قیام مکہ مکرمہ
عازمین حج کو شناخت کے لیے چھ قسم کے مختلف نشانات دیے گئے تھے۔ ایک تو
کراچی حج ٹرمینل سے گلے میں ڈالنے کے لیے شناختی ٹیگ ملا تھاجس میں پاسپورٹ
نمبر، نام، پیدائش کی تاریخ،خون کا گروپ نمبر،فلائٹ نمبر،تاریخ،وقت،مکتب
نمبر،بلڈنگ نمبر۔روم نمبر اور علاقہ عزیزیہ درج تھا۔ شناختی ٹیگ پر یہ بھی
لکھا ہے کہ راستہ بھولنے،افراد یا سامان کی گمشدگی،کسی بھی شکایت یا دیگر
مدد کے لیے مکتب اُمور حجاج پاکستان کے کسی بھی دفتر سے یا فون پر رابطہ
کیا جا سکتا ہے۔ اس پرپتہ اور فون نمبر بھی موجود ہیں۔اس پر کراچی سے جدہ
اور مکہ مکرمہ کے سفر کا طریقہ موجود ہے اس کے مطابق اگر سفر میں ردوبدل
کیا ہے توکرایہ واپس لیا جا سکتا ہے لیکن صرف جدہ میں ہی یہ عمل ہو گا واپس
پاکستان میں ممکن نہیں۔
جن مدات میں عازمین حج کو رقم واپس کی گئی ہے اس شناختی ٹیگ تفصیل بھی
موجود ہے۔مکہ میں رہائش گاہ پرمعلم جمال عثمان سیلمان خان کی طرف سے مختلف
کارڈ اور ٹیگ ملے تھے۔ ایک اور شناختی ٹیگ ملا جو منیٰ مزدلفہ اور عرفات
میں گلے میں لٹکانے کے لیے کہا گیا تھا اس پر بھی حجاج کا نام، ملک کا نام
اور دوسری تفصیلات درج تھیں۔مکہ میں معلم کی طرف سے بازومیں لگانے کے لیے
کڑا بھی دیا گیا تھا جس پر بلڈنگ نمبر،مکتب نمبر اور ضروری تفصیلات
تھیں۔منیٰ جانے سے پہلے ایک اور کڑا ہاتھ میں باندھنے کے لیے دیا گیا اور
کہا گیا کہ حج کے دوران ۷ دن تک ٹرین استعمال کرنے کا یہ ٹکٹ ہے اس کے بغیر
ٹرین میں سوار نہیں ہونے دیں گے لہٰذا آخر وقت تک اسے پہننا ضروری ہے۔منیٰ
کے لیے مکتب کا کارڈ بھی دیا گیا جس پر اے ۲۸ مکتب نمبر درج ہے ۔اس پر معلم
کی طرف سے حج مبارک لکھا ہوا ہے یہ منیٰ کے قیام کے دوران سنبھال کر رکھنا
ہے۔جن عازمین حج نے قربانی کے پیسے مسلم کمرشل بنک میں جمع کروائے تھے ان
کو ایک قربانی ہونے کی رسید بھی دی گئی ہے تاکہ قربانی ہونی کی تسلی ہو
جائے۔کچھ دن حرم کے راستے میں بھیک مانگنے والی خواتیں اور بچے بچیاں، جو
افریقی ممالک کی لگتیں تھیں روڈ کے درمیان میں قطار بنائے بیٹھیں تھیں جو
بعد میں نظر نہیں آئیں۔ لگتا ہے انتظامیہ نے انہیں راستے سے ہٹا دیا یا
بھیک مانگنے سے منع کر دیا ہے۔ منیٰ سے واپس آتے ہوئے عزیزیہ کے علاقے میں
جہاں پاکستان عازمین حج مقیم ہیں راستوں کے درمیاں ایسے ہی مانگنے والوں کی
قطاریں دیکھنے کو ملیں جن میں عورتیں اور بچے شامل تھے کچھ معزور بھی
تھے۔رنگ سے کالے نظر آنے کی وجہ سے گمان ہوتا ہے کہ یہ بھی افریقہ کے ممالک
کے لوگ ہیں جو مانگنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ان ہی راستوں پلاسٹک کی خالی بوتوں
