شہید مظلوم سیدنا عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

آپ کا اسم گرامی عثمان کنیت ابوعبداللہ اور ابو عمر ہے لقب ذوالنورین والد کا نام عفان اور والدہ محترمہ کا نام اروای بنت کریز ہے حضرت عثمان کے والد گرامی کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور پاکۖ کے جد امجد عبدمناف سے جاملتا ہے اور والدہ کی طرف سے بھی پانچویں پشت میں حضور پاکۖ کے جد امجد عبدمناف سے جاملتا ہے ۔ (طبری 444 ص ج 3طبقات ابن سعد 53 ص ج 3 تاریخ الخلفاء 4 ص 149 انساب الشراف ص1 ج 5)

حضرت عثمان غنی کی والدہ کی والدہ یعنی آپ کی نانی ام حکیم البیضاء رسول اللہ ۖ کے دادا عبدالمطلب کی صاحبزادی اور حضرت عبداللہ کی بہن تھیں اس لئے حضرت عثمان آقا کریم ۖ کی سگی پھوپھی کے نواسے تھے (اسد الفایہ ص191 ج 5 مستدرک ج 3 ص 96)

آپ کی پیدائش عام فیل کے چھٹے سال قبیلہ بنو امیہ میں ہوئی ۔ حضور پاکۖ نے جب مکہ معظمہ کی سرزمین پر دعوت سلام کا آغاز کیا تو سب سے پہلے آپ کی آواز پر لبیک کہنے والے سیدنا ابوبکر صدیق تھے ۔ آپ نے ایمان لانے کے بعد اسلام کی روشنی پھیلانے اور اس کی اشاعت کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا چونکہ حضرت عثمان غنی سے پہلے بھی آپ کی دوستی تھی اس لئے اسلام کی دعوت دی حضرت عثمان آپ کی گفتگو سے بہت متاثر ہوئے اور اسلام لانے پر آمادہ ہوگئے ۔اسلام لانے کے بعد آپ کے چچا حکیم بن ابی العاص بن امیہ نے حضرت عثمان غنی کو باندھ دیا اور کہا کہ اپنے آبائو اجداد کا دین چھوڑ کر نیا دین اختیار کرلیا اور قسم اٹھا کر کہا میں تم کو اس وقت تک نہیں چھوڑوں گا جب تک تم نیا دین نہ چھوڑدو حضرت سیدنا عثمان غنی نے جواباًارشاد فرمایا اے چچا میں اس دین کو کبھی نہیں چھوڑوں گا چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے ۔آپ کے چچا نے جب آپ کا یہ عزم و استقلال دیکھا تو آپ کو چھوڑ دیا اسلام قبول کرنے میں آپ کا چوتھانمبر تھا یہ وقت مسلمانوں کے لئے بڑا شدید تھا جب کفار نے آقا کریم ۖ اور آپ کے ساتھیوں پر شدت کی انتہا کردی قریش کے غیض و غضب میں اضافہ ہوتا چلا گیا قریش کے لوگوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو سخت قسم کی اذیتیں دی جائیں ان کا خیال تھا کہ اس طرح مسلمان پریشان ہوکر اسلام سے ہٹ جائیں گے اور کوئی مسلمان ہونے کی جرأت نہیں کرے گا چنانچہ سب سے پہلے ان لوگوں کو تختہ مشق بنایا گیا جو بے سہارا تھے ان میں نمایاں حضرت بلال ہیں سیدنا عمار بن یاسر ، سیدنا صہیب رومی ، حضرت سمیہ ، حضرت زنیرہ ،سیدنا جناب اور کئی دوسرے صحابہ و صحابیات پر ظلم کی آندھیاں چلائی گئیں مگر ان بادہ الست کے شیدائیوں کے عشق و مستی میں کچھ فرق نہ آتا اور جب ایک دفعہ چہرہ والضحیٰ ۖ کو دیکھ لیتے تو سارے زخم و درد اور پریشانیوں کو بھول