1994میں پہلی بار جب والد صاحب
کو شوگر کی وجہ سے کمر پر پھوڑا نکلا تو میرے شہر کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے
ڈاکٹروں نے ہولی فیملی راولپنڈی والد صاحب کو ریفر (Refer)کیا اس وقت حالات
اور تھے اور ملک ترقی کر رہا تھا اس لیے ڈاکٹروں کے اس مشورے میں ہی سلامتی
جانی اور والدصاحب کو ہولی فیملی راولپنڈی لے گئے جہاں ایک ماہ علاج معالجہ
کروانے کے بعد دوبارہ فرسودہ سسٹم کا حصہ بن گئے ۔ٹھیک دو سال بعد پھر والد
صاحب کی طبیعت بگڑی تو پھراپنے شہر کے ڈاکٹروں نے والد صاحب کو راولپنڈی
ریفر کیا گیاجہاں علاج معالجہ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے پشاور لیڈی ریڈنگ
ہسپتال لے گئے جہاں سے علاج معالجہ کے بعد دوبارہ واپس اپنے شہر آگئے اور
سسٹم سے کمپرومائز کر کے ماہ و سال گزارنے شروع کردئیے۔ 2001میں دوبارہ
طبیعت بگڑی تو پھر اپنے شہر کے ڈسٹرکٹ ہسپتال کے ڈاکٹروں نے راولپنڈی ریفر
کیا حکومت کی ناکامی پر کمپرومائز کر کے خاموشی سے ابو کو ہسپتال سے باہر
نکالا اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر سوچا کہ کیا کروں ؟کرنا کیا تھا؟حکومت کی
نااہلی اور بے رخی پرکمپرومائزلہٰذا اس بار بھی یہی کیا۔ راولپنڈی اور
پشاور جانے سے قاصر تھا اس لیے یہاں ہی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ہزاروں
روپے قرض لے کر علاج کروایا ۔علاج معالجے کے بعد آگے دو سال قرض اتارنے میں
لگا دئیے۔2003میں ابو کو شوگر کی وجہ سے پاؤں کی سب سے چھوٹی انگلی میں
انفیکشن ہوا یہ انفیکشن بڑھتا بڑھتا پورے پاؤں تک پھیل گیا جس پر سرجن
لاچار ہوا اورپنڈلی سے والد صاحب کی ٹانگ کاٹ کر والد صاحب کو ایک الگ کمرے
میں شفٹ کر کے تقدیر پر چھوڑ دیا ۔
امین اسلم (سابقہ ممبر قومی اسمبلی)اور مرزا عبدالرحمن (سابقہ صدر راولپنڈی
چیمبر آف کامرس)کواپروچ کیا۔مرزا عبدالرحمن نے محترم ڈاکٹرصاحب کو ان کے
پرائیویٹ کلینک سے لیا اور ابو کا چیک اپ اپنی موجودگی میں کروایا اس کے
ساتھ ساتھ ہم نے بھی محترم سرجن صاحب کا شکریہ ادا کیا کہ حضور نے اپنی
گونا گوں مصروفیات میں سے وقت نکالااور 3دن بعد والد صاحب کو چیک اپ کر ہی
لیا۔خیر خوف امین اسلم اور مرزا عبدالرحمن کی موجودگی میں سرجن صاحب نے
آدھا گھنٹا(نارمل ایک منٹ چیک اپ ہوتا تھا) ابو کی ٹریٹمنٹ کی اورایک بار
پھر ابو کو راولپنڈی جنرل ہسپتال (بے نظیر جنرل ہسپتال ) ریفر کیامطلب 9سال
بعد بھی ریفر ٹو راولپنڈی۔یاد رہے کہ یہ سرجن صاحب والد صاحب کی ٹانگ پنڈلی
سے پہلے ہی کاٹ چکے تھے۔اس کے علاوہ میں لفظ ’’خوف امین اسلم ‘‘استعمال
کرنے پر معذرت خواہوں کیوں کہ یہ لفظ ویسے تو خوف خدا کی صورت میں استعمال
ہوتا ہے مگرچوں کہ خوف خدا تو اس وقت سرجن کے کرتوت دیکھ کر لگتا تھا کہ
نہیں ہے لیکن خوف امین اسلم لازمی تھا جس کو خاطر میں لاتے ہوئے محترم سرجن
صاحب 3دن بعدابو کے چیک اپ کے لیے آہی گئے ۔ویسے تو ہم والد صاحب کو ڈسٹرکٹ
ہسپتال صرف انگلی میں چھوٹے سے زخم کی ٹریٹمنٹ کے لیے لائے تھے مگر جب یہاں
