ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
اسے کیا خبر تھی کہ وہ آج شام جب وہ گھر سے باہر جائے گا تو واپس گھر خود
چل کر صحیح سلامت واپس نہ آئے گا اس نے آج بہت دن بعد بڑی محبت اور شوق سے
اپنی بیگم سے اپنی پسند کے کھانے کی فرمائش کرتے ہوئے کہا کہ ‘ آج تو
تمہارے ہاتھ کے کوفتے کھانے کا بہت دل چاہ رہا ہے اور دیکھو ذرا زیادہ تیار
کرنا آج سب مل کر کھائیں گے وہ اکثر ہی اپنے بھائیوں اور بھابیوں کو کھانے
پر بلایا کرتا تھا اور بیوی بچوں کے ساتھ ساتھ باقی عزیزوں کے ساتھ کھایا
کرتا تھا سو آج بھی اس کا یہی ارادہ تھا کہ ساری فیملی آج میرے گھر پر میرے
ساتھ کھانا کھائے
وہ ہنس مکھ اور خوش اخلاق محبت کرنے والا تو تھا ہی لیکن آج تو موڈ کچھ
زیادہ ہی خوش گوار دکھائی دے رہا تھا ‘واڑ روب‘ سے نیا سوٹ نکالا اور نئی
سپلائی کا آرڈر لینے کے لئے ‘مون مارکیٹ‘ کے لئے چل دیا اور جاتے جاتے کہہ
گیا کہ کھانا تیار رکھنا بس زیادہ دیر نہیں ہو گی بس آڈر لے کر آیا اور پھر
سب مل کر کھانا کھائیں گے
ایک روز پہلے اپنی فیملی کے ساتھ سارا دن صبح سے شام تک سیر کرتا رہا بچوں
کو دن بھر تفریح کروانے کے بعد نانی کے گھر لے گیا کہ کیا یاد کرو گے چلو
آج امی کے ماما پاپا سے بھی مل آؤ اسے کیا خبر تھی کے اب نہ کبھی بچے اپنے
“پاپا“ کے ساتھ کھانا کھا سکیں گے نہ کبھی نانی کے گھر جا سکیں گے اس کے دو
بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں سب سے بڑا بیٹا نو سال کا اور سب سے چھوٹی بیٹی دو
سال کی وہ خود اپنے باپ کی وفات کے بعد اپنے گھر کا سرپرست ہے بہت چھوٹی
عمر میں اس پر بڑی ذمہ داریاں تھیں لیکن اس نے بڑی ہمت سے مقابلہ کرتے ہوئے
اپنی فیملی کو بڑی محنت اور محبت سے سہارا دیا کہ آج اس کے گھر والے اس کے
بہن بھائی اپنے پاؤں پر کھڑتے ہیں اپنی بیوی اور بچوں کے لئے عمدہ گھر
بنایا جسے ہر سہولت سے آراستہ کیا
ماں اور بھائی کو حج پر روانہ کیا اور خود آخرت کے سفر پر روانہ ہو گیا ماں
کو کیا خبر تھی کہ وہ اپنے لخت جگر کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکے گی کہ جو اسے
خود گاڑی میں بٹھا کر حج کے لئے ‘ائیر پورٹ‘ پر چھوڑنے آیا تھا چھوٹے بھائی
کو کیا خبر تھی کہ وہ گھر واپس آکر اپنے باپ جیسے مشفق بھائی کو اپنا منتظر
نہ پائے گا اسے کبھی دیکھ نہ پائے گا کہ بھائی نے حج سے واپسی کا انتظار
بھی نہ کیا اور رخصت ہو چلا ہمارا استقبال بھی نہ کیا اور ہمیں چھوڑ کر
ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہم ایسا بھائی کہاں سے لائیں گے کسے اپنا درد سنائیں
گے کس سے اپنی فرمائشیں پوری کروائیں گے
سات دسمبر کی رات وہ ایک جیولری کی دوکان پر نیا مال تیار کرنے کے لئے آرڈر
لینے گیا تھا آرڈر لے کر سیٹ سے اٹھا تو ناگہاں دھماکے کی آواز آئی دوکان
کے باہر شور چیخ و پکار اور افراتفری کا بازار گرم دوکان کے مالک نے کہا کہ
ابھی مت جانا ذرا رش کم ہو جائے پھر چلے جانا مگر روکنے والا کب جانتا تھا
کہ اسے موت بلا رہی ہے اور جب موت بلاتی ہے تو کوئی کسی کے روکنے سے نہیں
رکتا وہ باہر آگیا اور گھر واپسی کے لئے گاڑی کی طرف پلٹا ہی تھا کہ اچانک