جاتے اور بے چین دلوں کو قرار آجاتا حضرت عثمان پر جب چچا کا تشدد سخت گیری اور ظلم زیادہ ہوگیاتو آقا کریم ۖ کے حکم پر آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ حبشہ کی طرف ہجرت کرگئے رسول کریم ۖ نے حضرت صدیق اکبر سے فرمایا عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم و لوط کے بعد اپنی اہلیہ کے ہمراہ ہجرت کی چند برس بعد یہ اطلاع ملی کہ قریش مسلمان ہوگئے ہیں تو مہاجرین واپس آئے آپ بھی واپس آگئے مگر اطلاع غلط نکلی اکثر واپس چلے گئے مگر آپ مکہ میں ہی رہے پھر آپ نے مدینہ منورہ کی طرف دوسری ہجرت کی اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ تشریف لے گئے دیگر مسلمانوں کی طرح آقا کریم ۖ نے حضرت عثمان کو بھی مواخات میں شریک کیا حضرت عثمان کو اوس بن ثابت کا بھائی قرار دیا۔ اوس بن ثابت حضرت حسان بن ثابت کے بھائی تھے قبیلہ بنو بخار سے تعلق تھا آپ نے قریش کی طرح تجارت کو ہی پیشہ بنایا تھا جب بنی امیہ کے دولت مند تاجروں میں شمار کئے جاتے تھے مدینہ شریف میں بھی آپ نے تجارت شروع کی اور تھوڑے ہی دنوں میں مال و زور آپ پر نچھاور ہونے لگا آپ اپنی دولت کا کثیر حصہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرچ فرماتے تھے جب آپ مدینہ طیبہ آئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک کنویں بئر رومہ کے سوائے تمام کنووں کا پانی کھارا ہے ۔ اس کا یہودی مالک منہ مانگی قیمت پر پانی دیا کرتا تھا آقا کریم ۖ نے ارشاد فرمایا کوئی ایسا شخص ہے جو بئر رومہ خرید کر مسلمانوں کو وقف کردے اور قیامت کے دن اس کا بہترین اجر و ثواب پائے تو سیدنا عثمان غنی نے بڑی کوشش کے بعد وہ خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کردیا اور سب اس کنویں سے سیراب ہونے لگے سیدنا عثمان غنی کا اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے یہ صدقہ جاری و ساری ہے آقا کریم ۖ کی حدیث مبارکہ ہے '' جس نے بئر رومہ خریدا اس کیلئے جنت ہے '' ( بخاری شریف ج 1 ص 1389 ، 523)

غزوہ بدر میں آپ اس لئے شرکت نہ کرسکے کہ حضرت رقیہ سخت علیل تھیں پیارے آقا کریم ۖ کے حکم پر آپ مدینہ رک گئے اور ٹھیک اس وقت جب آقا کریم ۖ کے قاصد مدینہ میں بدر کی فتح کا اعلان کررہے تھے حضرت عثمان اور حضرت اسامہ بن زید قبرستان میں حضرت رقیہ کی تدفین کررہے تھے حضرت عثمان غنی کو چونکہ حضور پاکۖ خود مدینہ طیبہ چھوڑ گئے تھے اس لئے حضرت عثمان کو حضور نبی کریم ۖ نے مجاہد قرار دیا۔ بدر کے مال غنیمت میں سے ایک مجاہد کے برابر مال غنیمت دیا اور بشارت دی کہ تم بدر کے مجاہدو کے ثواب کے برابر شریک ہو غزوہ احدغزوہ ذات الرقاع میں شرکت کی غزوہ ہو یا کوئی اہم معاملہ سیدنا عثمان غنی اس میں برابر شرکت کرتے تھے غزوہ تبوک میں جب پیارے نبی ۖ نے مالی اعانت طلب فرمائی تو سینکڑوں اونٹ مال و اسباب اشیاء خوردونوش آپ نے لشکر اسلام پر نچھاور فرمایا تو پیارے آقا کریم ۖ نے اپنے دونوں مبارک ہاتھ آسمان کی طرف بلند فرمائے اور فرمایا اے اللہ عزوجل میں عثمان سے خوش ہوں تو بھی اس سے راضی رہ ۔