سے راولپنڈی لے کر گئے تو آدھی ٹانگ کٹ چکی تھی، گردے فیل ہوچکے تھے، نظر
چلی گی تھی اور سماعت بھی کھوچکی تھی لیکن ڈاکٹروں کی نااہلی اور سسٹم کے
ناکارہ پن پر کمپرومائز کر کے راولپنڈی چلے ہی گئے جہاں ڈاکٹرز نے کوشش تو
کی مگر والد صاحب جان بر نہ ہوسکے اور نومبر2003میں اس دار فانی سے رخصت
ہوگئے ۔
یہ تو 9سال کی ترقی کا حال ہے اس کے بعد کیا ترقی ہوئی وہ بھی ملاحظہ کریں
:20ستمبر 2014کو میرے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا جسے ریسکیو 1122والے ڈسٹرکٹ
ہسپتال لے گئے جہاں سے پتا لگا کہ بھائی کا بازو کلائی سے تھوڑا اوپر دو
جگہ سے ٹوٹ چکا ہے ۔چوں کہ 11سال بعد ڈسٹرکٹ ہسپتال میں علاج کا موقع ملا
تو میں یہی سمجھ رہا تھا کہ اب 11سال میں کچھ نہ کچھ ترقی ہوئی ہوگی مگر
میں یہ جان کر اور بھی حیران ہوا کہ اس بار بھی ڈاکٹرز نے میرے بھائی کی
پرچی پر ریفر ٹو راولپنڈی لکھ دیا۔کبھی میں پرچی کی طرف دیکھتا تو کبھی وہ
اشتہارنظروں کے سامنے آتے جن میں علاج و معالجہ مفت اور فوری پہنچانے کے
بڑے بڑے دعوے لکھے ہوتے اور کبھی سوچتا کہ کون سی ترقی اور کیا ترقی۔خیر
راولپنڈی بھی چلے گئے اور وہاں جو ذلالت برداشت کرنی پڑی وہ زیب ورق کرنا
اپنی توہین سمجھتا ہوں کیوں کہ ابھی بھی کئی لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان
ترقی کررہا ہے ،یہاں علاج معالجہ مفت اور فوری میسر آتا ہے،گورنمنٹ کے سکول
و کالجز میں فیکلٹی سے لے کر تمام سہولیات طلباء وطالبات کو میسر ہیں اور
یہ ادارے تعلیم احسن طریقے سے میسر کر رہے ہیں ، پینے کا صاف پانی جگہ جگہ
موجود ہے، کارخانوں میں بجلی ہر وقت ہوتی ہے ، آفس میں جانے کے لیے ناشتہ
بھی بروقت مل جاتا ہے کیوں کہ گیس موجود ہوتی ہے ، گاڑی سی این جی سے ہر
وقت بھری رہتی ہے اور جس وقت اور جس دن سی این جی کی ضرورت ہوتی ہے خوار
ہوئے بنا مل جاتی ہے ،گورنمنٹ اداروں میں کام بآسانی اور بغیر اثر و رسوخ
کے ہوجاتاہے ، امن و امان کو برقرار رکھنے میں پولیس اور سیکورٹی ادارے
اپنا فرض نبھا رہے ہیں ،بے روزگاری کم ہوچکی ہے ، قتل و غارت کم ہوچکا ہے
غربت و افلاس دور دور تک نہیں ہے ، مائیں بچوں کو کھانا نہ دے سکنے پر
خودکشیاں بھی اب نہیں کرتی ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کو فروخت کرتی ہیں ۔
معذرت ان دوستوں اور عوامی نمائندوں سے جو مسلسل یہ رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ
ملک ترقی کررہا ہے ۔کیا خاک ترقی ہوئی ہے مجھے تو پچھلے 20سال سے ترقی کم
اور تنزلی زیادہ نظر آرہی ہے ۔لیکن میرے جیسے لوگوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ
ہم ترقی اس کو کہتے ہیں جس میں جمہور کو زندگی گزارنے کے لیے ضروریات زندگی
ور سہولیات باآسانی اور جمہور کی حیثیت کے مطابق میسر ہوں مگر یہاں اشیاء
جمہور کی حیثیت سے باہرجب کہ سہولیات پہلے سے تو میسر نہیں اور جہاں میسر
ہیں وہاں جمہور کی پہنچ سے بہت باہر۔ |