ایک کتابی اور نظریاتی کارکن

آپ کے دفتر پہنچنے کا وقت کیا ہے ،میں نے کہا 9بجے دفتر پہنچنا ہوتا ہے ۔او ہو یہ تو ٹائم ہو گیا ہے اب آپ دفتر جایے باقی باتیں ان شاء اﷲ آئندہ کریں گے یہ کہہ کر وہ کرسی سے اٹھ گئے میں بھی کھڑا ہوگیا دروازے تک آتے ہوئے انھوں نے کہا چلتے چلتے ایک بات سنتے جایے ۔ایک شخص مسلمان سے کافر ہو جاتا ہے ،لیکن پھر اﷲ اسے ہدایت دیتا ہے اور وہ مسلمان ہو جاتا ہے ،کچھ دن بعد پھر اس کا دماغ بہک جاتا ہے اور وہ مرتد ہوجاتا ہے کچھ عرصے بعد اسے اپنی گمراہی کا احساس ہو تا ہے اور وہ پھر توبہ کر کے مسلمان ہو جاتا ہے اس طرح ایک آدمی کا ایمان بار بار جاتا ہے اور واپس آجاتا ہے لہذا ایمان ایسی اہم چیز جس پر آدمی کے جنت اور جہنم میں جانے کا انحصار ہوتا ہے وہ واپس آسکتا ہے لیکن وقت ایسی شے ہے جو ایک بار جاکر واپس نہیں آسکتی اس لیے ہمیں اس کی قدر کرنا چاہیے ۔میں نے کہا ااپ نے بہت زبردست بات کی ہے ۔یہ تھے ہمارے دیرینہ رکن جناب عتیق احمد صاحب جن کا کافی عرصے قبل انتقال ہو گیا ۔قرون اولیٰ کے لوگوں اگر کوئی ہلکی سی جھلک دیکھنا ہو تو جماعت اسلامی کے ابتدائی ارکان کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ایثار و قربانی کی انمٹ مثالیں قائم کی ہیں ۔طیب احمد صاحب ایک طویل عرصے تک لیاقت آباد کے ناظم اعلیٰ رہے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ جناب عتیق صاحب مجھ سے عمر میں بیس پچیس سال بڑے ہی ہوں گے لیکن وہ جب بھی مجھ سے بات کرتے انتہائی ادب ،احترام ،نظریں جھکا کر اور ملائم لہجے میں بات کرتے ۔جب جناب افتخار صاحب مرحوم الخدمت کے نگرں تھے تو عتیق صاحب ان کے مطب میں بیٹھ کر الخدمت کے کام میں ان کی معاونت کرتے تھے ایک دفعہ میں(طیب صاحب )نے دیکھا کہ عتیق صاحب کے سر میں پٹی بندھی ہے اور وہ سائیکل پر جارہے تھے میرا ان کا ٹکراؤ دس نمبر پہ کیفے بھورے خان (جو اب نہیں ہے ) پر ہوا میں اپنی بائیک سے مڑرہا تھا وہ اندر والے روڈ سے ڈاکخانے کی طرف جارہے تھے جہاں الخدمت کا دفتر ہے میں پوچھا سر میں پٹی کیسی بندھی ہے کہنے لگے سائیکل سے گر گیا تھا میں نے کہا عتیق صاحب آرام کرتے کیا ضروری تھا جانا۔کہنے لگے گھر میں بیٹھ کر کیا کرنا دفتر میں کچھ کام ہی ہو جائے گاویسے بھی کوئی شدید چوٹ نہیں ہے ۔طیب صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ وہ کسی کام سے عتیق صاحب سے ملنے ڈاکٹر افتخار صا حب کے مطب گئے جہاں عتیق صاحب بھی بیٹھتے تھے ۔یہ کرسی سے اٹھ کر کھڑے ہو گئے میں اپنی بات کرتا رہا درمیان میں دو ایک مرتبہ میں نے کہا عتیق صاحب آپ بیٹھ جایے یہ بس یہی کہتے نہیں نہیں کوئی بات نہیں آخر میں نے کہا عتیق صاحب آپ بیٹھتے کیوں نہیں ،بس انھوں اتنا ہی جواب دیا کہ آپ بھی توکھڑے ہیں ۔