6ھ کو آپ نے عمرے کا ارادہ فرمایا آپ کے ہمراہ پندرہ سو انصار و مہاجرین تھے آپ کو سیدنا بشر بن سفیان نے اطلاع دی کہ قریش آپ کے مقابلہ پر کمربستہ ہوگئے ہیں آپ نے سفر جاری رکھا اور حدیبیہ کے مقام پر پڑائو ڈالا اور حضرت عثمان کو اپنا سفیر بنا کر مکہ بھیجا جب سیدنا عثمان کو تاخیر ہوئی تو یہ مشہور ہوگیا کہ وہ مکہ مکرمہ میں شہید ہو گئے ہیں تو آپ ۖ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ اب میں عثمان کے قتل کا بدلہ لئے بغیر ہرگز یہاں سے نہ جائوں گا آپ نے تمام صحابہ کرام سے بیعت لی جب سب سے بیعت لے لی تو اپنادایاں مبارک ہاتھ بائیں مبارک ہاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا کہ یہ ایک ہاتھ عثمان کی طرف سے ہے اور دوسرا ہاتھ میرا ہے ۔یہ مقام و مرتبہ کسی دوسرے صحابی کو نہ ملا جب آپ کی شہادت کے وقت حالات نازک سے نازک ہورہے تھے تو آپ نے ابوثوالفہمی سے فرمایا مجھے اپنے پروردگار سے بڑی امیدیں ہیں اور میری دس امانتیں اس کی بارگاہ اقدس میں محفوظ ہیں ۔ اسلام میں چوتھا مسلمان ہوں ، رسول اللہ ۖ نے مجھے سے اپنی صاحبزادی کا نکاح فرمایا ، ان کا وصال ہوا تو دوسری صاحبزادی نکاح میں مرحمت فرمائی ۔، میں نے کبھی نہیں گایا ، میں نے کبھی بدی کی خواہش نہیں کی ، جس وقت سے میں نے رسول پاکۖ کی بیعت کی ہے میں نے وہ اپنا دایاں ہاتھ کبھی اپنی شرمگاہ کو نہیں لگایا، میں جب سے مسلمان ہوا ہوں ہر جمعة المبارک کے دن میں نے ایک غلام آزاد کیا ، زمانہ جاہلیت میں یا اسلام میں کبھی زنا نہیں کیا، میں نے کبھی زمانہ جاہلیت یا اسلام میں چوری نہیں کی ۔ میں نے رسول پاکۖ کی حیات مبارکہ میں ہی قرآن کریم حفظ کرلیا تھا۔ مناقب حضرت عثمان غنی کا احاطہ ناممکن ہے آپ جامع القرآن ہیں آج تمام مسلمان آپ ہی کے جمع شدہ قرآن پاک کی تلاوت کررہے ہیں آپ سیدنا ابوبکر صدیق کے مشیر تھے سیدنا عثمان غنی حضرت سیدنا عمر فاروق کے بہترین مشیر اور مفتی تھے اور تیسرے خلیفہ راشد بنے تقریباً بارہ سال آپ نے خلافت کے فرائض انجام دئیے یہ بارہ سال اسلامی فتوحات کا ایک عظیم الشان دور ہے آپ کے مبارک دور میں حکومت اسلامیہ میں بے پناہ اضافہ ہوا مال غنیمت بہت بڑا تعداد میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا جس سے مسلمان خوش حال ہوگئے آپ ہی کے دورمیں سمندری جہاد کا آغاز ہوا بڑے بڑے کروفر کے بادشاہ مارے گئے ۔اور عظیم سلطنت کو اسلام کے زیر نگیں آئیں قیصر روم ویزد گرد جیسے بادشاہ واصل جہنم ہوئے ۔ تین براعظموں ایشیاء افریقہ اور یورپ میں اسلام کا پیغام پھیلااور لشکر اسلام کی فتوحات جوکہ دور فاروقی میں دشروع ہوئی تھیں پھیلی تھیں۔ پھیلتی چلی گئیں ۔اور پر محاذ پر لشکر اسلام و مجاھدین نے اپنی صلاحیتوں کا لوھا منوایا (طبری جلد ٣٠٧

