بسم اللہ الرحمن الرحیم
محرم الحرام کا مقدس مہینہ جہاں دیگر بہت سی برکتوں کا سبب ہے وہاں اس کا
ایک اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مشاہیر اور ان کی زندگی کے
مختلف پہلووں سے آشنا ہونے کا موقعہ ملتا ہے۔ نواسہ رسول حضرت امام حسین کی
زندگی میں عبادت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور انہیں اللہ تعالٰی عبادت
سے بہت محبت تھی کیونکہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم اور
حضرت علی مرتضی جیسے عبادت گزاروں کی آغوش میں تربیت پائی تھی اور ان کی
صحبت سے فیض حاصل کیا تھا۔
امام عالی مقام کو بچپن ہی سے عبادت کا بہت زیادہ شوق تھا۔ آپ اکثر حضرت
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز میں شریک ہوتے تھےحضرت
حفص بن غیاث کا بیان ہے کہ ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے پہلو میں حضرت امام حسین بھی آکھڑے ہوئے۔
جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم نے نماز کے لیے تکبیر کہی تو امام حسین
نے بھی تکبیر کہنا چاہی لیکن کمسنی کی وجہ سے درست تکبیر ادا نہ کرسکے۔
حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دوبارہ تکبیر کہی امام عالی مقام
نے بھی دوبارہ تکبیر کہنے کی کوشش کی لیکن دوبارہ بھی تکبیر اچھی طرح سے
ادا نہ ہوئی۔ غرض کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سات بار تکبیر
کہنا پڑی اور اس وقت سے تکبیرۃ الاحرام سے قبل سات تکبیریں کہنا سنت ہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے تمام عمر میں ۲۵ حج پاپیادہ کیےحالانکہ
سواریاں آپ کے ساتھ ہوتی تھیں۔حضرت امام حسین علیہ السلام کو عبادت کا شوق
اس درجہ تھا کہ اکثر راتوں کو عبادت میں بسر کیا کرتے تھے یہاں تک کہ شب
عاشور کو جب دشمن نے حملہ کرنا چاہا تو عمر بن سعد سے ایک رات کی مہلت لی
تاکہ وہ رات عبادت میں بسر کرسکیں۔دس محرم کی رات وہ سخت رات تھی کہ دنیا
بھر کے مصائب حضرت امام حسین پر ہجوم کیے ہوئے تھے۔ ایسے میں باکمال شوق
اور انتہائی خضوع و خشوع کے ساتھ عبادت کرنا نواسہ رسول ہی کا کام تھا۔
اس سے بھی زیادہ سخت وقت دس محرم کے دن نماز ظہر کا تھا جب امام عالی مقام
کے بہت سے ساتھی جام شہادت نوش کرچکے تھے۔ دشمن کی طرف سے تیروں کی بارش
جاری تھی لیکن امام عالی مقام نے اپنے باقی بچ جانے والے ساتھیوں کے ساتھ
نماز ظہر ادا فرمائی۔
عصر کی نماز کے وقت تک حضرت امام حسین علیہ السلام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ
چکے تھے انتہائی قریبی جانثاروں اور بھائیوں کے علاوہ جوان بیٹے کی موت کا
داغ بھی دل پر سہہ چکے تھے لیکن اس حالت میں بھی خداوند متعال کی ذات اور
اس کی عبادت سے غافل نہیں ہوئے۔ زخموں سے چور چور امام مظلوم کو دشمنوں نے
گھیرا ہوا تھا ایسے میں نماز عصر کا وقت ہوا تو امام نے نماز عصر ادا کرنا
شروع کی اور عبادت سے اپنی محبت کا ثبوت کچھ یوں دیا کہ نماز ہی کی حالت
میں اپنا سربھی کٹوادیا۔ |