طیب صاحب ایک اور ان کا دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ بتاتے ہیں کہ الیکشن کے دن تھے اور سردیوں کی رات تھی ہم جماعت اسلامی لیاقت آباد کے دفتر میں جو ان دنوں بلاک نمبر 9میں تھا جس کو انصاری حال بھی کہتے تھے کچھ تحریکی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے رات کے تقریباَ ساڑھے بارہ بجے تھے اتنے میں عتیق صاحب آگئے جن کا گھر دو گلی پیچھے ہی تھا ،ہمارے ایک ساتھی مرزا مغل نے کہا کہ چائے کا موڈ ہو رہا ہے میں نے کہا ہاں بھئی موڈ تو میرا بھی ہو رہا ہے عتیق صاحب نے کہا میں اپنے گھر سے چائے بنواکر لاتا ہوں ،یہ کہہ کر وہ چلے گئے اور پھر کافی دیر ہوگئی عتیق صاحب واپس نہیں آئے ہم لوگوں نے کہا کہ کافی وقت ہوگیا عتیق صاحب کو شاید دودھ وغیرہ نہ ملا ہو یا کوئی اور وجہ ہو ہم لوگ دفتر سے اٹھ گئے اس زمانے میں ،میں سی ایریا میں جناب عبدالرشید صاحب مرحوم کے گھر کی پہلی منزل پر رہتا تھا میں تقریباَ ڈیڑھ بجے رات گھر پہنچا ابھی میں اپنی قمیض اتار کر کھونٹی پر لگانے جارہا تھا کہ اتنے میں دروازے سے کال بیل ہوئی میں نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ یہ عتیق صاحب ہی ہوں گے تفصیل آکر بتاتا ہوں میں نے نیچے جا کر دروازہ کھولا تو دیکھا کہ عتیق صاحب چائے کا تھرماس لیے کھڑے ہیں ،شرمندگی کے عالم میں جیسے حلق سے کوئی آواز ہی نکل نہ پا رہی ہو میں نے بڑی مشکل سے کہا کہ عتیق صاحب شرمندگی کی وجہ سے میرے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ آپ سے کیسے معذرت کروں معذرت کے الفاظ بھی بہت چھوٹے لگ رہے ہیں میں نے تھرماس لیا اور ان کو ساتھ لے کر اوپر گیا ان کے ساتھ خود بھی چائے پی اور پھر اٹھتے وقت ان سے معذرت کی انھوں سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بتایا کہ تاخیر کی وجہ یہ ہوئی کہ جب گھر گیا تو دودھ ختم ہوچکا تھا میں نے بہو سے کہا کہ آپ چائے کا پانی رکھ دیں میں دودھ لے کر آتا ہوں باہر آیا تو محلے کی ساری دکانیں بند ہو چکی تھیں پھر ڈاکخانے آیا یہاں ایک دکان کھلی تھی اس سے دودھ لے کر گیا سائیکل پر بیٹھتے وقت انھوں ایک بات کہا جو مجھے ساری زندگی یاد رہے گی کہ "ہمیں کارکنوں پر اعتماد کرنا چاہیے"۔اب کچھ برا ہ راست ان کے حوالے سے میرے مشاہدات ہیں ۔عتیق صاحب وقت کے ساتھ قانون کی پابندی بھی کرتے تھے لیاقت آباد نمبر نو اور دس کی درمیانی سڑک پر وہ جارہے ہیں میں ان کے پیچھے پیدل جارہا تھا میں نے دیکھا کہ جب ان کی گلی آنے والی تھی تو انھوں نے اپنے داہنے بازو سے اپنی گلی میں مڑنے کا اشارہ کیا اندرونی گلیوں میں کون اس کا اہتمام کرتا ہے ۔