انسانی تقدیر کی حقیقت
(Mohammad Rafique, Dera Nawab Sahib)
مسئلہ تقدیر ایک معرکتہ الآراء
موضوع ہے اور یہ اوائل اسلام ہی سے چلا آرہا ہے ۔ اور اسکی اہمیت آج تک کم
نہیں ہوئی لوگ اپنی تقدیر کے بارہ میں جاننا چاہتے ہیں۔ اور اگر کسی محفل
میں اسکا ذکر چھڑ جائے تو اس میں نہایت جوش و خروش سے حصہ لیتے ہیں اور
سرگرمی دکھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج قسمت کا حال بتانے والوں کا ستارہ عروج
پر ہے تقریباً ہر اخبار یا رسالے میں یہ کالم ضرور شائع ہوتا ہے کہ ’’ستارے
کیا کہتے ہیں؟‘‘ یا ’’ آپ کا یہ ہفتہ کیسا گزرے گا‘‘ اور اس موضوع پر بڑے
بڑے اشتہار اخبارات کی زینت بنتے ہیں کہ ستاروں کے ملاپ و بندش اور کالے
علم کی کاٹ وپلٹ کے ماہر آپکی ہر مشکل منٹوں میں حل کرسکتے ہیں اور آپکی
تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ زائچہ بنانے والے ، پتھروں کے سحری خواص
بتانے والے اور ہاتھ کی لکیروں سے تقدیر کے اسرار و رموز بتانے والے پامسٹ
حضرات الگ سے سر گرم عمل ہیں۔
اس مسئلہ کی حقیقت کیا ہے؟ اسلامی تعلیمات کے مطابق اہل سنت و الجماعت کا
یہ متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی، اسکی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان
لانے کے ساتھ ساتھ تقدیر پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یعنی یہ عقیدہ رکھنا
کہ جو اچھائی یا برائی انسان کو پہنچتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’کوئی آفت نہیں پڑتی ملک میں اور نہ تمھاری جانوں میں جو نہ لکھی ہو ایک
کتاب میں پہلے اس سے کہ پیدا کریں ہم اس کو تاکہ غم نہ کھایا کرو اس پر جو
ہاتھ آیا اور نہ شیخی کیا کرو اس پر جو تم کو اس نے دیا‘‘(الحدید پ۲۷)۔
مسئلہ تقدیر کے بارہ میں علماء کرام کا مسلک یہ ہے کہ انسان نہ تو بالکل
مجبور پیدا کیا گیا ہے اور نہ ہی کلی طور پر با اختیار ہے بلکہ درمیانی
حالت ہے اور تقدیر علم الٰہی کا نام ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک و
تعالی نے انسان کو نیکی و بدی کے دو راستے دکھا دیئے ہیں اور ان میں سے کسی
ایک پر چلنے کا اختیار اسے دے دیا گیا ہے مگر اللہ تعالی اپنے علم ازلی کی
رو سے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ انسان دونوں راستوں میں سے اپنے لئے
کونسا راستہ اختیارکرے گا اور کس راہ پر چلے گا؟ اور اس چیز کو اس نے ایک
واضح کتاب ( لوح محفوظ ) میں لکھ دیا ہے۔
مگر یہاں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب ہر چیز پہلے سے لکھی جا چکی ہے اور
قلمیں خشک ہو چکی ہیں اور ان میں کوئی رد بدل بھی نہیں ہو سکتا تو پھر عمل
کرنا بے کار ہے کیونکہ ہوگا وہی جو پہلے سے لکھا جا چکا ہے اور علم الہٰی
میں طے شدہ ہے ؟ اس بات کو اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ
پھر قدرت کی طرف سے انسان کی ہدایت کیلئے سلسلہ انبیاء قائم کرنا اور اس
میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجنا ، انسان پر اس کے اچھے یا برے اعمال
لکھنے کیلئے دو فرشتے کراماً کاتبین مقرر کرنا، قبر میں منکر نکیر کے
سوالات اور اس بناء پر قبر کا جنت کا باغ یا جہنم کا گڑھا بننا، روز حشر کا
قیام اور لوگوں کو نامہ اعمال دینا،اعمال کا وزن تولنے کیلئے میزان عدل
قائم کرنا، کیا معنی رکھتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ خوب جانتے ہیں کہ میں
نے تو اس شخص کے ہاتھ تقدیر کی رسی سے باندھ دئے ہیں اور یہ اپنی مرضی سے