سے روڈ بھر گئے تھے۔ گتے کی اشیا بھی روڈ پر بے انتہا پڑی ہوئی تھیں۔ جگہ
جگہ کوڑا پھینکنے کے لیے کوڑا دان کی جگہ بنائی گئی تھیں مگر حجاج کرام
راستوں میں ہی کوڑا کر کٹ ڈال دیتے رہے جس کی وجہ سے تعفن اُٹھ رہا تھا۔ جس
سے معزروں کی ویل چیئر وں کو چلانے میں دشواری ہو رہی تھی۔ خیردوسرے دن آنے
والے حجاج کرام نے بتایا کے سارے راستوں سے کچراٹھا دیا گیا ہے اور راستے
صاف کر دیے گئے ہیں۔اس طرح منیٰ میں کیمپوں کے باہر میں شاہروں پر جہاں
جہاں سے حجاج کرام کا گزر ہوتا ہے ایسی ہی صورت حال تھی وہاں بھی جگہ جگہ
کوڑا دان بنائے گئے تھے مگر حجاج کرام راستے میں ہی پلاسٹک کی بوتلیں
اوردیگر اشیا پھنکتے رہے جس کی وجہ سے دشواری ہو رہی تھی اگر کوڑا دان
استعمال کیے جاتے تو مشکلات کم ہو جاتیں۔ یقیناًوہاں بھی صفائی کر دی گئی
ہو گی۔ جب عرفات سے مرذلفہ جانے کے لیے ریلوے اسٹیشن جانے لگے تو راستے میں
پانی کھڑا ہوا تھا حجاج کرام کو بہت تکلیف ہوئی اپنے اپنے احرام بچانے کی
کوشش میں سب لگ گئے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی رش میں جو ہر وقت گزر رہی تھی
انتظامیہ پانی کو کیسے صاف کرتی۔ٹرین میں سوار ہونے کے لیے قیام سے ٹرین کے
پلیٹ فارم تک گھنٹوں گزرے مگر جب ٹرین میں سوار ہو گئے تو ۱۰ منٹ میں جمرات
تک ٹرین نے پہنچا دیا۔ پیدل سفر کرنے والوں کے لیے بڑی بڑی شاہرئیں موجود
ہیں جن پر چل کر لوگ منیٰ ، مزدلفہ اور جمرات سفر کر سکتے ہیں اور بہت سے
لوگ ان شاہروں کو استعمال بھی کرتے رہے۔منیٰ میں تو با لکل نئی قالینیں
بچھائی گئی تھیں۔ کیونکہ یہاں قیام بھی لمبا تھا مگر عرفات یہاں صرف شام تک
کاقیام تھا نسبتاً پرانی قالینیں بچھائی گئیں تھیں۔وہاں خیمے بھی بانس
درمیان میں لگا کر اُٹھائے گئے تھے۔ عرفات میں بھی اچھے انتظامات تھے۔آج کے
دور کا مکہ مکرمہ جس کی بہترین شاہ راہیں، ان پرجدید شاپنگ مالز، سڑکوں پر
روشنی کا جدید انتظام،کیش اینڈ کیری مارکیٹیں جن میں دنیا بھر کی اشیائے
صرف کی موجودگی، جگہ جگہ بنائی گئیں کشادہ اندڑپاسز اور فلائی اورز سائڈ
روڈز، فاصلہ کم کرنے کے لیے جگہ جگہ پربنائی گئی جدید سرنگیں،ٹریفک کا بہتر
ین ،نظام سڑکوں کے درمیان میں ہرے ہرے درختوں کی قطاریں، سڑکوں کے کنارے
قطار اندر قطارہری ہری باڑیں ،پیدل چلنے والوں کے لیے فٹ پاتھ اور جدید
سہولتیں، پہاڑوں کے اوپر اوردامن کاٹ کر بنائی گئیں بلند بالا عمارتیں،جدہ
سے پائپوں کے ذریعے سمندر کا پانی لا کر ڈسٹیلیشن پلانٹ کے ذریعے صاف کر کے
پینے کے قابل بنانا، پورے مکہ اور مدینہ میں بلبورڈز پر عورتوں کی تصویروں
کی نمائش نہ ہونا قابل تعریف ہے۔ ۔آج ۸ ؍ذالحجہ ہمارے سفرِ حج کا آخری اور
