اے بنتِ حوا جاگ ذرا

 کل کسی کو نصیحت کرنے والا داد پاتا تھا۔آج کسی کو اچھائی کی تلقین کریں تو ڈانٹ ملتی ہے۔میرے استاذ محترم ایک مرتبہ کہہ رہے تھے کہ ’’بیٹا!کبھی کبھی نیکی کرنا بھی مہنگا پڑجاتا ہے۔‘‘میں نے کہا’’حضرت کیوں؟‘‘کہنے لگے’’میرے ایک دوست ہیں،ان کی ایک صاحبزادی ہے جو شہر کے کسی کالج میں پڑھتی ہے۔ایک روز وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بس اسٹاپ پر کھڑی تھی،تمام لڑکیوں نے تو برقعہ پہن رکھا تھا مگر بے حجاب تھیں۔اتفاق سے میرا وہاں سے گزر ہوا میں نے کہا بیٹیو!منہ ڈھانک لو، پردہ کرو،یہ طریقہ اچھا نہیں ہے۔‘‘پتہ نہیں اس لڑکی نے گھر جاکر اپنے والد سے کیا کہا۔وہ فون پر مجھ سے الجھنے لگے،کہنے لگے’’مولوی صاحب آپ نے میری لڑکی کی اس کی سہیلیوں کے سامنے بے عزتی کردی۔آپ کو اس سے کیا مطلب؟‘‘میں نے کہا’’بھائی میں نے کہا ہی کیا ہے؟اس کی بھلائی کے لیے نصیحت کی ہے۔‘‘وہ صاحب کہنے لگے’’میں ہوں نا اس کو نصیحت کرنے والا،وہ میری اولاد ہے۔‘‘استاد صاحب کی باتیں سننے کے بعد میں نے کہا’’ہاں مولوی صاحب!آج کسی کو نصیحت کرنا بہت مہنگا پڑرہا ہے۔ہمیں کسی کو نصیحت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘میرے اس طرح کہنے پر استاد جی نے پیار بھرے انداز میں کہا’’بیٹا!سب لوگ ایسے نہیں ہوتے،ہمارے معاشرے میں بہت سے دیندار گھرانے موجود ہیں۔اگر ہم یہ سوچیں گے کہ نصیحت کرنے کے بدلے میں ڈانٹ ملے گی تو کل قیامت کے دن ہماری پکڑ ہوگی،کیونکہ ہمیں خیر امت کا لقب دیا گیا ہے۔ہمیں بہترین امت کہا گیا ہے جو نیکی کا حکم دیتی ہے،بدی سے منع کرتی ہے۔‘‘استاد جی نے ایک پیاری بات یہ کہی کہ’’بیٹا!کسی کو کچھ تلقین کرنے سے پہلے یہ دیکھو کہ کہیں وہ برائی ہمارے گھر میں جنم تو نہیں لے رہی ہے؟بہتر تو یہی ہے کہ پہلے خود عمل کریں اس کے بعد دوسروں کو عمل کی تلقین کریں۔‘‘

والدہ محترمہ ایک واقعہ سنارہی تھیں کہ کوئی خاتون رکشے میں کہیں جارہی تھیں(والدہ کے مطابق ان کے دور میں پردہ کا انتظام ہوا کرتا تھا)وہ خاتون پردے سے جھانک رہی تھیں۔کسی غیرت مند نے دیکھا تو پتھر پھینک کر مارا۔اس خاتون کے گھر والوں نے پتھر مارنے والے کے اس اقدام کو سراہا۔یہ واقعہ اگر آج کے دور میں ہوتا تو بتایے کیا ہوتا؟کیا اس خاتون کے گھر والے پتھر پھینک کر مارنے والے شخص کو چھوڑ تے؟پتہ نہیں کیا کیا ہوجاتا۔اس شخص نے در اصل پتھر پھینک کر اشارہ دیا تھا کہ پردے میں ہوجاؤ۔آج ہماری فیشن پرست بہنیں پردے سے دوری اختیار کرتی جارہی ہیں۔کچھ خواتین تو برقعہ کو فیشن کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔برقعہ کچھ اس طرح پہنا جاتا ہے کہ اس پر خوشنما بیل بوٹے ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے نہ دیکھنے والے کی نظر بھی اس پر پڑجاتی ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے خواتین، مردوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہیں۔توبہ توبہ!بہت سی عورتیں اتنا اونچا برقعہ پہنتی ہیں کہ پیر کا اوپری حصہ تک نظر آنے لگتا ہے۔یہاں تو پردے کا مقصد ہی فوت ہوگیا۔آج کا لباس بھی واہیات قسم کا ہوگیا ہے کہ جس کا پہننا مسلمان عورت کے خیال میں آہی نہیں سکتا تھا،مگر عیسائی لیڈیوں کی دیکھا دیکھی ہمارے معاشرے میں گھستا چلا جارہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو بے بردہ گھروں سے باہر نکلنے سے روکیں ،ایسے بے ہودہ لباس پہن کر،بے پردہ رہ کر بازاروں کی زینت بننے سے اپنی بچیوں کو بچائیں ورنہ معاشرے کا بگاڑ یقینی ہے۔
پردے میں تجھ کو رہنا ہے،اک دم عیاں نہیں:عورت ہے تو کوئی،بازار کی دوکان نہیں

اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جو خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں ان کو دور فرمادے اور ہم سب کو اسلامی معاشرہ نفیب فرمائے اور ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے کی توفیق نصیب فرمائے،آمین ثم آمین
 
Syed Muhammad Irfan Shah Muniri
About the Author: Syed Muhammad Irfan Shah Muniri Read More Articles by Syed Muhammad Irfan Shah Muniri: 26 Articles with 33456 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.