امام حسین کی سخاوت

یوں تو دنیا میں بہت سے سخاوتمند گزرے ہیں لیکن کچھ لوگوں کی سخاوت ایسی ہے کہ جسے رہتی دنیا تک کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا سخاوت کی دنیا میں حاتم طائی کا نام بہت مشہور ہے جب بھی سخاوت کا ذکر ہو حاتم طائی کا نام ضرور لیا جاتا ہے اسی لئے ایک دفعہ کسی نے امیر المومنین علی ابن طالب کی خدمت میں عرض کیا مولا سنا ہے حاتم طائی بہت بڑا سخی تھا اس نے اپنے گھر کے باہر 12 دروازے تعمیر کروائے تھے اور ہر در وازے سے مانگنے والوں کو عطا کرتا تھا تو امام نے مسکرا کر فرمایا یہ کون سی سخاوت ہے کہ مانگنے والے کو 12 دروازے پھرائے جائیں سخی وہ ہے جو ایک ہی دروازے سے مانگنے والے کو اتنا عطا کردے کہ اسے دوسرے دروازے پر ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔

اورایسے ہی سخاوتمندوں میں سے ایک حضرت امام حسین ہیں کہ جو بھی ان کے دروازے پر آگیا اسے اتنا عطا کیا کہ اسے دوبارہ مانگنے کی ضرورت نہ پڑی ۔

مسندامام رضا ص ۳۵ میں ہے کہ سخی دنیاکے لوگوں کے سرداراورمتقی آخرت کے لوگوں کے سردارہوتے ہیں امام حسین ایسے سخی تھے جن کی نظیرنہیں ملتی اورمتقی ایسے تھے کہ جن کی مثال نہیں، علماء کابیان ہے کہ اسامہ ابن زیدصحابی رسول علیل تھے امام حسین انیںں دیکھنے کے لیے تشریف لے گئے توآپ نے محسوس کیاکہ وہ بے حدرنجیدہ ہیں، پوچھا،اے میرے ناناکے صحابی کیابات ہے”واغماہ“ کیوں کہتے ہو،عرض کی مولا، ساٹھ ہزاردرہم کامقروض ہوں آپ نے فرمایاکہ گھبراو نہیں اسے میں اداکردوں گا چنانچہ آپ نے ان کی زندگی میں ہی انہیں قرضے کے بارسے سبکدوش فرمادیا۔

ایک دفعہ ایک دیہاتی شہرمیں آیا اوراس نے لوگوں سے دریافت کیاکہ یہاں سب سے زیادہ سخی کون ہے؟ لوگوں نے امام حسین کانام لیا، اس نے حاضر خدمت ہوکربذریعہ اشعارسوال کیا،حضرت نے چارہزاراشرفیاں عنایت فرمادیں، شعیب خزاعی کاکہناہے کہ شہادت امام حسین کے بعدآپ کی پشت پرباربرداری کے گھٹے دیکھے گئے جس کی وضاحت امام زین العابدین نے یہ فرمائی تھی کہ آپ اپنی پشت گندم اور آٹے کے تھیلے مسکینوں اور یتیموں کے گھررات کے وقت پہنچایاکرتے تھے کتابوں میں ہے کہ آپ کے ایک فرزندکوعبدالرحمن سلمی نے سورہ حمدکی تعلیم دی،آپ نے ایک ہزاراشرفیاں اورایک ہزارقیمتی خلعتیں عنایت فرمائیں (مناقب ابن شہرآشوب جلد ۴ ص ۷۴) ۔
آپ کی سخاوت اور کرم کی ایک مثال
امام فخرالدین رازی تفسیرکبیرمیں زیرآیة ”علم آدم الاسماء کلہا“ لکھتے ہیں کہ ایک اعرابی نے خدمت امام حسین میں حاضرہوکرکچھ مانگا اورکہاکہ میں نے آپ کے جدنامدارسے سناہے کہ جب کچھ مانگناہوتوچارقسم کے لوگوں سے مانگو
1۔ شریف عرب سے
۲ ۔ کریم حاکم سے ۳
۔ حامل قرآن سے
۴ ۔ حسین شکل والے سے ۔

میں آپ آپ میں یہ جملہ صفات پاتاہوں اس لیے مانگ رہاہوں آپ شریف عرب ہیں آپ کے ناناعربی ہیں آپ کریم ہیں ،کیونکہ آپ کی سیرت ہی کرم ہے، قرآن پاک آپ کے گھرمیں نازل ہواہے آپ حسین ہیں، رسول خدا کا ارشاد ہے کہ جومجھے دیکھناچاہے وہ حسن اورحسین کودیکھے، لہذا عرض ہے کہ مجھے عطیہ سے سرفرازفرمائیے، آپ نے فرمایاکہ جدنامدارنے فرمایاہے کہ ”المعروف بقدرالمعرفة“ معرفت کے مطابق عطیہ دیناچاہئے، تومیرے سوالات کاجواب دے ۔ بتا:

سب سے بہترعمل کیاہے؟اس نے کہااللہ پرایمان لانا۔ ۲ ۔ ہلاکت سے نجات کاذریعہ ہے؟ اس نے کہااللہ پربھروسہ کرنا۔ ۳ ۔ مردکی زینت کیاہے؟ کہا ”علم معہ حلم“ ایساعلم جس کے ساتھ حلم ہو، آپ نے فرمایادرست ہے اس کے بعدآپ ہنس پڑے۔ ورمی بالصرةالیہ اوردیناروں سے بھری ہوئی ایک تھیلی اس کے سامنے ڈال دی ۔ (فضائل الخمسة من الصحاح الستہ جلد ۳ ص ۲۶۸) ۔
 
فہد اکرام
About the Author: فہد اکرام Read More Articles by فہد اکرام: 2 Articles with 3923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.