Daihs ! ISIS

آج کل عراق میں خلافت لانے والی ایک تنظیم کا بہت چرچا ہے۔ جس کو ISIS کا نام دیا گیا ہے بنانے والوں نے۔ اس خلافتی تنظیم کا پہلا احسان جو مسلم دنیا پر کیا گیا ہے وہ کردوں کی علیحدگی پر مبنی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کروانا ہے۔ آج جتنا دوام کردوں کو ملا ہے اس خلافت سے شاید پچھلے سو سال میں نہیں ملا ہو گا۔ یہ کرد باشندے ایک عرصے سے خود کو ترکی اور عراق کے سرحدی علاقوں کا مالک سمجھتے ہیں۔ ترکی نے کبھی بھی ان کے اس مطالبے کو درخور اعتنا نہیں سمجھا اور نہ ہی صدام حسین کے دور میں ان کو گھاس ڈالی گئی کہ یہ دو ممالک کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی عالمی سازش تھی۔ پھر کرد لوگ چونکہ اتنی طاقت اور حیثیت کے حامل نہیں ہیں کہ اپنا تشخص برقرار رکھ سکیں اس لئے ترکی اور عراق کا یہ ماننا تھا کہ اگر اس سرحدی علاقے پر کردستان نامی ریاست بن جاتی ہے تو یہ مغربی ممالک کے مستقل اڈے کی صورت اختیار کر جائے گی جو کہ دونوں ممالک کے لئے خطرے کی تلوار بن جائے گی جو ہمہ وقت ان کے سر پر لٹکتی رہا کرے گی، بہرحال یہ تو ایک معروضی مسئلہ تھا اصل عزائم اس تنظیم کے کچھ مختلف دکھائی دیتے ہیں۔

مغرب کے لئے اس خطۂ عرب میں واحد شے باعث دلچسپی ہے اور وہ ہے تیل کی بے بہا مقدار، ورنہ ٹھنڈے اور دلکش موسم کے دلدادہ اس صحرا نوردی میں کیونکر مصروف ہوا کرتے۔ یہ کھیل تب سے جاری ہے جب یہاں پر تیل کا پہلا کنواں دریافت ہوا تھا۔ سعودیہ تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے، اس کے بعد کویت، پھر قطر، عراق بھی بہت وافر مقدار میں تیل کی پیداوار میں اپنا حصہ ڈالتا ہے، لیبیا بھی تیل کی دولت سے مالامال ملک ہے جبکہ سب سے آخر میں متحدہ عرب امارات کا نمبر آتا ہے۔ جنگِ خلیج یا گلف وار کا آغاز کیا ہی اس لئے گیا تھا کہ امریکہ اور برطانیہ و یورپ اپنے اپنے ممالک کے لئے تیل کی دولت سے مالامال ممالک پر اپنا اثر و رسوخ مزید بڑھا سکیں، ایک جانب برطانیہ نے کویت کو یقین دلایا کہ وہ عراق کو آنکھیں دکھائے تو دوسری طرف فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے صدام حسین مرحوم کو اکسایا کہ وہ کویت پر چڑھائی کر دے، پھر نتیجہ آپ کے سامنے ہے، تب سے لے کر اب تک کویت سے حاصل شدہ تیل پر برطانیہ کا قبضہ ہے، سعودیہ کے تیل کی ایک بڑی مقدار ایک زمانے تک امریکہ لے جائی جاتی رہی اور عراق پر یورپ اپنا ہاتھ صاف کر رہا ہے جس میں اب لیبیا کا بھی اضافہ ہو چکا ہے۔

