روح زمین کفر وشرک کے
اندھیروں میں ڈوبا تھا کہ اسلام جیسے عالمگیر مذہب کا ظہور ہوا، رب کائنات
نے اپنے خلیفہ کو ایک مکمل دستور اساسی تفویض کر دیا اور جب حضرت انسان نے
اس دستور کا علم بلند کرتے ہوئے اس کی اصل روح کے مطابق نفاذ کیا تو
آنناًفانناًمشرق و مغرب اس کی سراہنا ہونے لگی ،لوگ جوک در جوک حلقہ بگوش
اسلام ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس انقلابی تحریک کی کامیابی کے چرچے
آسمانوں پہ ہونے لگے ،یقینا عروج بے مثال رہا ،پھر وہ وقت آیا کہ اس تحریک
روبہ زوال ہوئی ۔مسلم ممالک و اقوام میں اضافہ ہوا مگر امت مسلمہ کمزور سے
کمزور تر ہونے لگی اوروہ جو آدھی دنیا پر اپنااثر رکھتے تھے مجبور ومحکوم
بنے۔
اسلامی دنیا کے عروج و زوال کی تاریخ کامطالعہ کیا جائے تو وجوہات واضع ہیں
،کہ جب جب اہل اسلام کو حاکم کے بجائے رہنما ملے تو اس نے کامیابیوں کی
تاریخ رقم کی اور جب اوروں کے منہ سے نوالہ چھین کر پاپی پیٹ بھرنے اور
مظلوم و مجبور لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے و مال بنانے والے بادشاہ و حاکم
مسلط ہوئے تو انہوں نے اس مخلوق خدا کو اپنا غلام بنا لیا جنہیں محسن
انسانیت نے دنیا کے غلامانہ وظالمانہ ریت رواج سے آزاد کروا دیا تھا جن کے
کردار کا یہ عالم تھاکہ ’’محسن انسانیت‘‘ جن کے دم سے قائم ہے وجود کائنات
،جن کے ایک اشارے پر چاند دو ٹکڑے ہوا ،کبھی آرام دہ وپرآسائش بستر پہ نہ
سوئے ،کھردری بوری سے جسم مبارک خون جم جاتا تھا،صرف اس لئے کہ اگر میں
آرام دہ بستر پہ سویا تو پر خطرو کٹھن زندگی گزارنے والوں کا درد سے غافل
نہ جاؤں اور آپ کے تمام ساتھی جو اپنی پہلی زندگی میں دولت مند و پر آسائش
زندگی گزار رہے تھے جب آپ کے سایہ مبارک میں آئے تو اپنی تمام دولت سے
دستبردار ہوئے اور اپنی متاع حیات کو اس اسلامی انقلابی تحریک کا ایندھن
بنا ڈالا۔یہ وہ کردار تھا ان عظیم انقلابیوں کا جس نے اس سوچ کو دنیا کے
کونے کونے تک پہنچا دیا اور پوری دنیا میں اسلام کا ڈھنکا بجنے لگا ۔
پھرجونہی انہوں نے اس دنیا سے پردہ فرمایاآہستہ آہستہ ایک تبدیلی کی ہوا
چلی اور کردار کی جگہ دولت پسندی و جا و جلال نے لے لی اور وہ تحریک جس نے
آنناً فانناً آدھی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا سمٹنے لگی ،امت مسلمہ
تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی،ہر وہ شخص جسے عوام نے اپنا امیر یا حکمران
بنایا وہ مال بنانے میں میں لگ گیا اور وہ تحریک جس کی بنیاد محسن انسانیت
نے رکھی تھی کمزور ہوئی ۔
آج دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو سب سے زیادہ امیر افراد کا تعلق دنیا
