شراب اسلام میں حرام ہے ۔ پاکستان میں نہیں۔
(Ahmed Raza Mian, Lahore)
مجھے تو بالکل بھی یقین نہیں آیا۔
جب میرے ایک دوست نے یہ بتایا کہ شراب کو حرام کہنے والے خود شراب میں نہا
رہے ہیں۔ پھر اُس نے مجھے ایک ویڈیو دکھائی جس میں مملکت خدا داد پاکستان
کے ایک نامور عالم دین جناب مولانا حافظ طاہر محمود اشرفی صاحب ایک نیوز
چینل کو انٹرویو دے رہے تھے۔ اُن کا انداز گفتگو ہو بہو انڈین فلم "شرابی"
کے مرکزی کردار امیتابھ بچن جیسا تھا۔ جس میں وہ پوری فلم میں شراب کی بوتل
ہاتھ میں نشے میں جھومتے رہتے ہیں۔ با لکل اسی طرح مولانا کی آواز اور
آنکھوں سے شراب کے نشے کی خماری جھلک رہی تھی۔ میں سمجھ رہا تھا کہ شائد
مولانا کسی شرابی سیاست دان کی نقل اُتار رہے ہیں۔ یا کسی فلم میں ایک "شرابی"
کا کردار ادا کرنے کے لیے آڈیشن دے رہے ہیں۔ لیکن دیکھنے والے ایک ہی لمحے
میں سمجھ جاتے ہیں کہ تصویر کیا بولتی ہے۔اس سے پہلے بھی ایسی نا قابل یقین
باتیں سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی ہیں۔ جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ
مولانا کی گاڑی سے شراب برآمد ہوئی ہے اور بذات خود "مولا نا شرابی" اوہ
معافی چاہتا ہوں مولانا طاہر اشرفی شراب کے نشے میں دھت ہیں اور اُلٹیاں
بھی فرما رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی بہت سی پوسٹ یا ویڈیوز شروع
میں جعلی لگتی ہیں۔ لیکن بعد میں اُن کی یا تو تردید ہو تی ہے یا پھر پورے
ملک میں ڈینگی کی طرح پھیل جاتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں شراب حرام ہے۔ ۔۔؟؟؟ جی ہاں۔۔ ۔ لیکن۔۔۔!
اُن کے لیے جو قانون کی گرفت میں آسانی سے آجاتے ہیں۔مگر قانون جن کے پاؤں
کی جوتی ہے اُن کے لیے شراب تو کیا ہر قسم کی حرام کاری اور حرام خوری حلال
ہے۔کیا اس ملک میں شراب کا کاروبار نہیں ہو رہا ؟ کیا بڑے بڑے ہوٹلوں میں
اس لازوال نعمت کی سہولت میسر نہیں؟ کیا بڑی بڑی نجی محفلوں میں مہمانوں کی
تواضع اس مشروب مغرب سے نہیں کی جاتی؟ یہاں تو شادیوں میں دلہے بھی اس لعنت
سے نہیں بچ پاتے بلکہ دوستوں کے ساتھ پی کر فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنی
بہادری کا بھی ثبوت دیتے ہیں۔کچھ لوگ شراب نوشی کو شرعی نہیں بلکہ ایک ذاتی
مسئلہ سمجھتے ہیں۔ یہ تو اپنی اپنی سوچ کی بات ہے۔ کیونکہ شریعت کو بھی ہم
نے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال رکھاہے۔جو کام ہم کرتے ہیں وہ ٹھیک ہے اور جو
ہمارا مخالف کر بیٹھے اُس پر فتوئے ۔دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ
جاہل پیئے تو شرابی، عالم پیئے تو نہیں کوئی خرابی۔
اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو بہت سے ایسے لوگ نظر آتے ہیں جنہیں ہم
فرشتہ سمجھتے ہیں۔ لیکن ایک وقت آتا ہے کہ وہی لوگ شیطان لگنے لگتے ہیں۔اُن
کی ایک حرکت اُنہیں آسمان کی بلندیوں سے زمین پر دے مارتی ہے۔خدا ہر با عزت
انسان کو ایسی بے توقیری سے محفوظ رکھے۔علامہ طاہر اشرفی ہوں یا کوئی اور۔۔۔
کسی پر بھی ایسا گھناؤنا الزام لگانے سے پہلے پوری تحقیق کر لینی چاہیے۔ہو
سکتا یہ سب اُن کی پر وقار شخصیت سے کسی قسم کا انتقام لینے کی کوشش ہو۔ ہو
سکتا ہے وہ ویڈیو جس میں وہ جیو ٹی وی کو انٹرویو دے رہے تھے جعلی ہو۔ ہو
سکتا ہے جیو کے اینکر پرسن نے مولانا صاحب سے کوئی ذاتی دشمنی کی بنا پر
بدلہ لینے کی کوشش کی ہو۔ہو سکتا ہے یہ شرارت پی ٹی آئی والوں نے کی ہو۔ہو