القاعدہ ہو، ٹی ٹی پی ہوِ، ISIS ہو یا کوئی اور انتہا پسند تنظیم ان سب کا مقصد اسلامی ریاستوں میں ریاست کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہے۔ آپ دیکھ لیں تاریخ گواہ ہے کہ جس بھی مسلم ملک میں مغرب نے پیش قدمی کی پہلے وہاں پر القائدہ کا یا کسی دوسرے مسلح مسلم جنگجو گروپ کا ہوا کھڑا کیا گیا، کبھی بہانہ ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کا رکھا گیا تو کبھی آمرانہ طرز حکمرانی کا ، کبھی ٹی ٹی پی کا بامیان میں بدھا کا مجسمہ پاش پاش کرنا وجہِ عناد بنی تو کبھی مغربی مفادات کا تحفظ اس قدر اہم ہو گیا کہ مسلم ریاستوں کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے گئے اور ان کا شیرازہ بکھیر دیا گیا، اب جو یہ نئی تنیظم مارکیٹ میں متعارف کروائی گئی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ سعودی عرب کو کئی مسلم ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے تا کہ سعودیہ کا اثر و رسوخ عرب خطے میں بہت ہی محدود کر دیا جائے، عراق کے حصے بخرے ہونے کا وقت آ چکا ہے، یمن وغیرہ غیر اہم ملک ہیں، قطر، بحرین اور کویت ویسے ہی بہت چھوٹے اور بے ضرر ممالک ہیں، شام کا انجام بھی قریب دکھائی دیتا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کا نمبر بھی اس کھیل میں چھٹا یا ساتواں ہے۔ پاکستان میں پاکستانیوں کی خوش قسمتی کہہ لیں یا مغرب کی بدقسمتی کہ یہ کھیل کامیاب نہ ہو سکا اور ٹی ٹی پی یا القائدہ اپنی موت آپ مر گئی ورنہ یہاں پر بھی میڈ ان یورپ اور امریکہ خلافت کے حق میں نعرے مارنے والے بے ضمیر ملاؤں کی کمی نہیں تھی، لیکن اب عرب ممالک میں بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگا کر تمام پر امن ممالک کو عراق اور لیبیا بنانے کی عملی تیاری کر لی گئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ عرب اس صورتحال سے کیسے نمٹتے ہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ عربوں کی تمام تر فہم و فراست خلفائے راشدین کے بعد اور تابعین و تب تابعین کے بعد عورت کے چہرے سے شروع ہو کر اس کے گھٹنوں سے اوپر تک کے زیروبم تلاش کرنے تک محدود ہو کر رہ گئی۔

عرب عیاشیوں میں ڈوبتے چلے گئے اور آج یہ اس شباب و شراب کے اس قدر رسیا ہو چکے ہیں کہ ان کی رگوں میں الکوحل خون کے مساوی پائی جاتی ہے، اپنی زن پرستی میں وہ اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ ’’نکاح مسیار‘‘ کا قانون تک پاس کروا لیا گیا ہے، ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی عرب شیخ بمبئی ائیرپورٹ پر آ موجود ہوتا ہے جس کے پاس ہندو لڑکیاں شکنتلا، دیویا اور منداکنی وغیرہ کو شکیلہ، صائمہ اور ذکیہ وغیرہ بنا کر پیش کرنے والے ہندو و مسلم دلال لائن بنا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ باعث شرم بات یہ ہے کہ ان لڑکیوں کی عمریں چودہ برس سے سولہ برس کے درمیان ہوتی ہیں، جو لڑکی پسند آ جائے اس کا پاسپورٹ بنوا کر اس کا نکاح جناب شیخ صاحب کے ساتھ کر کے ان شیخ صاحب کے ساتھ روانہ کر دیا جاتا ہے جو دو چار ماہ دادِ عیش دینے کے بعد اس لڑکی کو طلاق دے کر واپس بھیج دیتے ہیں۔ جہاں پر شعائر اسلام کا مذاق یوں اڑایا جانے لگے وہاں پر اللہ کا عذاب نازل ہو کر رہتا ہے۔ اب بھی اگر عرب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پانچ وقت نماز پڑھ کر، ڈھیروں زکوٰۃ دے کر اللہ پر احسان کر رہے ہیں تو ان کو سمجھ لینا چاہئے کہ ان کا یوم حساب بہت قریب ہے۔ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے ظلم کا نہیں،،،،،،،
Md.ALi
About the Author: Md.ALiI m a simple and state forward person.. Prefer to leave this blank because i dont really know what to write but since it is required i would say that .. View More