بنوں کے ایک مجبور باپ عمران خان کی فریاد

آج دن کو ایک مجبور والد،بنوں (خیبر پختون خواہ) کے رہائشی عمران خان نے مجھے فون کیا،اس کی ڈیڑھ سالہ بیٹی جنت بی بی کے دل کا ایک وال بند ہے۔عمران خان نے بتایا کہ وہ ایک غریب آدمی ہے ،اس نے بیٹی کے علاج کے لئے ہر بڑے حکومتی،سرکاری عہدیدار کے در پر دستک دینے کی کوشش کی لیکن اسے ہر جگہ سے ‘‘ دھتکار‘‘ دیا گیا۔عمران خان نے بتایا کہ وہ گورنر سے ملنے گیا لیکن پولیس نے اسے کہا کہ یہاں سے بھاگ جاؤ،عمران خان کے اسلام آباد دھرنے میں دس دن شریک رہا،ہر کسی کا دامن پکڑا لیکن ہر کسی نے اسے نظر انداز کر دیا۔عمران خان کچھ اور بھی کہنا چاہتا تھا لیکن اس کی آواز اس کے بے بسی کے آنسوؤں میں دب کر رہ گئی اور آہوں،سسکیوں کے ساتھ اس مجبور باپ کی بات ختم ہو گئی۔

اس ملک کا نظام کتنا ظالمانہ ہے کہ ڈیڑھ سال کی ایک معصوم بچی محض ڈیڑھ لاکھ روپے کا علاج میسر نہ آنے کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہے اور بے رحم موت کے خطرے سے دوچار ہے۔پاکستان کے سرکاری ،حکومتی،نیم سرکاری،خود مختار اداروں کے افراد کو اعلی معیار کے علاج کی سہولیات حاصل ہیں،بیرون ملک جا کر علاج کرانا بھی ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں،کیا پاکستان اس لئے بنا تھا کہ ملک کو چلانے والوں کو اعلی معیار کی زندگی عطاکی جائے اور غربت و افلاس کا کمتر معیار زندگی عوام کا مقدر بنا دیا جائے۔یہ ایک مثال ہے ہمارے ملک میں ظلم ،زیادتی،نا انصافی پر مبنی اس نظام کی جس کی وجہ سے عوام اور ریاست کے تعلق کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔

معصوم بچی جنت بی بی کو زندہ رہنے کا حق چاہئے، اس کے علاج کا خرچ صرف ڈیڑہ لاکھ روپے ہے،بہت سے پیسے والوں کے لئے یہ ایک معمولی سی رقم ہو گی،لیکن ایک غریب،مجبور ،قانون کے پابند باپ کے لئے یہ بہت بڑی رقم ہے،آج ہی اس نے کسی کے ذریعے اپنا ایک خط مجھے ای میل کیا ہے،یہ خط یہاں پیش کرتے ہوئے فیس بک کے دوستوں سے التماس ہے کہ اگر وہ اس سلسلے میں کچھ کر سکیں تو یہ بہت بڑی نیکی ہو گی جو اسلام،انسانیت کا اصل پیغام اور مقصد بھی ہے۔ معصوم جنت بی بی کے والد عمران خان کا خط پیش خدمت ہے کہ شاید اﷲ کسی انسان کو اس معصوم بچی کے علاج کا وسیلہ بنا دے۔یہ بات مین یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو بھی اس معصوم بچی کے علاج میں معاون ثابت ہو گا،اﷲ اس کو زندگی کی حقیقی خوشیوں اور اپنی رحمت بے بہا سے نوازے گا۔

