خواتین پاکستان کی کل آبادی کا نصف ہیں۔ اس کے باوجود
انہیں طویل عرصے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام نے خواتین کو
اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔عورتوں کو تعلیم کا حق‘ خاندان کی بہبود کے لئے تگ و
دو اور شادی کے وقت ان کی پسند کو ملحوظ رکھنا۔ وہ حقوق میں جو عورت کو
فطری طور پر ودیعت کیے گئے ہیں۔ تاہم سماجی رویّوں نے بہت سی عورتوں کی
زندگی اذیت ناک بنا دی ہے۔ شعور و آگہی کے اس جدید دور میں خواتین کو
بااختیار بنانا نہ صرف ایک ناگزیر تقاضا ہے بلکہ وقت کی اشد ضرورت بھی ہے۔
تاہم جب تک خواتین کو معاشی آزادی نہیں ملتی اور انہیں تعلیم سے آراستہ
نہیں کیا جاتا خواتین کو بااختیار بنانا ایک سہانا خواب ہی رہے گا۔
دیہاتی خواتین کو بااختیار بنانے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے حکومت نے اس
مقصد کے لئے کچھ پروگرام اور سکیمیں شروع کی ہیں کیونکہ جب تک ملک کی اتنی
بڑی آبادی ملکی تعمیر و ترقی میں شرکت نہیں کرتی قومی معیشت کی صورت حال
بہتر نہیں ہو سکتی۔ حکومت نے اس مسئلہ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے اس سلسلے
میں کافی کام کیا ہے۔ وزیراعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن مریم نواز نے اس
ضمن میں بتایا کہ پاکستان میں 9کروڑ 80لاکھ خواتین ہیں اور پاکستان کی قومی
اسمبلی میں خواتین کے لئے 60سیٹیں مختص ہیں۔ دیہی علاقوں میں بالخصوص
خواتین ملک کی افرادی قوت کا 25فیصد ہیں جو زراعت‘ صنعت‘ بنکاری‘ مواصلات
اور مارکیٹنگ میں سرگرم کردار ادا کر رہی ہیں۔ تاہم ان کی زندگی میں
آسانیاں اور دوسری خواتین کو اس جانب راغب کرنے کی مزید گنجائش موجود ہے۔
اس پس منظر میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے آسان قرضہ سکیموں کے ذریعے
جو قدم اٹھایاگیا ہے وہ قابل تعریف ہے اور اس کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا
رہی تھی۔ خواتین کو اس ضمن میں کوکنگ‘ بیکری وغیرہ کی پیشہ ورانہ تربیت دی
جائے گی اور اس کے ساتھ چھ ماہ تک تین سے پانچ ہزار روپے ماہانہ وظیفہ بھی
دیا جائے گا۔ حکومت نے اس مقصد کے لئے 800ملین روپے مختص کئے ہیں۔ چیئرپرسن
نے چیدہ چیدہ خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حکومت خواتین میں
کاروباری مہارتوں کوفروغ دینے کی متمنی ہے۔ وزیراعظم کے یوتھ بزنس لون سکیم
میں 50فیصد قرضے خواتین کے لئے رکھے گئے ہیں۔ اس سکیم میں خواتین کو بیکری‘
کنفیکشنری‘ کیٹرننگ اور ڈیکوریشن سروسز مونیسٹوری سکول چلانا‘ بیوٹی کلینک‘
انیٹریر ڈیکوریشن‘ ڈے کیئر سنٹر اور بوتیک کی تربیت دینا شامل ہے۔ خواتین
کو بزنس قرضوں کی فراہمی کے علاوہ حکومت انہیں ہینڈ ہولڈنگ پروگرام کے
ذریعے ٹیکنیکل ٹریننگ فراہم کرنے میں بھی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ان کی دلی
خواہش ہے کہ سکیم پر حرف بہ حرف عملدرآمد ہو۔ انہوں نے حکام کو ایک ایسا
فریم ورک تیار کرنے کی ہدایت کی ہے جو قابل عمل ہوا اور آسان ہو۔اس مقصد کے
لئے ایک ویب سائٹ بھی تیار کی گئی ہے تاکہ قرضہ حاصل کرنے کے خواہشمند
نوجوانوں کو آسانی ہو۔پرائم منسٹر یوتھ پروگرام کے تحت وزیراعظم کی سمال
بزنس لون سکیم کو کئی لحاظ سے ایک سنگ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ اس سے نہ
صرف خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد ملے گی بلکہ بے روزگار نوجوانوں کے
لئے ملازمت کے مواقع بھی فراہم ہوں گے۔ اگر اس پروگرام کو طویل المدتی
تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ملک کے غربت کے اشاریے کو تبدیل کرنے میں اہم
کردار ادا کرے گا۔ پرایم منسٹر لون یوتھ سکیم حکومتی وژن کے طور پر سامنے
آئی ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے کاروبار شروع کروا کر ملکی صنعت کو متحرک کر دے گی۔
یہ ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے دوسری قومیں طویل عرصے سے اب تک اپنی معیشت
کو مضبوط کرتی چلی آئی ہیں۔جب اسے مالیاتی نظام سے مضبوط کر دیا جائے گا تو
قومی معیشت کو وہ جست ملے گی جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔
ہر نئے منصوبے کی طرح اس سکیم میں بھی چند مشکلات حائل ہیں جن کو دور کیا
جانا ہے۔ ہر شعبہ کے زمینی حقائق مختلف ہوتے ہیں اور اس سے متعلقہ مسائل کو
حل کرنا اور ان کا مداوا کرنا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں سکیم سے مستفید ہونے
والوں کی شعوری سطح‘ درخواست دہندگان کو ممکنہ درپیش مسائل‘ معلومات کا
تبادلہ اور ان کی تصدیق‘ کارروباری نوعیت اور مقامی آبادی کی اس میں دلچسپی
وغیرہ کے امور پر کام ہو رہا ہے۔وزیراعظم کی قرضہ سکیم کے ذریعے ایک لاکھ
افراد کو نیشنل بنک اور فرسٹ وومن بنک کے ذریعے رعائتی قرضے دیئے جائیں گے۔
یہ بات قابل تحسین ہے کہ مالی مشکلات کے باوجود حکومت نے لون سکیم کو اتنا
آسان بنا دیا ہے کہ ہر کوئی آسانی سے قرضہ لے سکے۔ اس مقصد کے لئے بنکوں
اور سمیڈا کے دفاتر میں سپیشل کاؤنٹر قائم کیے گئے ہیں جن میں درخواست
دہندگان کو سہولت فراہم کی جاتی ہے اور ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ قرضوں کی
اس سکیم کے بارے میں اچھی بات یہ ہے کہ یہ بلاسود اور اسلامی قوانین کے
مطابق ہوں گے۔ قرضے کا بوجھ قرضہ لینے والے پر پڑے گا کسی اور پر نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں بلاسود قرضہ سکیم کو کامیاب کرنا ہے یہ تبھی ممکن ہے
جب ہم اپنی مذہبی حدود و قیود میں رہیں اور اسلامی اقدار پر عمل کریں۔ یہ
چیز ملک میں بنکاری کے غیر اسلامی قوانین سے نجات کی طرف پہلا قدم ثابت ہو
گی۔ اگر یہ بلاسود قرضہ سکیم کا نقطہ آغاز ہے تو پھر یہ کام اس طرح کیوں نہ
کیا جائے کہ یہ ملک میں بے روزگاری کے خاتمے کا سبب بن جائے۔ ان قرضہ
سکیموں کے ذریعے جن میں پچاس فیصد کوٹہ خواتین کے لئے ہے ہماری گھریلو صنعت
پھلے پھولے گی۔ یہ ایسا کام ہے جس کا بہت پہلے آغاز ہو جانا چاہئے
تھا۔بہرحال یہ قرضہ سکیم ایسا جامع پروگرام ہے جو معاشرے کے ہر اس طبقہ کا
احاطہ کرتا ہے جو اس سے مستفید ہونا چاہے۔ اس میں نوجوان مردو خواتین شامل
ہیں۔ 40سال سے زائد عمر کے لوگوں کے لئے یوتھ بزنس لون ہے۔ جو اپنے کاروبار
اور خود روزگار سکیم میں سرمایہ کاری کی اجازت دیتا ہے۔ ملک کی بڑھتی آبادی
کے پیش نظر نوجوانوں بالخصوص خواتین کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا
تقریباً ناممکن ہے اس تناظر میں اس سکیم سے بڑے پیمانے پر خود روزگاری کو
فروغ ملے گا۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ زوال پذیر معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا
کرنا ہو تو اس کا بہترین طریقہ روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔اس میں کوئی
شک نہیں کہ نوجوان ملک کے تعمیری بلاکس ہیں جن پر کوئی عمارت استوار ہوتی
ہے۔ یہ نوجوان قوم کو خوشحال بنانے میں مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لئے
نوجوان نسل حکومت کے لئے بہت اہم ہے۔ اس حقیقت کا ادراک یوتھ سکیم کی جامع
نوعیت میں جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے۔ |