عبرت سرایہ شہر ہے اور ہم ہیں دوستوں

ہمارے شہر میں ارباب حل و عقد (صاحب اختیار ) عوام الناس کو اپنا محکوم سمجھتے ہیں اورتمام احتیاطی تدابیر عوام کی سہولیات کو پامال کر کے کی جاتی ہیں جب چاہتے ہیں سڑکیں بغیر اطلاع بند کر دی جاتی ہیں ۔ اس رکاوٹ کا کوئی متبادل راستہ بھی نہیں دیا جاتا مثال کی طور پر ڈرگ روڈ اسٹیشن کے سامنے والے برج کو مرمت کے لئے بند کر دیا گیا ہے میں نے دیکھا کہ اسکول کے بچے بس اسٹاپ پر الہ دین جانے کیلئے بس کا انتظار کرتے رہے اور وہاں کوئی بس نہیں آئی اور متبادل راستہ کارساز کے پل سے اتر کر اسٹیڈیم روڈ کی طرف کارساز کے مین گیٹ کےسامنے سے یو ٹرن بنتا ہے شاہراہ فیصل پر دو کٹ ہیں جو بیریر سے بند رہتے ہیں اندازہ کیجئےاس قدر طویل راستہ ؟ سب کو علم ہے کہ فیول کس قدر مہنگا ہے اور ہمارے ہاں یو ٹرن کیلئے روڈ کٹ اس قدر طویل فاصلے پر ہیں کے آدمی پریشان ہو کر چھوٹے راستے کی طرف غلط سمت جا کر اپنا مقصد پورا کرتا ہے جس میں سو فیصد حادثات کا امکان ہوتا ہے-

کسی ہنگامے،احتجاج، دھرنے یا حملے کی صورت میں فوراَ راستہ بند کر دیا جاتا ہے خواہ گڑبڑ کی نوعیت کیسی بھی ہو ابھی ایئر پورٹ پر جو کارروائی ہوئی اخباری خبر کے مطابق مختلف صورت حال سامنے آئی مگر شاہراہ فیصل سے گلستان جوہر جانے والا راستہ ابھی تک بند ہے۔ حالانکہ عوام الناس نے اپنی سہولت کیلئے یہ راستہ اختیار کیا تھا اور اسکی وجہ سے شاہراہ فیصل پر ٹریفک کا بوجھ بھی کچھ کم ہو گیا تھا ۔ اس راستے کیلئے میں ڈان اخبار میں ایک سال پہلے ایک مراسلہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ شاہ فیصل کالونی کے پل پر گلستان جوہر کی طرف ایک راستہ کھولنا چاہئے تاکہ لانڈھی ملیر سے آنے والا ٹریفک گلستان جوہر کی طرف محفوظ طریقے سے اتر جائے -

یہ تو ہمارے اوپر بڑا احسان کیا گیا کہ مہران ایئر بیس پر حملہ ہونے کی صورت میں شاہراہ فیصل بند نہ کی گئی۔ ورنہ ہمیں ڈرگ روڈ ملیر اور لانڈھی سے شہر جانے کیلئے کورنگی انڈسٹریل ایریا سے گزر کر جانا پڑتا
جہاں دل چاہتا ہے وی آئی پی کلچر کیلئے بھی راستے بند کر دیئے جاتے ہیں اس سے قطع نظر کہ عوام کو کیا بھگتنا پڑتا ہے اور کتنی ایمبولنسوں میں مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں -

ایک اور رخ یہ بھی ہے کہ سارے پاکستان کی سیکورٹی کا دعویٰ مگر جرائم پیشہ افراد کو اول تو پکڑا نھیں جاتا اور اگر پکڑا بھی گیا تو کبھی سزا نہیں ہوتی ۔ اںصاف پر سیاسی مفاد کا پردا ڈال دیا جاتا ہے میڈیا ہر روز خطر ناک جرائم کی نشاندھی کرتا ہے ثبوت میں فوٹیج بھی دیکھاتا ہے مگر مجرموں کو شاید ہی سزا ہوتی نظرآتی ہے ۔ بڑے مجرم قصاص کے بجائے دیت دے کر آزاد ہو جاتے ہیں ۔ یہ ڈیل کتنی شفاف ہوتی ہے سب جانتے ہیں عوام سے لیکر سیاسی ادا کاروں تک سب محب وطن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر انصاف نا پید ہے عوام کا مقام ھانکے جانے والے جانوروں کی طرح ہے جدھر چاہا ہانک دیا جیسے چاہا مار دیا عوام کی ٹیکس سے تنخواہیں وصول کرنے والے اںہں پر مصیبت کے پہاڑ توڑتے ہیں اور یہ اسمبلی کے ممبر وزیر سفیر جتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں سب کو معلوم ہے اسلام آباد کی دہرنے میں اس موضوع پر بہت بولا گیا ہے مگر ان ہی اسمبلی ممبران کی حفاظت کیلئے عوام ائے دن عذاب جھیلتے رہتے ہیں میڈیا نے تو گاڑیوں کی تعداد بھی گنوادی تھی -

میری ارباب اختیار سے یہ التجا ہے کے سڑکوں کے بند کرنے میں احتیاط سے کام لیں اور اگر وقتی طور پر ایسا کرنا بہت ضروری ہو تو پہلی گنجائش پر عوام کی سہولیات کو جلد از جلد بحال کر دیا کریں تو ہم پر بڑا احسان ہوگا ۔

یہ ملک عوام کا بھی ہے انہیں اسطرح ڈیل نہ کیا جائے جیسے نو آبادیات میں مقامی آبادی سے برتائو کیا جاتا ہے -

دھرنوں کے دوران عوامی مینڈیٹ کی چوری پر بڑا شور کیا گیا وطن عزیز سے محبت کرنے کے دعویداروں پر یہ لازم آتا ہے کے یہ مینڈیٹ چور سیاستدان سب سے بڑٓا سیکورٹی ریسک ہیں ان سے نجات حاصل کیجئے اور تحقیق تفتیش کے بعد پاکستان کو محفوظ بنائیں-
Syed Haseen Abbas Madani
About the Author: Syed Haseen Abbas Madani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.