سکتا ہے یہ انٹرویو اے آر وائی والے "کھرا جھوٹ" اوہ معاف کرنا "کھرا سچ"
والے مبشر لقمان نے کی ہو جو آج کل کھری کھری سنا کر بڑے بڑوں کو ننگا کر
رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اُس نے کسی اور کے انٹرویو کو ایڈٹ کر کے سوشل میڈیا
پر پھیلا دیا ہو۔ ہونے کیا نہیں ہو سکتا۔یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہو
سکتا ہے۔یقین نہیں آتا تو کسی کی سائیکل چوری کر کے دیکھ لیں۔ پھر دیکھنا
پولیس والے آپ پر کون کون سی چوریا ں ڈالتے ہیں۔ ایسی ایسی چوریاں جو آپ کی
پیدائش سے بھی دس سال پہلے وقوع پذیر ہوئی ہوں۔لیکن پولیس والوں کو اگر
کوئی تگڑا یعنی پکا چور مل جائے توپھر پولیس والے بھی اُسے اپنا باپ مان
لیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک چور کا واقع پیش کرنا چاہوں گا۔پولیس نے بڑی محنت کے
بعد ایک ایسے چور کو پکڑا جو غلطی سے کسی بڑے آدمی کی چوری کر بیٹھا تھا ۔
اُس بڑے آدمی نے اپنا اثر و رسوخ ظاہر کیا تو پولیس والوں کو اپنی نوکریوں
کی فکر لگ گئی۔ چوری منوانے کے لیے اُنہوں نے چور کو بہت مارا اور مار مار
کر تھک گئے۔ اور جب تھک گئے تو پھر مارنے لگے۔ لیکن چور تو ہمارے
سیاستدانوں اور حکمرانوں سے بھی زیادہ ڈھیٹ ثابت ہوا ۔ اُس نے اقبال جرم
میں ایک لفظ بھی منہ سے نہ اگلا۔پولیس والے حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔
آخر کار تھک ہار کر تھانیدار صاحب نے چور کے آگے ہاتھ جوڑ دیے اور منت
سماجت کی کہ وہ اپنا قصور مان لے تاکہ ہم پولیس والوں کی نوکری اور عزت
دونوں سلامت رہ سکیں۔ چور بھی آخر انسان تھا اُسے تھانیدار صاحب کی بے بسی
پر رحم آگیا ۔ چور نے اقبال جرم کے لیے ایک لیٹر گرما گرم دودھ اور ایک کلو
خالص کھوئے کی برفی کا تقاضا کیا۔ تھانیدار نے کچھ دیر سوچا اور سپاہی کو
دونوں چیزیں لانے کے لیے پیسے دے دیے۔چور نے ایک کلو برفی کھائی اور ایک
لیٹر دودھ غٹا غٹ پی گیا۔ اُس کی توانائی بحال ہوئی اُس نے مونچھوں کو تاؤ
دیا اور بولا۔ تھانیدار صاحب آپ مجھ سے پہلے یہ بات اگلوا لیں کہ میں نے
ابھی ابھی برفی کھائی ہے اور ساتھ دودھ بھی پیا ہے تو میں اُس چوری کے
متعلق بھی بتا دوں گا جس کے لیے آپ نے مار مار کر مجھے بندر بنا دیا ہے۔
شراب کچی ہو یا پکی اسلام میں دونوں ہی صورتوں میں حرام ہے۔ شراب مولانا
طاہر اشرفی پیئے یا میرے جیسا جاہل آدمی دونوں ہی گناہ گار ہیں۔وہ الگ بات
ہے کہ سائیں قائم علی شاہ نے کچی شراب پی کر مرنے والوں کو شہادت کا
سرٹیفیکیٹ عطا فرما کر جنتی ہونے کی بشارت دے دی ہے۔اگر سائیں کی نظر میں
کچی شراب پی کر مرنے والے شہید ٹھہرے تو پکی شراب پی کر مرنے والے کا کیا
مقام ہو گا۔اور اگر یہی شراب امپورٹڈ یعنی ولائتی ہو تو اس کا درجہ مولا نا
تو ضرور جانتے ہوں گے۔سنا ہے ولائتی شراب بڑی مہنگی ہوتی ہے۔ اوراس مہنگائی
کے دور میں ایسی پر تعیش چیزیں غریبوں سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔ لیکن مولانا
تو خیر سے اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ادراہ بھی
چلا رہے ہیں۔ اُن آمدنی اتنی تو ہو گی کہ وہ دو چار ولائتی بوتلیں آسانی سے
افورڈ کر سکیں۔مگر اُن کے وجود کو دیکھا جائے تو دو چار بوتلوں سے اُن کا
کچھ بھی نہیں بنتا ہو گا۔ نشے سے مکمل طور پر لطف اندوز ہونے کے لیے اُنہیں
تو پورے ڈرم کی ضرورت پڑتی ہو گی۔اگر ایک ڈرم کی قیمت کا اندازہ لگایا جائے
تو بہت بڑی رقم بن جاتی ہو گی۔ لیکن ۔۔۔! جن کے سر ہو سرکار کی چھاؤں، اُن
کے گھر میں وہسکی ہو گی۔ |
|