٩ ایران خراسان آذر بائیجا ن ،افغانستان ،طرابلس ،مراکش کی فتح ہوئی اسکندریہ ،افریقہ برقپ اور تیونس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو ارومیوں کے ساھت جنگ اسبیتلا میں ہوئی رومی فوج کا کمانڈر گرے گوری حضرت عبداللہّٰ بن زبیر کے ہاتھوںمارا گیا بے شمار مال غنیمت حصے میں آیا ۔مال غنیمت میں سے ہر سوار کو تین ہزار دینار اور پیدل کو ایک ہزار دینار ملے ۔ ( الہدایہ النہایہ ج د)تاریخ ابن خلدون ،ج ،د )۔اندلس ، قبرص،جزیرہ روطبرستان کی فتح ہوئی ۔ آپۖ پیکر شرم وحیا اور کان حلم وجودوسخاتھے ۔آقاکریمۖ کا فرمان مبارک ہے (مفہوم) کہ میںاسکی حیا کیو ںنہ کر و جسکی حیا فرشتے کرتے ہیں۔ آپۖ کا فرمان مبارک ہے کہ عثمان تمام صحابہ میں اخلاق میں مجھ سے زیادہ مشابہ ہیں۔ سیدنا عثمان غنی خوف خدارکھتے تھے قبر دیکھ کر رویا کرتے تھے ۔ سیدنا عثمان پراللہّٰ کا خوف طاری رہتا تھا ۔ سیدنا عثما ن جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اتنا روتے لپ داڑھی مبارک تر ہوجا تی کسی نے پوچھا تو آپ فرمایا بیشک رسول خداۖ نے ارشاد فرمایا تھاکہ آخرت کی سب منزلوں سے پہلی منزل قبر ہے ۔ اگر آدمی اس سے بخیر وعافیت گزرگیا تو اسکے بعد کی مزلیں آسان تر ثابت ہوگی اور اگر اس سے نجات نجہ پآئی تو بعد کی منزلیں اس سے بھی دشوار ہوگیں ۔ (مشکواةشریف ،ص،)۔ آقا کریم کا فرمان ہے مفہوم، ۔میں جتنے قبر کے مناظر دیکھے ان میں سب سے زیادیہ ہولناک چیز قبر کا عذاب ہے۔(مسند احمدج،د)کتابالخروج لابی یوسف ،ص)سیدنا عثمان کے دل میں محبت رسولۖ کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ اور اسی حب کی وجہ سے آپ نے بئرہ رومہ خرید کر وقف کردیا۔ حب رسولۖ میں حدیبیہ کے مقام پر جا نکی پرواہ نہ کر تے ہوئے آپنے مکہ میں کفار کو نبی کریمۖ کا پیغام دیا ۔ حب رسولۖ میں آپ نے کافروںکی اجازت کے باوجود حضوراکرم ۖ کے بغیر طواف کعبہ نہ کیا ۔اور آپ نے زمزم کا ایک قطرہ نہ پیا ۔اسی حب رسول ۖ میںآپ نے لشکر اسلام کا آدھا خرچ دیا۔ سخت ترین حالات میں جب فسادی آپ کی جا ن کے درپے تھے ۔آپ نے فرمایا میں آقا کریم ۖ کی ہمسائیگی ہرگز نہ چھوڑوں گا خواہ اس میں مجھے قتل ہی کیوں نہ کردیاجائے (طبری ج 3 ص 383)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک دفعہ ھم گھر والے چار دن سے بھوکے تھے ۔