گزشتہ دنوں ایک بنک میں ایک دوست
کے پاس جانا ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ بنک سے قرض لینے والی کمپنیوں کے اسٹاک
کا سالانہ آڈٹ کیا جاتا ہے۔ میرے آڈیٹر نے بتایا کہ ڈبوں میں دودھ فروخت
والی ایک کمپنی کے آڈٹ کے دوران اس کمپنی کے اسٹاک میں پاؤڈر دودھ،
ویجیٹیبل آئل اور ڈیری کریم، کے علاوہ یوریا کھاد اور کاسٹک سوڈا بھی خاصی
مقدار میں شامل تھا۔ میرے دوست کا کہنا تھا کہ ڈبوں میں پیک دودھ کو گاڑھا
کرنے اور تا دیر محفوظ رکھنے کے لئے یہ کمپنیاں عوام کی جانوں سے کھیل رہی
ہیں۔ اور ملاوٹ شدہ دودھ بڑے پیمانے پر مہنگے داموں پر خرچ کیا جارہا ہے۔
جس سے عوام طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اس کے براہ راست
اثرات گردوں میں پتھری اور دیگر جسمانی عوارض کی صورت میں رونما ہورہے۔ اس
مضر صحت دودھ کے بارے میں دوسری بات انہوں نے یہ بتائی کہ اس کو کسی بھی
لیبارٹری میں ٹیسٹ کرالو۔ یہ نقلی دودھ ثابت نہیں ہوگا۔ اس سلسلے میں ایک
مقدمہ ان دنوں لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ مقدمے میں ایک وکیل نے ۰۱
ہزار روپے خرچ کر کے دودھ کے نمونے جمع کئے ہیں، اب یہ نمونے لندن کی
لیبارٹریز میں جانچ کے لئے بھیجے جائیں گے۔ ہائیکورٹ کے مسٹر جسٹس میاں
ثاقب نثار نے پیکٹوں میں بند ملاوٹ شدہ مضر صحت دودھ کی خرید و فروخت کے
خلاف کیس پر مزید کارروائی22 دسمبر تک ملتوی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ
عدالت کسی کو بھی انسانوں اور خصوصاً بچوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت
نہیں دے گی اگر کوئی اس جرم میں ملوث پایا گیا خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا،
اسے جیل جانا پڑے گا۔
عدالت نے قرار دیا کہ پاکستان میں دودھ میں ملاوٹ کا تجزیہ کرنے والی
لیبارٹریاں غیرمعیاری ہیں، اس لیے دودھ کے نمونے لیبارٹری ٹیسٹ کیلئے بیرون
ملک بھجوائے جائیں گے۔ دوران سماعت عدالتی معاون بیرسٹر سدرہ نے عدالت کو
بتایا کہ کئی ممالک میں چائنا کی تیار کردہ بہت سی کھانے پینے کی اشیاء پر
پابندی عائد کی گئی ہے کہ ان میں میلامائن کی ملاوٹ ہوتی ہے۔ عدالت کے رو
برو ظفراللہ ایڈووکیٹ نے درخواست دائر کر رکھی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ
پاکستان میں ڈبوں اور پیکٹوں میں بند فروخت ہونے والا دودھ مضر صحت اجزاء
کی ملاوٹ کا حامل ہے جس سے انسانی صحت اور خصوصاً بچوں کی صحت پر انتہائی
مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس دودھ میں میلا مائن اور دوسرے مضر صحت اجزاء
شامل ہوتے ہیں لہٰذا اس دودھ کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ اب تک
ہم دودھ میں پانی ملانے پر روتے تھے، لیکن اب پتہ چلا کہ دودھ میں محض پانی
ملانے کے عمل سے انسانی صحت پر اتنے مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے تھے۔ جس قدر
پاؤڈر، ویجیٹیبل آئل اور ڈیری کریم سے دودھ تیار کردہ دودھ سے ہوتے ہیں۔ یہ
تو سراسر انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح دودھ کو زیادہ
گاڑھا کرنے، زیادہ دنوں تک محفوظ رکھنے اور خراب ہونے سے بچانے کے لیے
یوریا کھاد، کاسٹک سوڈا اور دیگر مضر صحت کیمیکلز کا استعمال ایک گھناؤنا
جرم ہے۔ ایسے دودھ سے پاکستانی نسل طرح طرح کے امراض کا شکار ہو رہی ہے۔ اس
معاملہ میں حکومت کے ذمہ داران کی چشم پوشی کسی صورت بھی قابل معافی نہیں
ہے۔ نہ جانے ہمارے فوڈ انسپکٹر کیا کر رہے ہیں۔ حکومتی محکمے دودھ میں
ملاوٹ کے خلاف فوری مؤثر کارروائی عمل میں لانے سے گریزاں ہیں۔ ہر طرف رشوت
کا بازار گرم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مضر صحت ملاوٹ کرنے والے عناصر کے
خلاف مقدمات درج کروائے جائیں انہیں جرمانے کیے جائیں۔ انکے سٹاک اور
جائیدادیں ضبط کی جائیں۔ ملاوٹ کی وجہ سے بالخصوص بچوں اور نوجوانوں کی صحت
پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ نئی نسل کی جسمانی نشو و نما متاثر ہو رہی
ہے۔ ہماری قوم کے نوجوان نسل کے قد پست اور جسم نحیف ہوتے جا رہے ہیں جبکہ
دنیا کے دیگر ممالک کی نوجوان نسل دراز قد اور مضبوط جسم کی مالک ہے۔ حکومت
دودھ میں ملاوٹ کے خلاف مؤثر قانون سازی کرے اور دودھ میں ملاوٹ کے خلاف
مہم چلائے اور محکمہ لائیو سٹاک، محکمہ صحت، ڈسٹرکٹ گورنمنٹس، PCSIR
لیبارٹری خصوصی افسران برائے انسداد ملاوٹ اور محکمہ ماحولیات کو ہدایات
جاری کرے کہ وہ دودھ میں ملاوٹ کے خلاف مہم چلائیں، بازار سے دودھ کے نمونہ
جات حاصل کر کے لیبارٹری میں ٹیسٹ کروائے جائیں کہ اس میں کون سے کیمیکل
شامل ہیں۔ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ بھی دودھ میں ملاوٹ کے خلاف مہم چلائیں۔ اور قوم
کو ملاوٹ کے عذاب سے بچائیں۔ یہ کوئی سیاسی ایشو نہیں ہمارا اور ہماری
نسلوں کی صحت کا معاملہ ہے۔ دیگر جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے
بھی میری درخواست ہے کہ دودھ میں مضر صحت ملاوٹ کو رکوانے کے لیے اپنا
کردار ادا کریں۔ یہ ہم سب کے بچوں کا معاملہ ہے۔ |