معرفت خدا اور امام حسین

خدا کی معرفت حاصل کرنا تمام مسلمانوں کا فریضہ ہے، توحید اور خدا کی معرفت حاصل کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ اسلام کی عظیم المرتبت شخصیات کے فرامین ہیں جو معرفت خداوند متعال کا بہترین سرچشمہ ہیں۔ ذیل میں حضرت امام حسینؑ کے خطبے کا ایک حصہ پیش کیا جارہا ہے جس میں امام حسینؑ نے لوگوں کو توحید و معرفت خدا سے روشناس کروایا ہے۔ حضرت امام حسین فرماتے ہیں:

اے لوگو!ایسے لوگوں سے دور ہی رہو جو دین سے نکل گئے اور اللہ جل شانہ کو اپنے جیسا سمجھنے لگے۔ ان کی باتیں ایسے ہیں جیسے اہل کتاب سے کفار باتیں کرتے ہیں، حالانکہ وہی سب کچھ ہے، کوئی شے اُس کی طرح نہیں۔ وہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔ آنکھیں اُس کو دیکھ نہیں سکتیں جبکہ وہ آنکھوں کو دیکھتا ہے۔ وہی مہربان اور تمام امور کاجاننے والا ہے۔

وہ ذات جس نے جبروت اور وحدانیت کو اپنے ساتھ خاص کر رکھا ہے جبکہ خواہش ، ارادہ، قوت اور دانش کو استعمال میں لایا ہے۔ کسی بھی چیز میں اس سے جھگڑنے والا ہے ہی نہیں۔ کوئی ایسا نہیں کہ اس سے برابری کرے۔ اس کی کوئی ضد نہیں جو اس سے مقابلہ کرے۔ کوئی اس کا ہمنام نہیں جو اس سے مشابہت پیدا کرے اور نہ ہی کوئی اس کی مثل ہے کہ اس سے ہم شکل قرار پائے۔

پے در پے اُمور اس میں کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ گردشِ ایام اس میں تبدیلی نہیں لا سکتے۔حوادثِ زمانہ اس پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ اس کا وصف بیان کرنے والے اس کی عظمت کی گہرائیوں کو نہیں پاسکتے۔ اس کے جبروت کی بلندیوں کو دلوں سے محسوس نہیں کرسکتے کیونکہ اشیاء میں کوئی بھی اس کی طرح نہیں ہے۔ علماء بھی اپنی عقل کی بلند پروازوں کے باوجوداسے نہیں پاسکتے۔

مفکرین اپنی تمام تر سوچ وبچار کے باوجود اس کے وجود کی تصدیق کئے بغیر نہیں رہ سکتے کیونکہ مخلوقات کی صفات میں سے کسی کے ساتھ بھی توصیف نہیں کرسکتے۔ وہ واحد اور بے نیاز ہے۔جو کچھ بھی انسانی تصور میں آتا ہے، وہ اس ذات کے علاوہ ہے۔

وہ بھی کوئی رب ہے جسے درک کیا جاسکے! وہ بھی کوئی رب ہے جسے ہوا یا غیر ہوا گھیر لیں! وہ ہرچیز میں ہے، نہ اس طرح کہ اس کے حصار میں ہے اور وہ تمام چیزوں سے جدا بھی ہے مگر نہ اس طرح کہ وہ اس سے مخفی ہیں۔ وہ بھی کوئی قادر ہے کہ کوئی اس کی ضد ہو اور اس سے مقابلہ کرے یا کوئی اُس کی برابری کرے۔ اس کی قیومیت گزرے ہوئے ایام کی طرح نہیں ہے اور اس کی توجہ کوئی خاص جہت نہیں رکھتی۔

جس طرح وہ آنکھوں سے مخفی ہے، عقل کی گہرائیوں سے بھی پوشیدہ ہے۔ جس طرح اہلِ زمین سے پوشیدہ ہے، اہلِ آسمان سے بھی ایسے ہی مخفی ہے۔ اس سے قرابت گویا اس کا گرامی قدر بنادینا ہے۔ اس سے دوری گویا گھٹیا قرار دینا ہے۔ اس کا کوئی مکان نہیں ہے اور نہ ہی زمانے اس کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔کوئی بھی اس کے اُمور میں مداخلت نہیں کرسکتا۔ اس کی بلندی سے مراد یہ نہیں کہ وہ کسی ٹیلے پر ہے۔ اس کا آنا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا نہیں ہے۔ وہ عدم سے وجود بخشتا ہے اور وجود کو نیستی میں بدل دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کیلئے بھی دو متضاد صفات ایک وقت میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ اس کے بارے میں غوروخوض اس وجود کے متعلق ایمان تک پہنچانا ہے۔اس کے بارے میں ایمان اور اعتقاد فقط اس کے وجود تک پہنچاتا ہے۔(یعنی اس کی ذات کے متعلق غوروخوض اس کے وجود کو ثابت کرتا ہے لیکن پھر بھی اس کی ذات سے پردہ نہیں اٹھاتا)۔

اس کی وجہ سے صفات متصف ہوتی ہیں، نہ یہ کہ اس کی توصیف صفات سے کی جائے۔ چیزوں کی پہچان اسی کے دم سے ہے نہ یہ کہ وہ چیزوں سے پہچانا جائے۔ یہ ہے اللہ جل جلالہ کہ کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ وہ پاک ہے۔ اس کی مانند کوئی چیز نہیں ہے۔ وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔(تحف العقول:۲۴۴)

مجاھد قادری
About the Author: مجاھد قادری Read More Articles by مجاھد قادری: 7 Articles with 5533 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.