اس نے اپنی جگہ پر بیٹھ کر پوری
کلاس میں نظر دوڑائی۔ ٹیچر ابھی نہیں آیا تھا سو زیادہ تر لڑکے دروازے پر
کھڑے ٹیچر کے انتظار میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ کلاس میں چند لوگ ہی
بیٹھے تھے۔ اچانک اس کی نظر ساتھ والے ڈیسک پر پڑی۔ ایک بہت خوبصورت
امپورٹڈ فائل اس ڈیسک پر پڑی تھی۔ یہ جج صاحب کے بیٹے کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔
یقینا کوئی باہر سے لایا ہو گا اور اسے تحفہ ملا ہو گا۔ خوبصورت تحفہ ہے۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور فائل کو دیکھنے لگا۔ دروازے پر کھڑے جج صاحب کے
بیٹے کی نظر پڑی تو بھاگتا اپنی سیٹ پر آیا اور فائل چھین کر بولا ’’میری
فائل کو اپنے گندے ہاتھ لگانے کی جرات مت کرو۔ اسے یہیں رہنے دو، دیکھنے کی
ضرورت نہیں۔ا س کی قیمت کا تم سوچ بھی نہیں سکتے۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد اس نے
ماں کے حوالے اسے اس قدر گھٹیا بات کی کہ شرفا جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
ماں کے بارے میں گھٹیا ذہنیت کی عکاسی کرنے والے سے اس نے احتجاج کیا تو
جھگڑا شروع ہو گیا۔ اسی اثناء میں استاد محترم تشریف لے آئے۔ دونوں کو
جھگڑتے دیکھ کر اپنے پاس بلا لیا۔ پوچھا کیا ہو رہا ہے۔ جج صاحب کے بیٹے نے
کہا کہ یہ میری نئی فائل خراب کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ مجھے فائل
خوبصورت لگی تھی فقط دیکھ رہا تھا۔ اس میں تو کوئی برائی نہیں۔ استادوں کے
بھی اپنے اپنے الگ معیار ہوتے ہیں۔ ہر استاد ضروری نہیں کہ استاد کے مرتبے
سے انصاف کرے۔ استاد نے اسے فائل خراب کرنے کا ملزم قرار دے کر سزا بھی دے
دی۔ وجہ سادہ تھی کہ وہ جج کا بیٹا تھا اور جج ہمارے معاشرے کا ایک فعال
فرد ہوتا ہے جو کسی کے کسی بھی وقت کام آ سکتا ہے۔ جبکہ اس کا باپ مڈل کلاس
کا ایک عام آدمی جو اپنے مسائل پر ہی تمام عمر قابو نہیں پا سکتا کسی کے
کیا کام آئے گا۔ ویسے بھی اشرفیہ کے لوگ جتنے بھی بے لگام ہوں، بد کلام ہوں،
بد کردار ہوں، ہمیشہ مستند شریف ہوتے ہیں۔ ان کا گھٹیا ترین فعل بھی ان کی
نسل در نسل شرافت ہی کے زمرے میں آتا ہے۔
اشرافیہ کے مکروہ رویوں کی جب بھی بات ہوتی ہے مجھے اپنے ساتھی کا یہ واقعہ
ضرور یاد آتا ہے۔ میرا وہ ساتھی ایک یونیورسٹی میں اس وقت سینئر پوزیشن پر
کام کر رہا ہے۔ وہ شخص اک عمر اشرافیہ کے ان بے لگام بچوں کے ساتھ پڑھتا
رہا اور مسلسل ان کی نظروں میں چبھتا رہا۔ اس کے والد ایک عام مڈل کلاس کے
شخص تھے۔ معقول اور جائز آمدن مگر زیادہ نہیں تھی۔ مگر ان کی خواہش تھی کہ
ان کے بچے بہت اچھی تعلیم حاصل کریں۔ تاکہ مستقبل میں اشرافیہ کے مقابلے
میں سر اٹھا کر جی سکیں۔ ان کی اسی خواہش کے سبب ان کے دونوں بیٹے ایچیسن
میں داخل ہوئے۔ ماں باپ نے بڑی محنت اور ہمت سے اپنا پیٹ کاٹ کر بھی بچوں
کو وہاں پڑھایا۔ فرق صرف یہ تھا کہ تمام لوگ بڑی بڑی گاڑیوں میں کالج آتے
تھے مگر یہ دونوں بھائی اپنے والد کے ساتھ ان کی پرانی سی موٹر سائیکل پر