اسلام سے ملتاہے ۔لیکن امت مسلمہ کے ہاں حقیقی عوامی قیادت نہ ہونے اور
دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کے باعث سب سے زیادہ غربت و افراتفری بھی دنیا
ئے اسلام میں ہی پائی جاتی ہے ،بلا شعبہ یہ ایک ایسا مرض ہے جوہر معاشرے
میں اقرباپروری،ناانصافی اور لاقانونیت کو جنم دیتا ہے اور یہ وباء
حکمرانوں سے ہوتی ہوئی نچلی سطح تک منتقل ہو ئی جس نے ’’امہ ‘‘کو پستیوں کی
جانب دھکیلا ،اس کی مثال یہ ہے کہ جنہوں نے اپنی زات کی نفی کر کے اوروں کے
لئے اپنے دل کھول کر رکھ دئے تو دونوں جہانوں میں اعلیٰ مقام حاصل کیا مگر
جو اپنی خواہشوں کے غلام بنے انہوں نے اسے دنیا میں مذاق بنا ڈالا ۔
اسلامی دنیا کا ایک چھوٹا سا ملک ’’برونائی ‘‘ جسے دارلاسلام بھی کہا جاتا
ہے ،اس کے بادشاہ ’’حسین البلقیہ ‘‘جو حقیقت میں سونے کا چمچ منہ میں لئے
دنیا میں آئے ۔ان کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محض ہر
ایک سیکنڈ 90یورو،ہر منٹ 5400،ہر گھنٹہ 324000،روزانہ 77,76,000اور ہفتہ
وار 5,44,32,00یورو آمدن ہے ۔ان صاحب کے شوق کی انتہا دیکھئے ،ان کے زیر
استعمال ہر شے سونے چاندی اور ہیروں سے چمکتی ہے ۔ان کا شاہی محل مکمل طور
پر سونے چاندی سے مرصع ہے ۔ان کا لباس سونے چاندی کی تاروں سے ایمبدائیڈری
سے مزین ہوتا ہے ۔اس مختصر سی دنیاوی زندگی کے لئے ان کا محل دنیا کا سب سے
بڑا اور آرام دہ ہے جس کے 1788کمرے ہیں اور ان تمام کمروں کی ایشاء پر سونے
چاندی اور ہیروں کی تہہ چڑھائی گئی ہے۔محل میں سونے چاندی سے مرصع 257باتھ
روم ہیں جنمیں شاندار 650سوئیپ ہیں جن کی تزئین و آرائش پر 1,50,000یورو
خرچ کئے گئے ۔نفیس و آرام دہ فرنیچر اور شاہکار فن پارے مہمانوں کو خوش
آمدید کہتے ہیں ،’’حسین البلقیہ ‘‘کے گیراج میں مختلف ماڈلز کی 110قیمتی
کاریں ہمہ وقت تیار رہتی ہیں ۔رولز رائس کمپنی نے ’’سلطان ‘‘ کی درخواست پر
ان کے لئے خصوصی کار ڈیزائن کی ہے جسے سلطان برطانیہ میں قیام کے دوران
استعمال کرتے ہیں سلطان کی ایک کارخالص سونے سے مزئین ہے ۔ان کی ملکیت میں
1932کاریں اور 12کروڑ ڈالر مالیت کا ایک خصوصی طیارہ ہے اس کے علاوہ ان کے
جہازوں کے بیڑے میں ایک بوئنگ 747بھی شامل ہے جسے سلطان کی ہدائت پر از
سرنو تیار کیا گیا جسے سونے کی پلیٹوں سے سجایا گیا جس پر لاکھوں ملین یورو
صرف ہوئے ،اس کے علاوہ بیڑے میں چھ چھوٹے ائر کرافٹ اور دو ہالی کاپٹر شامل
ہیں ۔اور ان صاحب کی بیٹی کی شادی کا جشن چودہ روز جاری رہا جس میں پانچ
ملین ڈالر خرچ ہوئے اور اس میں پچیس ممالک کے سربراہان اپنے اہل خانہ سمیت