عتیق صاحب کی تعلیم ایم،اے اکنامکس اور ایل ایل بی تھی لیکن انتہائی سادہ رہتے تھے انھیں کوئی معاشی ضرورت نہ تھی لیکن وہ پچاس اخبار جسارت ڈاکخانے سے ہاکر ریٹ پر خرید کر لاتے تھے اور ان کے پاس خریداروں کی فہرست تھی اس کے مطابق روز ان کے گھروں پر اخبار ڈالتے تھے اس میں جو پیسے بچتے تھے اس سے وہ کچھ ایسے لوگ جو خرچ برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو انھیں مفت اخبار دیتے تھے یعنی وہ اخبار کی آمدنی سے اخبار کی اشاعت اور اس کے قاری بڑھاتے تھے اس کا یک پیسہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتے تھے یہ وہ اپنے نظریے کی محبت میں کرتے تھے ،میں نے خود اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا بھی کہ جب وہ کسی گلی میں کسی کے گھر اخبار ڈالنے جاتے تو گلیوں میں باقاعدہ آواز لگاتے کہ "جسارت پڑھیے جسارت"پوری گلی وہ یہی صدا لگاتے تھے ۔عتیق صاحب دس بارہ کارکنوں کو نماز فجر کے لیے بھی اٹھاتے تھے میں ان کارکنوں میں شامل ہوں جنھیں وہ اٹھانے آتے تھے ۔ایک کارکن جناب خلیل صاحب مرحوم مکان کی چھت پر سوتے تھے ان کو اٹھانے کے لیے عتیق صاحب کو کئی آوازیں دینا پڑتی تھیں جب خلیل صاحب کا جواب آجاتا کہ جی عتیق صاحب میں اٹھ گیا اس وقت واپس جاتے عتیق صاحب نے خلیل صاحب سے کہا کے بھائی اس طرح تو بہت دیر ہو جاتی ہے ،کوئی اور طریقہ نکالیں خلیل صاحب نے کہا ایک طریقہ ہے کہ آپ چھوٹے پتھر کے ٹکڑے پھینک دیا کریں عتیق صاحب نے کہا نہیں یہ معیوب سا لگے گا اور یہ کہ اس سے چوٹ بھی لگ سکتی ہے پھر خود عتیق صاحب نے ہی ایک طریقہ بتایا اور پھر اس پر عمل بھی کیا گیا انھوں نے خلیل صاحب سے کہا کہ آپ اپنے پیر کے انگوٹھے کو ایک موٹے دھاگے سے باندھیں اور اس کے دو سرے، سرے پر ایک پتھر چھوٹا سا باندھیں اور اسے یوار پر اتنی اونچائی پر لٹکائیں کہ کسی بچے کا ہاتھ نہ پہنچے میں اپنا ہاتھ بڑھاکر اس پتھر کو ہلاؤں گا جس سے انگوٹھا بھی حرکت کرے گا جب آپ کی آواز آجائے گی اس وقت میں چلا جاؤں گا ۔ایک دفعہ اپنے ناظم حلقہ سے کہا مجھے صبح آپ سے ملنا ہے عمر انصاری صاحب ناظم حلقہ تھے انھوں نے کہا کہ جی ٹھیک ہے آپ صبح 9بجے آجائیں ، انصاری صاحب کہتے ہیں کہ میں بھول گیا کہ میں نے عتیق صاحب کو ملنے کا وقت دیا ہے میں اپنے معمول کے مطابق دکان جانے کے لیے ساڑھے دس بجے نیچے اترا تو دیکھا کہ چبوترے پر عتیق صاحب بیٹھے ہوئے ہیں میں بہت شرمندہ ہوا میں نے ارے عتیق صاحب آپ ۔۔۔۔انھوں نے کہا میں نو بجے آگیا تھا آپ سو رہے تھے اس لیے میں یہاں بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگا میں نے کہا معاف کیجئے گا میں بھول گیا تھا کہ آپ نے آنا ہے مجھے اٹھا لیتے عتیق صاھب نے کہا نہیں آپ آرام کررہے تھے میں نے اٹھانا مناسب نہ سمجھا ۔عتیق صاحب کے گھر پر طیب صاحب کا ہفتہ وار درس قران ہوتا تھا طیب صاحب بتاتے ہیں کہ ایک دن بعد مغرب عتیق صاحب میرے گھر آئے اور کہا کہ میری بیٹی کی ساس کا انتقال ہو گیا ہے ،عشاء بعد تدفین ہے اور عشاء بعد ہی میرے گھر پر آپ کا درس ہے آپ بتایے میں وہاں تدفین میں جاؤں یا یہاں درس میں شرکت کروں ،طیب صاحب نے ان سے کہا نہیں آپ تدفین میں جایے یہاں تو ہم ہیں اور آپ کے بچے ہیں دیکھ لیں گے ۔عتیق صاحب کے ایک دوست محمد علی قریشی ہیں جو رکن جماعت ہیں اور الحمداﷲ اب بھی فعال ہیں ۔