کوئی حرکت نہیں کر سکتا اور یہ وہی کرے گا جو میں چاہوں گا تو پھر اس سے
اسکے اچھے یا برے اعما ل کا حساب لینے کی کیا حیثیّت ہے؟ یہ تو صریح ظلم
اور بے انصافی ہے۔
مگر ایسا نہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو نیک اور بدی کے
دونوں راستے دکھا دئے ہیں اور ان میں سے کسی ایک پر چلنے کا اختیار بھی اسے
دیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ ہم نے نفس انسانی پر اسکی نیک و بدی کو
الہام کر دیا ہے‘‘ اور فرمایا ’’انسان کیلئے وہی کچھ ہے جس کیلئے اس نے سعی
کی‘‘(القرآن)
یہ آیات ثابت کرتی ہیں کہ انسان کو سعی یعنی اچھے یا برے اعمال کرنے کی
طاقت عطا فرمائی گئی ہے اور اسی پر جزا و سزا مرتب ہو گی۔ اور پھر بات یہ
ہے کہ کوئی شخص یقینی طور پر یہ نہیں جانتا کہ
اسکی تقدیر میں کیالکھاہوا ہے؟ کیونکہ لوح محفوظ تک رسائی اور وہاں خاص
اپنی تقدیر کے بارہ میں پڑھنا ایک ناممکن بات ہے اسکے سامنے تو ایک ہی
راستہ ہے کہ اپنی مقدور کے موافق اچھا یا برا عمل کرے۔ اس مسئلہ کا ایک اور
پہلو یہ ہے کہ قرآن پاک میں متعدد آیات ایسی ہیں کہ جن کا موضوع ہے کہ ’’
اگر ایسا ہوتا تو ایسا ہوجاتا‘‘ یعنی اگر انسان وہ کام کرتا جس کا ہم نے
اسے حکم دیا تھا تو یہ واقعات رونما نہ ہوتے اور ’’اگر وہ ہمارے لئے جدو
جہد کرتا تو اسے ہم اپنی راھیں دکھا دیتے ‘‘ اور اگر فلاں قوم ایسے کام نہ
کرتی تو ان پر اللہ کا عذاب نہ آتا‘‘ وغیرہ۔چنانچہ فرمایا:
’’اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور ڈرتے تو ہم دور کردیتے ان سے انکی
برائیاں اور انکو داخل کرتے نعمت کے باغوں میں‘‘اور فرمایا’’اور اگر قائم
کرتے وہ توریت اور انجیل کو اور اس کو جو نازل ہوا ان پر ان کے رب کی طرف
سے تو کھاتے رہتے اپنے اوپر اور اپنے پاؤں کے نیچے سے‘‘(سورہ المائدہ) اور
’’اے ایمان والو! اگر تم ڈرتے رہو گے اللہ سے تو کردے گا تم میں فیصلہ اور
دور کردے گا تم سے تمہارے گناہ اور تم کو بخش دے گا اور اللہ کا فضل بڑا
ہے‘‘(سورہ الانفال) اور ’’اور جب سنا دیا تمہارے رب نے اگر احسا ن مانو تو
اور بھی دوں گا تم کو اور ناشکری کرو گے تو میرا عذاب البتہ سخت ہے‘‘(سورہ
ابراہیم پارہ ۲۳)
ان آیات میں ’’ اگر ایسا ہوتا‘‘ قابل غور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان
اپنی مرضی سے کچھ بھی نہیں کرسکتا اور تقدیر کی رسی میں جکڑا ہوا ہے اور ہل
بھی نہیں سکتا تو اسے یہ کہنا کہ ’’اگر تم فلاں کام کرو گے تو یہ تمہارے
لئے بہتر ہو گا اور اگر فلاں کام کرو گے تو یہ تمہارے حق میں نقصان دہ
ہوگا‘‘ کیا معنی رکھتاہے؟ کیونکہ جب بندہ کسی قسم کی حرکت پر قادر ہی نہیں
تو اپنے نفع و نقصان پر کیسے قادر ہو سکتا ہے؟
لہٰذا انسان ہر گز یہ نہیں جانتا کہ اسکی تقدیر میں کیا لکھا ہے اور اسکی
تقدیر اچھی ہے یا بری؟ اس کیلئے تو یہ حکم ہے کہ اسے قدرت کی طرف سے ارادہ
و اختیار کی جتنی قوت عطا فرمائی گئی ہے اسے وہ شریعت کے مطابق اچھے اعمال
کرنے میں صرف کرے اور ان برے اعمال سے بچنے کی کوشش کرے جن سے شریعت نے اسے
منع کیا ہے۔دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ تقدیر انسانی کی حقیقت یہ
ہے کہ جس چیز کو وہ اپنے لئے بہتر خیال کرتا ہے اسے حاصل کرنے کی پوری پوری
کوشش کرے اور جس چیز کو وہ اپنے لئے نقصان دہ خیال کرتاہے اس سے بچنے کی
پوری پوری کوشش کرے۔بقول اقبال.......
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے |
|