حضور نبی کریمۖ تشریف لائے تو فرمایااے عائشہ ، میرے بعد تمہیں کوئی کھانے کی چیز ملی کہ نہیں میں نے عرض کیا نہیں یارسول اللہ ۖ اپ نے وضو فرمایا گھر سے نکلے اور نماز میں مشغول ہوگئے پھر دعا مانگنی شروع فرمائی پچھلے پہر حضرت عثمان غنی تشریف لائے اور رسول پاکۖ کے بارے دریافت کیا میں نے سارا واقعہ سنایا حضرت عثمان غنی حضور پاکۖ کی فاقہ کشی کا سن کر تڑپ گئے اور ہمارے گھر آٹا اور کھجوریں بھیجی اور فرمایا اس سے پکنے میں دیر لگے گی انہوںنے پکی ہوئی روٹی اور بھنا ہوا گوشت بھیجا اس کے بعد نبی پاکۖ تشریف لائے میں نے حضرت عثمان غنی کے بھیجے ہوئے کھانے کا ذکر فرمایا تو حضرت نبی محتشم ۖ اسی وقت مسجد میںتشریف لے گئے اور یوں دعا مانگنی شروع فرمائی اے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں ، تو بھی اس سے راضی ہوجا تین مرتبہ (ریاض القرہ ج 3 ص 132 نزھة المجالس ج 2 ص 167 ) آپ کی سخاوت عظیم تھی سیدنا صدیق اکبر کے عہد میں قحط سالی ہوئی تو آپ کے قافلے میں جو ملک شام سے آیا ایک ہزار اونٹ تھے جن پر گندم زیتون منقیٰ وغیرہ لدا تھا تاجر 5 گنا منافع دیتے تھے مگر آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ دس گنا عطا فرمائے گا لہذا میں یہ سودا اللہ تعالیٰ سے کرتا ہوں پھر آپ نے فرمایا اے لوگوں میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر سارا غلہ مساکین و فقراء کیلئے صدقہ کرتا ہوں (نورالاصبار ص 81) ایک دفعہ ایک شخص آقا کریم ۖ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا عرض کی مجھے شہد درکا ہے آپ نے فرمایا عثمان کے پاس جائو دوبارہ عرض کی تو فرمایا عثمان کے پاس جائو وہ سیدنا عثمان غنی کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ شہد کیلئے پیارے کریم ۖ کی خدمت میں گیا تھا انہوں نے حکم فرمایا کہ عثمان کے پاس جائو آپ نے فرمایا کتنا چاہیے وہ کہنے لگا کہ جتنا مرضی دے دیں آپ نے ایک بڑا کُپّا اسے دیدیا عرض کرنے لگا کہ میں نہیں اٹھا سکتا آپ نے ایک غلام دے دیا عرض کیا سواری نہیں ہے آپ نے فرمایا ایک اونٹ بھی لے لو آپ کی مظلومانہ شہادت انتہائی دردناک ہے باغیوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کیئے رکھا آپ نے فرمایا اگر لڑائی مقصود ہے تو ہرگز اجازت نہیں دوں گا آج میری سب سے بڑی حمایت یہ ہے کہ کوئی مسلمان میرے لئے تلوار نہ اٹھائے اور نہ ہی کسی کا خون بہائے ۔شہادت کے وقت آپ قرآن شریف پڑھ رہے تھے وہ قرآن پاک آج بھی محفوظ ہے ۔ 18ذوالحج بوقت عصر واقعہ شہادت پیش آیا ۔ امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کی شہادت کی خبر لوگوں کو پہنچی تو دنیائے اسلام میں کہرام مچ گیا آپ کو جنت البقیع میں دفن کردیا گیا آپ کی خلافت کی مدت تقریباً بارہ سال آپ کی نماز جنازہ حضرت جبیر بن مطعم نے پڑھائی ۔
Syed Ali Husnain Chishti
About the Author: Syed Ali Husnain Chishti Read More Articles by Syed Ali Husnain Chishti: 23 Articles with 28844 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.