عالمی یوم خوراک اور اسلامی تعلیمات
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
16 اکتوبر کو دنیا بھر میں عالمی
یوم خوراک منایا جاتا ہے۔اقوام متحدہ کی بیسویں جنرل کانفرنس میں نومبر1945
میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس وقت کے ہنگری کے وزیر خوراک و زراعت پال
رومنی نے یہ آئیڈیا دیا تھا کہ ’’عالمی یوم خوراک‘‘ ہر سال منایا جائے اس
وقت سے لے کر آج تک یہ دن ہر سال اکتوبر کی سولہ تاریخ کو پوری دنیا اور
بالخصوص اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں منایا جاتا ہے۔تاریخ انسانی کا
مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ خوراک ہر دورانسانی میں بنیادی اور لازمی ضرورت رہی
ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ خالق کائنات نے بعض مصلحتوں کے تحت ہر انسان کی فطرت
میں کچھ چیزوں کی احتیاج رکھ چھوڑی ہے ۔مثلا کھانا، پینا، پہننا،علاج
معالجہ اور سر چھپانے کو چھت اور رہائش گاہ انسان کی وہ بنیادی اور فطری
ضروریات ہیں کہ اگر وہ بقدر ضرورت میسر نہ ہوں تو انسان زیادہ دیر تک نہ تو
زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔
آج کے دو ر میں بہت سے اہم مسائل میں سے انسانی خوراک ایک بہت بڑا مسئلہ ہے
بڑے بڑے سماجی مفکرین اور ماہر معاشیات اور دانشور اس مسئلے کو حل کرنے
کیلئے مختلف ادوار میں سر جوڑ کر بیٹھتے رہے ہیں اور اپنی دانش اور
صلاحتیوں کا استعمال کرکے انسانی معاشرے کو اس سے نبردآزما ہونے کا حل دیتے
رہے ہیں۔سوشلزم ، کیپٹل ازم کمیونزم اور اسی طرح کے دوسرے معاشی نظاموں کا
وجود بھی اس مسئلے کے حل کی ایک کڑی رہے ہیں۔لیکن یہ مسئلہ تاحال لاینحل
رہا ہے۔ آج کا ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ بھی اس عفریت کے سامنے بے بس
دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف امیر ممالک کے اصحاب ثروت یا غریب ممالک کے امیر
حکمرانوں اور اشرافیہ کی بے حساب دولت کا تخمینہ لگانے کیلئے چھوٹے موٹے
کیلکیولیٹربھی جواب دے جاتے ہیں تو دوسری طرف اسی دھرتی پر افریقہ کے
صحراؤں اور ریگزاروں میں اور ایشیا کے میدانوں میں بھوک اور افلاس کی تباہ
کاریاں بھی اپنے عروج پر ہیں۔ بچے بوڑھے اور جوان دودھ پانی اور خوراک
کیلئے بلبلا رہے ہیں۔ان کے جسموں سے ماس غائب ہوچکا ہے ۔ہڈیوں کا ڈھانچہ بن
چکے ہیں ہر روز مختلف الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے ذریعے سے ان کی بے بسی اور
لاچارگی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر مجال ہے کہ ترقی یافتہ تہذیب
کے ان گندے انڈوں کا ضمیر بیدار ہوجائے۔بلکہ ان کی شاہ خرچیاں اور اللے
تللے ہیں کہ بڑھتے ہیں جارہے ہیں جو اس بات کا واضح اور مدلل ثبوت ہے کہ
جدید ترین معاشی نظام اور نظریات انسانی بنیادوں پر بلاتفریق مذہب و ملت
کوئی معقول اور قابل قبول حل پیش نہیں کرسکے۔ بلکہ حقائق اس بات کے شاہد
ہیں کہ انسان کی ذہنی کاوشوں کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والے معاشی
اوراقتصادی نظاموں نے انسانیت کے اس بنیادی مسئلہ کہ حل کرنے کی بجائے مزید
پیچیدہ کردیا ہے اور وسائل زندگی سے محروم لوگوں میں احساس محرومی مزید
بڑھادیا ہے
آج ہم دیکھتے ہیں کہ امیر ممالک قومیت کی بنیاد پر اپنے شہریوں کوسہولیات
باہم مہیا کرتے ہیں کیونکہ ان کے ووٹوں سے ہی ا نہیں منتخب ہونا ہوتا ہے
مگر دوسری طرف متوسط اور غریب ممالک کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں
کے شکنجے میں پھنسا کر غلام بنایا جاتا ہے بجائے عوام الناس کو سہولیات
پہنچانے کے حکمرانوں پر دباؤ ڈال کر لوگوں کو مزیدمصائب اور آلام میں جھونک
دیا جاتا ہے۔ ہم نہ تو بچگانہ طرز کی کوئی ضد کرتے ہیں اور نہ ہی متعصب ہیں
بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس اپنے پرائے سب مانتے ہیں کہ غربت کے اس
تشویشناک مسئلہ کا حقیقی حل اگر موجود ہے تو وہ اسلام کے معاشی اور فلاحی
نظام میں ہے۔ تاریخ اسلام کے اوراق آج بھی شاہد ہیں کہ خلافت راشدہ ،حضرت
عمر بن عبدالعزیز اور دیگراسلامی اکابرین اور ان کے ادوار میں جب ان اصولوں
کو معاشرے پر نافذ کیا گیا تو لوگ اپنے عطیات و صدقات زکوۃ و عشر گلیوں میں
لے لے کر پھرا کرتے تھے اور کوئی ایسا مستحق نہ ملتا تھا جو ان سے یہ عطیات
و صدقات لے۔بقول اقبال کہ اسلامی تعلیمات نکتہ اولین یہ ہے کہ اس جہان تگ
ودو میں ہر ا نسان خود داری اور وقار کے ساتھ زندگی گزارے۔ کوئی شککول لئے
کسی نے سامنے ذلیل و رسوا نہ ہورہا ہو اور نہ ہی بے بسی کے عالم میں کوئی
انسان کسی کا محتاج ہو۔ اسلام میں بیت المال کے دریعے غربااورمساکین کی
کفالت کا معقول اور قابل رشک اہتمام ہے صاحب ثروت لوگوں کے مال میں غریبوں
کا حق رکھ دیا گیا اور کئی طرح کے مالی فرائض اور واجبات عائد کئے گئے تاکہ
معاشرے سے غربت و افلاس، تنگدستی اور قافہ کشی کا خاتمہ ہوسکے۔
موجودہ حالا ت کے پیش نظر مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور بے رحم و بے حس
اشرافیہ کے لئے مرمٹنے کا مقام ہے کہ آج بھی سویڈن میں حضرت عمرؓکی اصلاحات
سے اخذ کردہ معاشی اور سماجی نظام رائج کررکھا ہے برطانیہ میں موجود ہ سوشل
سروسز کے نظام کی باضابطہ ترویج وزیراعظم کلیمنٹ ایٹ لی کے دور حکومت
1945-51 میں ہوئی۔غربت کو ختم کرنے کی پہلی اینٹ حضرت عمرفاروق ؓ نے رکھی
تھی برطانیہ میں اس کا پہلا منصوبہ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر ٹیلر نے
بتایا جو اس وقت کے وزیر اعظم کے معاشی مشیر تھے اور انہوں نے برملا اظہار
و اعتراف کیا کہ انہوں نے یہ تخیل اور منصوبہ بندی حضرت عمر فاروق سے اخذ
کی ہے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سال میں صرف ایک دن نہیں بلکہ ہر دن ہی
’’یوم خوراک‘‘ ہے ۔ |
|