آتے تھے۔ دوسرے لڑکے انہیں اور ان کی موٹر سائیکل کو عجیب انداز سے دیکھتے
اور مذاق اڑاتے۔ ان کے والد انہیں حوصلہ دیتے کہ بیٹا ایک بات جان لو تم
وہاں پڑھنے جاتے ہو۔ بڑی گاڑیوں اور اپنے گھروں کا مقابلہ کرنے نہیں۔ محنت
کرو اور اﷲ سے امید رکھو وہ ہر چیز دے گا۔ بچوں نے والد کی بات مان بھی لی
اور سمجھ بھی لی۔دونوں اپنی اپنی کلاس میں ہمیشہ اول آئے۔ مگر انہوں نے
محسوس کیا کہ نام نہاد اشرافیہ کے بچوں کو پڑھائی کی نسبت اپنی امارت اور
کروفر کی نمائش سے زیادہ دلچسپی تھی۔ میں ایک استاد کے طورپر ہمیشہ لوگوں
کو مشورہ دیتا ہوں کہ اپنے بچوں کو ایسے سکولوں میں داخل کروائیں کہ جہاں
معاشی اور ذہنی طور پر آپ کے ہم پلہ لوگوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔
اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ کے بچے احساس برتری یا احساس کمتری کا شکار
ہو جائیں گے۔ جو سراسر گمراہی ہے۔ یقینا میرا وہ ساتھی اور اس کا بھائی بھی
ایسے ماحول میں شدید احساسِ کمتری کا شکار رہے ہوں گے۔ میرا وہ ساتھی خود
کہتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں ساتھی طلباء کا جان بوجھ کر ان کی
توہین کرنا ایک معمول تھا۔ کیونکہ وہ ایک عام آدمی کے بیٹے تھے اور ایچیسن
کالج تو عام آدمیوں کی درسگاہ ہی نہیں۔
ایم ایس سی کرنے کے بعد میرا وہ ساتھی ایک یونیورسٹی میں لیکچرار تعینات ہو
گیا۔ پھر سکالرشپ پر مزید پڑھنے باہر چلا گیا۔ تین چار سال بعد جب وہ واپس
آیا تو کراچی میں ایک بہت اچھی نوکری مل گئی۔ کراچی کے حالات بہت عجیب تھے۔
ایسے میں اُس کے ساتھ کچھ حادثہ پیش آ گیا۔ وہ لٹا پٹا واپس لاہور آ گیا۔
لاہور میں ایچیسن کے اس کے ایک کلاس فیلو کے سیاسی والد ایک اہم پوسٹ پر
تعینات تھے۔ کچھ سوچ کر اس نے اس کلاس فیلو کو فون کیا۔ جواب بہت حوصلہ
افزا تھا۔ دوست نے کہا کہ آ جاؤ۔۔۔ گاڑی نہیں ہے۔ سرکاری گاڑی بھیج رہا
ہوں۔ موصوف سرکاری گاڑی میں دوست کے والد کی سرکاری رہائش گاہ پہنچ گئے۔
بیٹے کے انداز سے لگتا تھا کہ تمام سرکاری معاملات میں والد کا پوری طرح
ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ کھانا اکٹھے کھایا۔ پرانی باتیں یاد کیں۔ چلتے وقت سیاسی
دوست نے پوچھا کوئی کام ہو تو بتاؤ۔ اندھا کیا چاہے تو آنکھیں۔ فوراً بولے
کہ دوست باہر جانے سے پہلے میں فلاں یونیورسٹی میں کام کر رہا تھا۔ میرے
ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ مجھے رکھنا چاہتے ہیں مگر انہوں نے کہا ہے کہ وائس چانسلر
صاحب کو کہیں سے چھوٹی موٹی سفارش کروا دو۔ وہ مجھے کہیں گے تو میں آسانی
سے تمھیں نوکری دے دوں گا۔ تمہارے والد صاحب با اثر آدمی ہیں وائس چانسلر
سے بھی ان کے تعلقات ہیں۔ فون کرا دو۔ میرا کام آسان ہو جائے گا۔
سیاسی دوست ہنسا اور کہا تم میرے پرانے کلاس فیلو ہو۔ تمہارا فون آیا میں
نے سرکاری گاڑی بھیج کر بلایا، کھانا کھلایا، سرکاری شاندار رہائش گاہ کی
