قدرت کی عطا کردہ یہ خوبصورت
دنیا جس میں خدا نے انسانی تمام لوازمات پہلے پیدا کر کے بعد میں انسان کو
خلق کیا ہے تاکہ انسان اپنی زیست کی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔جب کہ اس کے
ساتھ انسانوں کو عقل سلیم سے بھی نوازا ہے کہ وہ نیکیوں کو فروغ دینے کے
ساتھ عدل کا دامن نہ چھوڑیں تا کہ وہ خسارے میں نہ جائیں۔انسانی حیات میں
عدل ایک ایسا محور ہے جس کے گرد نہ صرف دنیا بلکہ پوری کائنات گھومتی ہے
عدل سے انسان فقد خود آسودہ حال نہیں رہ سکتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو
خوشحال بنا سکتا ہے،عدل ہی کے بدولت ایک دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا
جاسکتا ہے تاکہ کسی انسان کو کسی بھی قسم کی کوئی تکلیف اُٹھانی نہ پڑے۔عدل
ضمیر ہے ،عدل معاشرہ سازی کا جزو لا ینفک ہے ۔اب اگر کوئی عدل کو پس پشت پر
ڈال کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے خدا کا
کہا نہیں مانا اور شیطان کی پیروی کی ،جب شیطان کی پیروی کریگا تو اُس کا
ذہن بھی شیطان ہوگا اور اس انسان نما شیطان سے مخلوق خدا کے لئے خیر کی
توقع رکھنا تو درکنا ،اس کے شر سے بچنا بھی خاصا مشکل ہوجاتا ہے چونکہ اس
کا مائنڈ سیٹ جو پہلے فطرت کا دیا ہوا تھا وہ چھوڑ کر اس نے شیطانی مائنڈ
یسٹ بنالیا ہے۔یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ایسا شخص جو
مسلمان بھی ہو اور ساتھ اسلا م کا ٹھیکہ دار بھی اور اُس کے لاتعداد چاہنے
والے اور جانثار بھی موجود ہوں اگر اُس ذمہ دار شخص کا مائنڈ سیٹ بدل جائے
تو نہ صرف بڑی تباہی پھیل جاتی ہے بلکہ اس ملک کا اسلام بھی مشکوک اور
بدنام ہو کر رہ جاتا ہے۔اسی طرح کوئی سیاسی لیڈر جو اپنی سیاسی جماعت کا
سربرا بھی ہو بیشمار لوگ ان کے چاہنے والے اور ووٹ دینے والاے ہوں اور یہ
سیاستدان متعدد بار تخت حکمرانی پر بھی برا جمان ہو اور اس نے اپنا مائنڈ
سیٹ شیطانی بنا رکھا ہو تو اس ملک کا نظام کیسا ہوگا،نہ وہاں پر کسی کی جان
محفوظ ہوگی نا مال محفوظ ہوگا اور نہ ناموس محفوظ ہوسکتا ہے ۔جب کسی بھی
ملک خدا میں نخواست شیطانی مائنڈ سیٹ والے حکمران ہونگئے تو فقد شیطانی لوگ
ہی اس نظام سے مستفید ہوسکتے ہیں۔شریف ،غریب اور مظلوم لوگوں کا جینا دشوار
ہوکر ان کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔شیطانی مائنڈ سیٹ جس کسی کے بھی پاس ہوں
خواہ وہ بڑا آدمی ہو یا چھوٹا، بلکہ آج کل تو اس منحوس طبقے کو ہمارے
معاشرے میں اشرافیہ کا نام دیا جارہا ہے یقیناً یہ فائدہ بھی اپنے جیسے
اشرافیے کو پہنچاتے ہیں۔اس طرح کے مائنڈ سیٹ والے لوگ اپنے مفادات کے حصول
کی خاطر دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچاتے ہیں اور،
اوروں کی زندگی کے تمام ذرائع چھین کر اپنے اور اپنے خاندان کو امیر سے
امیر تر بنا لیتے ہیں ان کی ان حرکتوں کی وجہ معاشرے کا غریب طبقہ غربت کی
لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتا ہے یوں غریب غریب سے غریب تر اور
امیر امیر سے امیر تر والا معاشرہ پنبتا ہے۔پھر اس کے نتیجے میں برائیوں
اور گناہوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع رہتا ہے اور ہر باضمیر اور شریف
انسان کو اپنا دامن سمیٹنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔جب کہ اس
دوران خاموش رہنے والے افراد بھی خدا کی نظر میں گنہگار کہلائیں گے۔خدا نے
ایسے ہی وقت کے لئے ایسے ہی معاشرے کی درستگی کے لئے امر بالمعروف و نہی عن
المنکر کا حکم فرمایا ہے۔اب اس حکم پر عمل نہ کرنے والے بھی خسارے میں
جائیں گے۔اس طرح کے بے حس لوگ دنیا میں بھی روتے پیٹتے رہیں گے اور روز
قیامت میں بھی نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہونگئے۔خدا نے فرمایا ہے کہ اگر
کوئی تمہارے درمیان عدل و انصاف کی بات کرے،کوئی صدائے حق بلند کرے تو اُس
حق گو انسان کو تنہا نہ چھوڑنا اُس کا ساتھ دینا تاکہ برائی کو روکنے اور
اچھائی پھیلانے میں تمہارا کردار رہے۔اب ہمیں ایک نظر پاکستان کے نظام،
معاشرے پر بھی ڈالنا ہوگا کیا جو کچھ اوپر ذکر ہوچکا ہے کہیں اُس کا نقشہ
اس ملک میں بھی دکھائی تو نہیں دے رہا ہے۔کیا یہاں پر بھی غریب غریب سے
غریب تر اور امیر امیر سے امیر تر تو نہیں ہورہا ہے،کیا ہمارے اس اسلامی
جمہوری معاشرے میں زیر دست طبقہ کی زندگی اجیرن تو نہیں، کیا یہاں پر لوگ
غربت کے مارے اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبو رتو نہیں،اپنے گردے نیلام تو
نہیں کر رہے ہیں؟کیا یہاں پر بھی بنت ہوا کی عزت کو تار تار تو نہیں کیا
جارہا ہے؟کیا یہاں پر دہشت گردی نے عقیدے کی شکل تواختیار نہیں کی ہے؟ کیا
یہاں پر غریبوں کاحق چھین کر ،لوٹ کر اندرون و بیرون ملک جائدادیں،تجوریاں
تو نہیں بھری جارہی ہے؟کیا ہمارے معاشرے میں با ضمیر،شریف اور نیک انسان کو
احمق اور ناکام انسان کا خطاب تو نہیں دیا جارہا ہے؟کیا یہاں پر نام نہاد
اسلامی ٹھیکہ دار وں نے اپنے خواہشات ملا کر اسے اسلام کا نام تو نہیں دیا
ہے؟اس ملک کے نام نہاد سیاستدانوں نے ایک دفعہ بھی عوام سے کیا ہوا وعدہ
پورا کر دکھایا ہے؟کیا اب تک یہ ملک دوسرے ممالک کی طرح ترقی کی جانب رواں
دواں ہے یا تنزلی کی جانب جھک رہا ہے؟کیا یہاں پر بھی رحمانی اور شیطانی
مائنڈ سیٹ کا مقابلہ ہے؟اس استحصالی نظام کے خلاف یہاں پر کوئی آواز تو
نہیں اُٹھا رہا ہے؟ کیا اس ملک میں سچ بولنے والوں پر ظلم تو نہیں ہورہا
ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں پر ڈاکو ،لٹیرے ،بدمعاش نظریہ ضرورت کے تحت
ایک ہوکران کے خلاف بولنے والاں کا گیرا تو تنگ نہیں کیا جارہا ہے؟۔فیصلہ
آپ پر چھوڑتا ہوں کہ آیا اس شیطانی،ظالمانہ اور استحصالی نظام کے خاتمے کے
لئے ہم سب کو حصہ بقدر جُسہ اپنا کردار ادا کرنا چاہئے یا نہیں؟آپ کا جواب
جو بھی مگر ان دو نظریات سے باہر نہیں ہوسکتا ہے یعنی رحمانی نظریہ دوسرا
شیطانی نظریہ۔ہمیں اب اتنی جانکاری تو ہوچکی ہے کہ شیطانی مائنڈ سیٹ والوں
کی ہر جگہ سنی جارہی ہے۔کون حقیقت پر مبنی بات کر رہا ہے اور کون فریب سے
کام لے رہا ہے ہمیں اتنا تو ادراک ہونا چاہئے اور آزمائے ہوئے لوگوں کو
دوبارہ آزمانے سے گریز کیا جانا چاہئے۔ اور جو کوئی ان ظالموں کے خلاف ہمت
کر کرکے اگر کھڑا ہے تو اس کا ساتھ دینا ہمارا سیاسی،اخلاقی اور دینی فریضہ
میں بھی شامل ہے ۔ اس معاشرے کی درستگی میں کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ زندگی
کے کسی موڑ پر اپنا ضمیر ملامت نہ کرے، خدا ہم سب کو سچوں کے ساتھ ہونے کی
توفیق عطا فرمائے (آمین) |