی ہیں یورپی یونین پاکستان کو امداد بند کرنے کی دھمکی دیتی ہے جب لوگ اپنی آنکھوں سے قتل ہوتے ہوئے دیکھیں اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں قاتل آزاد گھوم رہے ہیں ،جب کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے سو سے زائد پولیس افسران کو دن دہاڑے قتل کردیا جائے اور کسی ایک مقتول کے قاتل پکڑے نہ جائیں ،جب ایک بہت بڑے میڈیا گروپ کے رپورٹر کو لیاقت آباد کی مین شاہراہ پر قتل کردیا جائے اور اس قتل کے چھ گواہوں کو ایک ایک کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے اور کسی کے قاتل نہ پکڑے جائیں جب عوام خود یہ دیکھیں کہ پولیس افسران ،عالم دین صحافی و دانشور حضرات قتل کردیے جائیں اور کسی کے قاتل گرفت میں نہ آئیں تو پھر عام لوگوں کے دلوں میں خوف کا پیدا ہونا فطری امر ہے جس معاشرے میں مجرموں کو سیاسی تحفظ حاصل ہو وہ معاشرہ جنگل سے بدتر ہو جاتا ہے ۔جنرل ضیاء کے دور میں لاہور میں ایک بچے پپو کو اغوا کرکے پانچ افراد نے اس کے ساتھ بدفعلی کرنے کے بعد اسے قتل کردیا ،ان پانچ ملزمان کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا ان سب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی پھر ان سب کو شارع عام پر پھانسی پر لٹکایا گیا ۔جب بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو اس زمانے میں اخبار میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ ضیاء الحق نے اب تک ان تمام لوگوں کی سزاؤں کو معاف نہیں کیا تھا جنھیں عدالتوں نے سزائے موت سنائی تھی اور ان کے لواحقین نے صدر پاکستان سے رحم کی اپیل کی تھی ۔

جنرل ضیاء کے پورے دور میں نہ صرف عدالتی سزاؤں پر عملدرآمد کیا گیا بلکہ کچھ خصوصی سمری عدالتوں کے ذریعے معاشرے سے غنڈہ گردی کا خاتمہ کیا گیا کورنگی کے علاقے کا معروف شخص نوشے خان لیاری کے محمد اور رنچھوڑ لائن کے راجہ جاوید کو حیدرآباد میں ایک ہی دن پھانسی دی گئی تھی ۔یہ تینوں نام اس زمانے میں اپنے علاقوں میں دہشت کی علامت سمجھے جاتے تھے اسی طرح اس زمانے مین اداکارہ شبنم کے گھر ڈکیتی کا بڑا مشہور واقعہ ہوا تھا جس میں بڑے بڑے جاگیرداروں زمینداروں کے بیٹے ملزم تھے انھوں نے شبنم کے شوہر روبن گھوش کو رسیوں سے باندھ کر اس کے سامنے "ڈکیتی "کی واردات کی تھی ملزمان کے اوپر مقدمہ چلایا گیا ان سب کو پھانسی کی سزا ہوئی کیونکہ وہ بڑے گھرانوں کے چشم و چراغ تھے ،اس لیے جنرل ضیاء پر بہت زبردست دباؤ ڈالا گیا کے ان کی رحم کی اپیل منظور کرلی جائے ضیاء صاحب نے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور یہ کہا کے جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ اگر معاف کردے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔چنانچہ ان مجرمان کے گھر والوں نے اداکارہ شبنم سے رابطہ کیا اور ان کو اس بات پر راضی کرلیا کہ وہ ان مجرموں کو معاف کردیں ،اداکارہ شبنم نے نہ صرف انھیں معاف کیا بلکہ یہ خبر میں نے خود اخبار مشرق میں پڑھی تھی انھوں نے تما م مجرمان کو تفہیم القران کے سیٹس تحفے میں بھیجے تھے ۔

آج کیا صورتحال ہے کہ کم و بیش سات ہزار افراد ہیں جنھیں عدالتوں سے موت کی سزا کا فیصلہ ہوا ہے لیکن نواز شریف کی حکومت ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں کر پا رہی ہے اس لیے کہ یورپی یونین نے تجارت پر پابندی لگانے کی دھمکی دی ہوئی ہے ایک تاجرانہ ذہنیت جب اقتدار پر ہوتی ہے تو وہ تاجرانہ انداز میں سوچتی ہے اور فیصلے کرتی ہے ۔کئی سال قبل کے ای ایس سی کے ایم ڈی کو دن میں ان کے دفتر جاتے ہوئے قتل کردیا گیا ان کے قاتل کو سزائے موت سنائی گئی لیکن تقریباَ آٹھ سال سے اس سزا پر عملدرآمد نہیں ہوا ۔مجرموں سے ہمدردی کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو کسی جنگل میں بے یار مددگار بنا کر چھوڑا جا رہا ہے ،عوام کے دل سے خوف کیسے نکلے گا جب وہ گلیوں محلوں میں اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو قتل ہوتا ہوا دیکھیں اور پھر قاتل نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ ان کو سیاسی چھتری بھی حاصل ہے اس لیے محلوں میں لوگ خوف سے ان کی عزت کرنے پر مجبور ہیں جب عوام یہ دیکھتے ہیں فوج کے حاضر میجر کلیم کو اغوا کیا گیا ٹارچر سیل میں میں تشدد کیا گیا لیکن ان کے مجرموں کو بھی نہیں پکڑا گیا ،دوسری طرف یہ صورتحال ہے کہ کبھی کوئی ملزم پکڑا گیا اور اس پر کیس بنا کر عدالت لے جایا گیا تو عدالت سے اس کی ضمانت ہو گئی پولیس اور رینجرز والے کہتے ہیں کہ ہم مجرموں کو پکڑتے ہیں لیکن عدالت چھوڑ دیتی ہے عدالت کا کہنا ہے پولیس کیس ہی اتنا کمزور بناتی ہے کہ ہمیں مجبوراَ ضمانت منظور کرنا پڑتا ہے ان تمام مشکل مراحل سے گزر کر خال خال کوئی مجرم سزا کے مرحلے تک پہنچتا ہے تو حکومت سزا پر عمل نہیں کرپاتی۔ اس طرح کی صورتحال میں عوام کے دلوں سے خوف اسی وقت نکلے گا جب مجرموں کو ان کے کیے کی فوری سزا ملے گی۔
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 37278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.