محترم قابل قدر جناب اسلام علیکم
جناب آپ خیر خیریت سے ہوں گے۔میرا نام عمران خان ہے ۔میں ضلع بنوں میں ایک ویلڈنگ کی دکان میں کام کرتا ہوں۔جناب ایک سال سے اپنی ڈیرھ سالہ بیٹی جنت بی بی کے علاج کے لئے سرکاری ہسپتالوں کے چکر لگا رہا ہوں۔میری معصوم بیٹی جنت بی بی دل کے مرض میں مبتلا ہے ،اس کے دل کا ایک وال بند ہے۔آپ کالم نگار حضرات صرف سفارشی،سیاسی لوگوں اور خیراتی اداروں کے خطوط شائع کرتے ہیں۔جناب اولاد والدین کے لئے آزمائش ضرور لیکن اﷲ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ اسے دنیا زینت کہا گیا ہے۔بے اولاد شخص کی محرومی اپنی جگہ لیکن جسے مل کر یہ عنایت چھن جائے اس کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ضروری نہیں لیکن دنیا کا عام چلن ہے کہ اولاد اپنے والدین کے جنازے اٹھاتے ہیں ۔لیکن اولاد کا جنازہ اٹھانا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔عام انسانوں کا تو ذکر ہی کیا ،یہ کرب کی گھڑی انبیاء پر بھی بہت گراں گزری۔بنی کریم ﷺ کے صاحبزادے ابرہیم ؑبیمار تھے،مسجد بنوی میں کسی نے آ کر بتایا کہ آپ کے بیٹے کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے تو آپ باقاعدہ بھاگتے ہوئے گھرپہنچے۔ابراہیم ؑنے آپﷺ کے زانو پر آخری ہچکی لی تو حضور کیآنسو نکل آئے،کسی نے کہا یا رول اﷲ ،آپ بھی روتے ہیں تو فرمایا میں اﷲ کا بنی اور ایک والد بھی ہوں۔جناب میں نے اپنی بیٹی جنت بی بی کے بارے میں پاکستان کے تمام بڑے اخبارات کے کالم نگاروں کو باری باری اپنے فریادی خطوط ارسال کئے مگر ان سنگدل کالم نگاروں نے مجھے جواب تو دور کی بات جوٹی تسلی کا بے رنگ لفافہ بھی نہیں بھیجا۔جناب میں اس امید پر آپ کو یہ خط ارسال کر رہا ہوں کہ آپ میری بیٹی جنت بی بی کو اپنی بیٹی سمجھ کر اس کے لئے ضرور کالم لکھیں گے۔جناب چونکہ میں ایک غریب اور لاچار بندہ ہون ،میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی رشتہ وغیرہ دور دور تک نہیں۔حیات آباد میڈیکل کمپلکس پشاور کے چلڈرن وارڈ کے انچارج ڈاکٹر ضیاء اﷲ ماہر امراض قلب برائے اطفال ،فون نمبر (091- -9217140)کی تشخیص کے مطابق میری بیٹی کے دل کا ایک وال بند ہے جبکہ علاج آپریشن کے بغیر ممکن نہیں ہے جس کا کل خرچہ ڈیڑھ لاکھ روپے (150000=/) ہے جو کہ مجھ غریب کے بس کی بات نہیں۔ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق اگر اس کاآپریشن جلد از جلد نہیں ہوا تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔بیٹی کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جا سکتی،اکثر اوقات بے ہوش رہتی ہے اور سانس لینے میں بھی اسے کافی دشواری ہے،روتی چیختی چلاتی رہتی ہے۔کاش آپ میری بیٹی کو ایک بار ضروری دیکھ لیتے تو آپ بھی رونے لگتے کیونکہ اولاد کو دکھ کوئی بھی والدین برداشت نہیں کر سکتے۔جناب میں جو بھی کماتا ہوں وہ بجلی اور گیس کے بلوں میں خرچ ہو جاتے ہیں۔مجھے ڈاکٹروں نے بچی کے لئے ادویات لکھی ہیں لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی خرید نہیں سکتا۔جناب میرے والدین ضعیف العمر ہیں۔میرا ایک بیٹا ہے جو محلوں میں گندگی کے ڈھیروں میں ہمارے لئے رزق تلاش کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ مقامی جامع مسجد کے پیش امام کبجی کبھی جمعہ مبارک کو میرے لئے چندہ اکٹھا کرتا ہے جو والدین اور بیٹی کی دوائیوں پر خرچ ہو جاتے ہیں۔یقین کیجئے کہ میرے پاس اکثر بیٹی کو علاچ کے لئے بنوں سے پشاور لیجا نے کا کرایہ بھی نہیں ہوتا۔خداوند بزرگ و برتر کا آخری سہارا سمجھ کر آپ کو خط لکھ رہا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ جیسا نیک دل شخص مجھ جیسے غریب اور دلگرفتہ انسان کی مدد ضرور کریں گے اور آپ صاحب اپنے قلم سے میرے لئے ایک کالم لکھ کر ہر ممکن تعاون کریں گے۔جناب میرے پاس کوئی سفارشی رقعہ نہیں ہے نہ میں کسی MNAاور نہ ہی کسیMPAاور نہ ہی کسی برے افسر کو جانتا ہوں کہ جس سے میرا یہ مسئلہ حل ہو سکے۔جناب میں اپنی بیٹی جنت بی بی کے میڈیکل رپورٹ بمعہ خط ارسال کر رہا ہوں امید ہے کہ آپ ضرور میرے لئے فرشتہ رحمت ثابت ہوں گے ،تما م عمر آپ کے خاندان کے لئے دعا گو رہوں گا۔

ایک بد نصیب باپ عمران خان(،موبائل فون نمبر0092-306-3289712)، مکان نمبرT301محلہ منڈان گاؤں میر عباس خان تحصیل و ضلع بنوں۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699070 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More