سیر کرائی، وی آئی پی پروٹوکول دیا، ایک کلاس فیلو کے لئے میں فقط اتنا ہی
کر سکتا ہوں۔ نوکری کاروباری معاملہ ہے۔ تمھیں ڈیڑھ دو لاکھ تنخواہ ملے گی
اس کے لئے تمہیں بارہ لاکھ کا بندوبست کرنا ہو گا۔۔۔ بارہ لاکھ مگر کیوں۔۔۔
کیوں والی کون سی بات ہے یہ تو ایک ڈیل ہے۔ نوکری مفت نہیں ملتی۔ گھوڑا
گھاس سے دوستی نہیں کرتا۔۔۔ وہ ہکا بکا اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اشرافیہ کے
لوگوں کی یہ روٹین عادتیں ہیں اور شایدعام لوگوں کو بے عزت ہونے کی عادت ہو
گئی ہے۔ بے بسی ہے کچھ کر نہیں سکتے۔
اشرافیہ کا انداز فکر بھی عجیب ہے۔ روز حادثے ہوتے ہیں، روز لوگ مرتے ہیں۔
عبد القادر گیلانی کے محافظ نے اگر غلطی سے ایک نوجوان کو گولی مار کر مار
دیا تو اس قدر واویلا کیوں؟ موت کا اک دن معین ہے۔ نوجوان کو تو مرنا تھا۔
اس حادثے میں مر گیا تو کیا ہوا۔ اسے سیاسی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔
یہ ایک اندازِ فکر ہے جس اندازِ فکر کے حامل لوگ اشرافیہ کہلاتے ہیں۔ اس
ملک کے حکمران ہیں۔ حکمرانی کے لئے پیدا ہوئے ہیں، ان کے نزدیک عام آدمی کی
کوئی قدر و قیمت نہیں۔ یہ صرف اپنی اور اپنے ساتھیوں کی قدر و قیمت کو
اہمیت دیتے ہیں۔
ایک دوسرا طبقہ بھی ہے۔ یہ طبقہ اشرافیہ کے حوالے سے خود کو بہتر بنانے میں
مصروف رہتا ہے مگر عوام سے تعلق بھی توڑنا نہیں چاہتا۔ یہ لوگ مرنے والے کے
لواحقین سے بھی ہمدردی کرتے ہیں اور مارنے والوں کے پاس جا کر ان کے حوصلے
کا بھی سامان کرتے ہیں۔ اپنے مفادات کے لئے اشرافیہ کے مددگار اور معاون
ہوتے ہیں لیکن منافقت کے سنہرے اصولوں کو اپناتے ہوئے عام آدمی کے بھی وقتی
غمگسار ہوتے ہیں۔ ملتان میں جلسہ گاہ سے واپس جاتے ہوئے دس کے قریب آدمی مر
گئے۔ پچاس کے قریب زخمی ہوئے۔ اس بدنظمی کا ذمہ دار کون؟ کوئی ذمہ داری
قبول نہیں کرے گا۔ ہر شخص اور ہر گروپ دوسرے کو الزام دے گا۔ لیڈر لوگ
مگرمچھ کے آنسو بہائیں گے کہ لوگوں میں اپنی ساکھ قائم رکھ سکیں۔ جنازوں
میں شرکت کریں گے، مرنے والے کے گھر تعزیت کے لئے جائیں گے مگر حقیقت میں
وہ اخبارات کے لئے فوٹو سیشن ہو گا۔ بعد میں مرنے والوں کے گھر والوں پر
کیا بیتے گی اور وہ کس حال میں گزاریں گے کوئی خبر نہیں لے گا۔ افسوس کہ
ملتان سانحے کے سبھی ذمہ دار ہیں۔ کوئی کسی ایک وجہ سے اور کوئی کسی دوسری
وجہ سے۔ مگر کسی میں اتنی اخلاقی جرات کہاں کہ غلطی محسوس کرے۔ بات تو
احساس کی ہے اور اس معاشرے میں احساس مر چکا ہے بلکہ اسے عرصہ ہوا دفنایا
جا چکا ہے۔
جس کے ساتھ بیتی ہے یا جسے احساس ہے وہ طبقہ تو عوام کا طبقہ ہے جسے حیثیت
میں کبھی کیڑے مکوڑوں سے افضل نہیں سمجھا گیا۔ جس کے مقدر میں رونا، سسکنا
اور پھر چپ ہو کر حالات کو قبول کر کے اک نئے سرے سے خود کو آلامِ زمانہ کے
سپرد کر دینا ہوتا ہے۔ کاش لوگوں کو سمجھ آئے کہ جنگ ہو، بلوہ ہو، جلسہ ہو،
جلوس ہو، فساد ہو، نقصان ہمیشہ غریب کا ہوتا ہے۔ اشرافیہ کا تو یہ ایک کھیل
ہوتا ہے اور وہ کھیل کھیلتی رہتی ہے۔ اسے کسی کے نقصان سے کیا۔ |