اطراف سے اسے آگ کے شعلوں کی لپیٹ نے آلیا ہاتھ سے موبائل چھوٹ گیا جو شاید
گھر پنے گھر آمد کے لئے ہاتھ میں پکڑا تھا جو اچھل کر دور جا گرا اسی لمحے
موت کی وادی میں اتر گیا
ٹی وی چینل پر اطلاع آئی کے مون مارکیٹ میں دھماکہ گھر والوں نے خیریت
معلوم کرنے کے لئے فون کیا گھنٹی بجتی رہی مگر اس افراتفری میں کسے بیل
سنائی دیتی کہ فون سننے والا تو ہمیشہ کے لئے چپ ہو گیا ہے گھر والے دل کو
تسلیاں دیتے رہے رابطے کی کوشش کرتے رہے انتظار بچے دعا کرتے رہے‘ اللہ
میرے پاپا کو جلدی بھیج دیں بھوک لگی ہے“ کسی بچے نے کھانے کو ہاتھ نہ
لگایا کہ ہم پاپا کے ساتھ ہی کھانا کھاتے ہیں پاپا کے ساتھ ہی کھائیں گےان
معصوم بچوں کو کیا خبر کے اب وہ کبھی پاپا کے ہاتھ سے ایک لقمہ بھی نہیں
کھا سکیں گے
جب انتظار طویل ہوا اور کوئی خبر نہ مل سکی تو دوست احباب جاننے والے سب
تلاش میں نکل پڑے جس جس ہسپتال میں دھماکے سے زخمی ہونے والوں کی منتقلی کی
اطلاع ملی وہاں جا کر تلاش کرتے رہے ‘نیوز چینل پر اس حادثے کے نتیجے میں
ہونے والی ہلاکتوں کی فہرست میں اپنے پیارے کا نام دیکھنا ۔۔۔ دل نے تسلیم
نہ کیا تمام ہسپتال چھان مارے مگر کسی چہرے میں مطلوبہ چہرہ دکھائی نہ دیا
مایوس ہو کر واپسی کی راہ لینے کو تھے کہ کسی نے کہا بھائی وہ اس طرف ‘ڈیڈ
باڈیز‘ میں بھی چیک کر لیں نہ چاہتے ہوئے بھی ڈرتے ڈرتے ہمت کی تو وہیں پر
گوہر مقصود پایا گیا اپنے مہربان اور محبت کرنے والے نرم خو بھائی کو اس
شدید حالت میں دیکھ کر نہ جانے خود پر کیسے قابو پایا ہوگا کانپتے ہاتھوں
اور لڑکھڑاتے لہجے میں گھر والوں کو کیسے اطلاع دی ہوگی اور پھر یہ دلدوز
خبر سنتے ہی گھر میں کیا کہرام پرپا ہوا ہو گا ۔۔۔۔ بیان کرنے کا سوچتے
ہوئے بھی دل کانپتا ہے (انا للہ وانا الیہ راجعون)
رات بھر اذیت ناک انتظار میں کٹ گئی اور جب صبح اس شہید کا جنازہ جانے کے
لئے تیار ہوا تو اس کو الوداع کہنے والوں کی حالت بیان سے باہر ہے ایک جم
غفیر اس جوان کی موت پر ہر آنکھ اشکبار دو سالہ معصوم بچی روتی ہوئی ماں
اور پھوپھی کے آنسو حیرانی سے دیکھتے ہوئے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے خود
پونچھ رہی ہے اور پوچھ رہی ہے کہ “پاپا کدھر جا رہے ہیں“ اسے کون بتائے کہ
پاپا اس جہان جارہے ہیں جہاں سے کبھی واپس نہیں آئیں گے اپنی گڑیا کو آج کے
بعد اپنی گود میں بٹھا کر کھانا نہیں کھلائیں گے، کبھی کوئی چیز نہیں
دلائیں گے، اب کوئی کھلونا نہپں دلائیں گے
یہ تو محض ایک کہانی ہے جو مجھے پتہ چلی لیکن ہماری سر زمیں پر آئے روز
ایسی نہ جانے کتنی کہانیاں رقم ہوتی جارہی ہیں ایک ہی لمحے میں آنًا فاناً
سینکڑوں جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں اس دہشت زدگی کے ہاتھوں شہید ہو جانے
والے اپنے پیچھے اور نامعلوم کتنی اور کون کون سی کہانیاں چھوڑ جاتے ہیں
اللہ تعالیٰ ان شہیدوں کی روح کو سکون عطا فرمائے ان کی قبریں کشادہ اور
روشن رکھے ان کے درجات بلند کرے اور انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے
اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے (آمین) |