قریش برادری سے تعلق ہے جب ان کے بڑے بیٹے کی شادی تھی تو دلہن والوں نے یہ شرط لگائی کہ ہمارے دروازے پر بارات باجے کے ساتھ آئے گی محمد علی صاحب بہت پریشان ہوئے عتیق صاحب سے ذکر کیا انھوں نے مشورہ دیا کہ جماعت کے بالائی نظم سے مجبوری بتا کر اجازت لے لی جائے بارات کراچی سے حیدرآباد جانا تھی محمد علی صاحب کو اتنی اجازت ملی کے حیدرآباد میں دلہن کے گھر سے سوگز کے فاصلے سے باجے کے ساتھ بارات لے جائیں چنانچہ اس رعایت یا اجازت کی پوری پابندی کی گئی میں بھی اس شادی میں شریک تھا اور میں نے دیکھا کہ عتیق صاحب بھی بارات کے ساتھ پیدل جارہے ہیں ۔ 1977میں قومی اتحاد کی تحریک میں عتیق صاحب لیاقت آباد نمبر دو کے میت گاڑی کے دفتر روز سائیکل سے جاتے یہ دفتر اس زمانے میں خبروں کے حصول کا مرکز تھا ہر وقت وہاں سیکڑوں لوگ جمع رہتے جو روزآنہ کے تحریک کی خبروں کا مطالعہ کر کے گھر جاتے ۔عتیق صاحب روز یہاں سے خبروں کے صفحے کو سائیکلو اسٹائل کرواتے پھر لیاقت آباد کے تمام حلقوں میں جاکر تقسیم کرتے اسی دوران ایک دن قومی اتحاد نے پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا تو اس دن عتیق صاحب پیدل دفتر گئے خبریں حاصل کر کے پورے لیاقت آباد میں پیدل ہی جا کر تقسیم کیا ۔کوئی رکن یا کارکن غیر فعال ہو جائے یا ناراض ہو جائے تو عتیق تڑپ جاتے ۔عتیق صاحب اکثر دفتر جسارت مجھ سے ملنے آتے ایک دفعہ ان کا آنا جانا کچھ زیادہ ہی ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ فاروقی صاحب سے ملنے آتے ہیں ،وجہ اس کی یہ تھی لیاقت آباد میں ایک رکن جماعت کے کاغذات جماعت کے ایک رہنما کی ضمانت کے لیے کورٹ میں جمع تھے وہ رکن ان کاغذات کو نکلوانا چاہتے تھے اس میں تاخیر کی وجہ وہ کچھ ناراض ہو گئے تھے ۔عتیق صاحب نے امیر جماعت کراچی جناب محمود اعظم فاروقی صاحب سے مسلسل ملاقاتیں کر کے ان کا مسئلہ اس طرح حل کروایا کہ فاروقی صاحب نے ضمانت کی رقم نقد بیت المال سے جمع کرانے کی ہدایت کی اور اس طرح عتیق صاحب نے اس رکن جماعت کے کاغذات کی واپسی کے لیے بہت دوڑدھوپ کی وہ اس زمانے میں تقریباَ روز لیاقت آباد سے آئی آئی چندریگر روڈ جہاں جسارت کا دفتر تھا سائیکل پر آتے تھے اور اس وقت ان کی عمر 70سال کی رہی ہوگی ۔یہ ایسے خاموش مجاہدین ہیں جنھوں نے آج کے دور میں قرون اولیٰ کی مثالوں کو تازہ کیا ہے سن نوے کی دہائی میں کسی وقت عتیق صاحب لیاقت آباد سے ڈیفنس منتقل ہو گئے کچھ عرصے بعد ان کا امتقال ہو گیا ڈیفنس کی مسجد طوبیٰ میں ان کی نماز جنازہ ہوئی تھی اﷲ تعالیٰ عتیق صاحب کی حسنات جلیلہ کو قبول فرمائے ان کی قبر اپنے نور سے بھر دے ۔عتیق صاحب کے بیٹے اور بہو سب تحریک اسلامی سے وابستہ ہیں ان کے ایک بیٹے عقیل احمد ضلع جنوبی کے ضلعی نظم سے منسلک ہیں ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 41 Articles with 41228 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.