مزاج تو ویسے ہر انسان کا اپنا
ہوتا ہے اور جتنے انسان ہوں اتنے ہی مزاج ملیں گے۔ طرح طرح کے انسانوں کے
ساتھ ساتھ طرح طرح کے مزاج بھی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان
میں ہمارے ہاں اس معاشرے میں تو خاص طور پر آپ کو ایک مزاج بکثرت ضرور ملے
گا اور وہ مزاج ہے 'شاہانہ مزج' اس مزاج کے حامل لوگوں کو دیکھنا اور فٹ سے
پہچان لینا کوئی مشکل نہیں ہے۔ ماتھے پر بل اور اکڑی ہوئی چال اور چلاتی
ہوئی زبان بالعوم مرد و خواتین کی تخصیص کے بغیر بہ وہ لوگ ہیں جو کسی بھی
وجہ سے تھوڑا بہت فائدہ ملنے کی نسبت سے اپنے مزاج کو شاہانہ اور تکبرانہ
ضرور بنائے رکھتے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ بچپن و لڑکپن میں ایک انسان کو بہت ڈھیر سارا پیار اکلوتے
ہونے کی وجہ سے ملا ہو اور یہ گھر کا اکلوتا پن پھر گھر سے باہر بھی اسی
شاہانہ انداز سے جتانا ضروری سمجھا جاتا ہے جس طرح گھر کے اندر بتلایا جاتا
ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بعد میں چاہے اکلوتا پن برقرار نہ بھی رہے مگر اس
بات کو اکلوتے صاحب یا صاحبہ کو سمجھانا ناممکن ہوتا ہے کہ اب اکلوتے پن
والا شاہانہ مزاج نہ چلے گا مگر نہ جی اکثر کیسوں میں وہ اکلوتا پن ہر جگہ
اٹھوانے کی کوشش کی ہی جاتی ہے اب یہ اور بات ہے کہ اس ایک اکلوتے کے مزاج
شاہانہ کی وجہ سے اور کتنوں کو اپنی جگہ 'سفر' کرنا پڑتا ہے۔
پھر بہت سے لوگ قدرتی طور پر ہی ایسی شخصیت لے کر پیدا ہوتے ہیں کہ انکو
آتا جاتا کچھ نہ ہو عقل و ہنر ہو نہ ہو مگر مزاج صدر امریکہ والے ہی ہوں گے۔
دوسروں پر رعب کی بارش اور نخوت کی نمائش انکا طرہ امتیاز ہوگا۔ انکو دل کو
جلانے میں لوگوں کو ورغلانے اور رُلانے میں ملکہ حاصل ہوگا ۔ ناک ہر وقت
کھڑی رہے گی اور آس پاس والوں کی جان نکلی رہے گی پھر ایسے لوگوں کو قدرت
کی طرف سے ایک فائدہ یہ بھی مل جاتا ہے کہ ان کے سامنے انکے آس پاس والوں
کو سر پیٹنے ماتھا پیٹنے لکیر پیٹنے سے ذیادہ آسان انکو جھیلتے ہوئے اپنا
آپ پیٹنا ذیادہ آسان لگتا ہے۔
پھر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کام وام کوئی نہیں کرتے ۔ کولٹی آف لائف بھی
اچھا نہ ہو۔ مگر پھر بھی انکو اپنے آپ کو مزاج شہنشاہ بنے رہنا ذیادہ سہل
لگتا ہے۔ کام وہ یکدم کرنا چاہیں گے اور بہت بڑا ہاتھ مارنا چاہیں گے۔ سب
سے بڑی فرمائش انکی یہی ہوگی کہ جی انکو کام کا نہ کہا جائے اور یہ کام
کریں گے نہیں مگر انکے نخرے اسی طرح کے جھیلے جائیں جس طرح ایک شاہانہ نواب
کے جھیلے جاتے ہیں۔ اب کوئی پوچھے جس کے پلے کچھ ہو اسکے نخرے تو خود ہی سب
اٹھانے میں رہتے ہیں جس کے آس پاس نکمے پن کے سوا کوئی قابل قبول چیز نہ ہو
اسکو کون بھگتے گا۔
بہت سے لوگ نہ پیدائشی اور فطری ایسے ہوتے ہیں نہ پلے بڑھے ایسے ہوتے ہیں
بلکہ وہ بھرتی ایسی پوسٹ پہ ہو جاتے ہیں کہ انکو اس طرح کے مزاج دکھانا بے
حد آسان اور پر لطف لگنے لگتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پوسٹ بڑھتی جاتی ہے اور
مزاج بھی بڑھتا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے زیر عتاب آنے والے بدلتے رہتے
ہیں مگر ان کے زیر عتاب کوئی نہ کوئی رہتا ضرور ہے۔ انسے بھی نمٹنے کا حل
کوئی نہیں ہوتا کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد یہ لوگ پھر ماضی کی راکھ کرید کرید
کر دوسروں کو یہ جتلانا جاری رکھتے ہیں کہ وہ کون تھے اور کیسے تھے کتنا
انکا رعب و دبدبہ تھا۔
پھر ایک قسم ایسی ہے کہ مختصر سی مدت ملتی ہے مگر مزاج پھر بھی ایسے بنائے
ہوتے ہیں جیسے نہ جانے کب کی بادشاہت مل گئی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی پاں
سیاستدان و حکمران انکے شاہانہ مزاجوں کو تو ہر خاص و عام ہی جانتا ہے سو
انکے بارے میں کیا ہی کہنا۔ |