قصور کس کا

 آج انہیں مدرسہ نہ آئے ہوئے تیسرا دن تھا۔ اہلیہ نے مجھ سے سوال کیا کہ آج تین دن ہوگئے حاجی صاحب کی بیٹیاں مدرسہ نہیں آئیں۔ مجھے بھی یہ سن کر کافی حیرت ہوئی کیوں کہ اس سے قبل انہوں نے کبھی بھی بغیر اطلاع کے چھٹی نہیں کی تھی۔

حاجی صاحب کا شمار ملک کے نامور تاجروں میں ہوتا تھا ۔اللہ تعالی نے انہیں جہاں بے شمار دولت سے نوازا وہیں اللہ نے انہیں پیار بھرا دل بھی عطاکیا تھا۔ناجانے کتنے لوگ روزانہ ان کے ہاں سے اپنی ضروریات کا سامان لیے ہوئے تھے۔ہر سائل کے سوال کاحل فوراً از خود کرتے تھے ۔ دنیا کی تمام تر نعمتیں ان پر مہربان تھیں، ان تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں ۲ چاند سی بیٹیاں بھی عطا کی تھی ۔ جو حاجی صاحب کو اپنی تمام تر نعمتوں سے زیادہ محبوب تھیں ۔ان کے بغیر حاجی صاحب کا ایک پل بھی گزرنا محال تھا۔جنہیں حاجی صاحب دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم دینے کی بھی پوری پوری سعی کر رہے تھے۔یہی وجہ تھی کہ دونوں بہنیں شہر کے اعلی تعلیمی ادارے میں زیر تعلیم تھیں۔ساتھ ساتھ وہ دن کے وقت قرآن مجید پڑھنے کے لیے قریبی مدرسہ بھی جاتی تھیں۔وقت کی پابندی ،ذہن کی پختگی اور حسن ادب کی وجہ سے بہت جلد ہی وہ مدرسہ کی تمام استانیوں کے دل میں گھر کر چکی تھیں۔

میں نے حاجی صاحب کا نمبر ڈائل کیا ،کافی دیر بیل بجنے کے بعد بھی رابطہ نہ ہوا ۔شام کو خود حاجی صاحب کے نمبر سے فون آیا تو پہلی بیل بجتے ہی میں نے فون اٹھایا آہوں اور سسکیوں کے پیچھے حاجی صاحب کی بیٹی کی خفیف سی آواز آئی،کافی ہمت کرکے صرف چند جملہ بول پائیں ’’ چاچا ہمارے ابو کا ۲ دن پہلے انتقال ہوگیا تھا ‘‘۔ مجھے یہ خبر سن کر کافی شدید جھٹکا لگا ۔ کیوں کہ حاجی صاحب ماشاء اللہ صحت مند اور کافی تندرست تھے ۔پھر اچانک یہ خبر کسی سانحہ سے کم نہ تھی ۔ذہن میں سینکڑوں سوال گردش کرنے لگے ،کہیں کوئی دشمنی نہ ہو ،کہی کسی ڈاکو ،چور یا لٹیرے نے نہ قتل کردیا ہو۔بلآخر میں اپنی اہلیہ کو لے کر اگلے دن تعزیت کے لیے ان کے گھر چلاگیا۔

گھر پہ کافی رش تھا ۔کافی تعداد میں لوگ شریک تھے جو غالباً حاجی صاحب کے عزیزواقارب اور دوست احباب تھے۔ فاتحہ خوانی کے بعد جب ہم گھر لوٹے تو مجھے اہلیہ کہنے لگیں ، میں نے وہاں ایک عجیب منظر دیکھا ۔ایک لڑکا کم و بیش ۶یا۷ سال کا تھا ۔ پرانے پیوند زدہ کپڑے پہنے ،ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا لیے دنیا و مافیہا سے بے خبر ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ مہمانوں میں سے یہ بچہ کسی کا بھی معلوم نہ ہوتا تھا کیوں کہ سب امیر طبقہ سے تعلق رکھنے والے تھے۔میں نے جب باربار حاجی صاحب کی بیٹی سے اس بچے کی معرفت پوچھا تو انہوں نے ٹال دیا ۔کافی اصرار کے بعد کہنے لگیں ’’دراصل ہمارے ابو نے ہمیں بتائے بناء دوسری جگہ شادی کی تھی یہ ہماری دوسری والدہ کی اولاد ہے ‘‘ ۔ مجھے یہ سن کر کافی حیرت ہوئی کہ یہ بچہ اگر ان کا بھائی ہے تو اتنا الگ تھلگ کیوں نظر آرہا ہے ۔میں نے اس کی والدہ کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں۔۔ ابو ایک دفعہ ہماری دوسری والدہ کو اور اس بچہ کو گھر لے کر آئے او ر ہمیں بتایا کہ یہ تمہارا بھائی ہے میں نے دوسری شاد ی بھی کر رکھی ہے تو گھر میں ایک کہرام مچ گیا ۔آئے دن گھر میں امی ابو کا جھگڑا شروع ہوگیا ۔امی کسی بھی صورت انہیں گھر میں برداشت نہ کرنے لگیں آئے دن کے جھگڑوں سے تنگ آکر ابو نے انہیں طلاق دے دی ، اب اسی دن سے یہ بچہ ہمارے گھر پہ ہے۔

مجھے سن کر بہت رنج ہوا ،نا جانے وہ بچہ کس طرح اور کن حالات میں زندگی گزار رہا ہے تمام تر آسائشوں کی موجودگی میں بھی وہ ہر نعمت سے محروم ہے ۔باپ کی شفقت ،ماں کا سایہ اور اپنوں کی چاہت سے ناجانے وہ کتنا دور ہے ۔وہ اپنا رونہ آخر کس کے سامنے روئے ،وہ کسی چیز کی فرمائش کے لیے کس کے سامنے ضد لگائے ،وہ ماں کہنے کے لیے کسے پکارے۔

کل کو جب وہ عقل وشعور کی منزل پہ پہنچے گا اور اپنے ماضی کو یاد کرے گا کہ بچپن میں میرے ساتھ نارواں سلوک برتا گیا تو کیا انتقام کی چنگاری اس کے سینے میں نہیں بھڑکے گی۔ کیا آپس کے رشتوں میں دراڑیں نہیں پڑیں گی۔ آنسوؤں کی ایک لڑی میری آنکھوں سے بہہ پڑی اور میں سوچتا رہا آخر اس سارے معاملے میں اس ننھی جان کا کیا قصور۔
yasir qazi
About the Author: yasir qazi Read More Articles by yasir qazi: 15 Articles with 19070 views IAM 19 YEAR OLD LIVE IN KARACHI
I WANT TO BECOME IN FUTURE A FAMOUS POET.....(ITS MY DREAM)
.. View More