شریک ہوئے اور شادی میں شہزادی نے جو تاج پہنا وہ ملکہ برطانیہ کے تاج سے
کئی مہنگا تھا۔
یہ ہے مسلم حکمرانی کی ایک معمولی جھلک جسے کروڑوں لوگوں نے دیکھا نہیں صرف
سنا ہو گا اور اگر حقیقت دیکھنا ہے تو اپنے قرب میں واقع ایک غریب ملک
پاکستان کے تمام سابق اور موجودہ حکمرانوں کے اندرون و بیرون ممالک میں
موجود محلات دیکھ لیجئے آج دنیائے اسلام کا اہم ملک پاکستان ،جس کی ستر
فیصد آبادی خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے لیکن اس کے
حکمرانوں کے رایؤنڈ، برطانیہ میں سرے محل ،لاہور،گجرات اور بنی گالہ محلات
جو کسی بھی اعتبار سے حسین البلیقہ کے محل سے کم نہیں دیکھیں تو یوں لگتا
ہے جیسے یہ ہزار سالہ زندگی مستعارلے کر دنیا میں آئے ہیں ۔آج پوری دنیا کے
دس امیر لوگوں میں اکثریت مسلماں حکمرانوں کی ہے ۔
اگر وہ بھی نہیں تو 84ہزار مربع میل خطے کے صرف 6فیصد علاقہ آزاد کشمیر جو
محض ایک ضلع کے برابر ہے کہ حکمرانوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ لیجئے ،تو صاف نظر
آتا ہے کہ جنہوں نے امت مسلمہ کو عروج پر پہنچایا ان کا طرز حیات اور آج کے
مسلم حکمرانوں کے طرز حیات میں جنہوں نے امہ کو زوال کی پستیوں میں پہنچا
دیا فرق صرف دولت پسندی وجاہ جلال ہے جس نے مسلم دنیا کی صلاحتوں کو مفلوج
کرکے عالم میں ایک مذاق بنا کر رکھ دیا ہے اور جذبہ ایثار جو امت مسلمہ کے
عظیم حکمرانوں کو زمانے میں ممتاز بناتا تھا اسے دولت پسندی و شاہنہ
خواہشات نے گہنا دیا ہے جس کی مثال ایک طرف دنیائے اسلام کی 70فیصد لوگ
بھوک و ننگ اور قحط سالی کا شکار ہیں اور دوسری طرف چھوٹا سا اسلامی
ملک’’برونائی‘‘ جسے دارلالسلام بھی کہا جاتا ہے جسے اﷲ نے بے شمار دولت سے
نوازہ ہے لیکن اس کے حکمراں اس دولت کو کہاں کہاں صرف کر رہا ہے یہ دیکھ کر
اسے دارالاسلام یا مسلمان کہنا ہی عجیب لگتاہے اور یہ ملک کس زاوئے سے
دالاسلام ہے یہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے ۔اسلام تو جذبہ ایثار کا دوسرا
نام ہے اور وہ جنہوں نے راتورات اسلام کو کامیابیوں کے افق پر پہنچا دیا
تھا وہ تو ایسے تھے جو خود بھوکے رہے اور اپنے حصے کا اوروں کو کھلا دیا
تھا لیکن یہ شخص اس دولت کو اپنے باتھ رومز کی آسائش کے لئے صرف تو کرتا ہے
لیکن اسے بھوکے ننگے مسلمان بھائیوں کی نظر کرنا ’’پاپ‘‘ سمجھتا ہے ۔آج
دنیا کے ساٹھ اسلامی ممالک میں سے دو’’ ترکی اور ملاشیاء‘‘ایسے ہیں جو ترقی
یافتہ سمجھے جاتے ہیں اگر ان کا دوسرے اٹھاون اسلامی ممالک سے موازنہ کیا
جائے تو اس میں بھی فرق عیاں ہے کہ انہیں درد مند رہنما ملے جب کے۔۔۔ |