قیمتی مرحلہ شروع ہونے والا ہے۔ ہمارے معلم نے بتایا کہ عازمین حج آج منیٰ
جانے کے لیے نماز عشاء کے بعد احرام باندھ کر تیاررہیں اور نفل ادا کر لیں
کسی وقت بھی بس آ جائے گی۔ کہا گیا کہ مختصر سامان ساتھ لیں باقی سامان
اپنے کمروں میں ہی رہنے دیں۔ہم نے ایسا ہی کیا۔ ہمارے بیٹے نے مختصر سامان
ساتھ لیا۔ ہم اپنے گروپ کے ساتھ منیٰ جانے کے لیے بس پر سوار ہوگئے۔ہم
تقریباً ۲ بجے منیٰ پہنچ گئے۔ منیٰ میں خیموں کی بستی پر نظر پڑتے ہی اﷲ
یاد آگیا۔کس طرح خیموں کی بستی اﷲ کے مہمانوں کے لیے بنائی گئی۔سعودی حکومت
کے انتطامات دیکھ کر دل سے دُعا نکلی ۔۱۸ آدمیوں کے لیے ایک خیمہ بنایا گیا
ہے درمیان میں پارٹیشن ہے جسے اوپر اُٹھا کر دو خیموں کو ایک ہی خیمہ بنا
دیا گیا۔اسطرح اس میں ۳۶ آدمیوں کا ایک خیمہ بن گیا۔ جستی اینگلارن اور
پائیپوں کے فریم پر واٹر اور آگ فائر پروف چادر استعمال کی گئی ہے ا س خیمے
میں ایئر کولرز سے گرمی کو کنٹرول کیا گیا ہے ۔ایئر کولر کے بڑے ڈیک میں ہر
خیمے کی سمت دو دو ٹھنڈے ہوا دان لگے ہوئے ہیں جو ٹھنڈی ہوا پھینک رہے ہیں۔
ہمارا خیمہ سڑک کے کنارے ہے ۔خیمے سڑک سے اونچی جگہ پر بنائے گئے ہیں۔ ان
میں روڈ سے۲۰ سیڑیاں چڑھ کر پہنچنا ہوتاہے۔ ایک دن ہم مین شاہراہ کا نظارہ
کرنے لیے باہر گئے۔ہر طرف لوگ ہی لوگ ہیں جو سڑک پر بستر لگائے ہوئے
ہیں۔معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ غیر رجسٹرڈ مقامی عازمین حج ہیں جو سعودی
عرب اور دوسرے علاقوں کے ہیں۔ دوسرے دن پھر نظارہ کے لئے باہر گئے تو دیکھا
کہ ویسی بھیڑ نہیں ہے پتہ چلا شرتوں نے سڑک پر ٹریفک بحال کرنے کے لیے صاف
کرائی ہے۔ شاید یہ حضرات سڑک کی سائڈوں میں چلے گئے ہوں گے۔ خیمے کی چھت
میں روشن ؍ہوادان ہے۔ منیٰ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔زمین پر نئی قالینیں
پڑی ہیں۔ فوم کے بستر اور ایک عدد تکیہ اور اوڑھنے کے لیے چاریں موجود ہیں
جو آرام دہ ہیں۔ خیموں میں دودو دروازے ہیں۔خیموں میں پانی روکنے کے لیے
سیمنٹ کی مڈھیریں بنی ہوئی ہیں۴۰ قدم پر لیٹرینیں اور وضو خانے بنے ہوئے
ہیں۔ہماراخیمہ روڈ کے ساتھ ہی واقع ہے ۔ خیمے میں پہنچ کر فجر،ظہر، عصر،
عشاء اور ۹ ذالحجہ کی صبح کی نمازیں ادا کیں۔ بادلوں کی وجہ سے خیموں کے
باہر موسم خوشگوار ہو گیا ہے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں قریب میں بارش ہوئی ہو
گی۔ہمارا خیمہ ایک چھوٹے سے پہاڑ کے با لکل دامن میں ہے۔منیٰ میں خیموں کی
قطاریں دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے صوبہ پنجاب میں کھیتوں میں
دورد دور تک سرسوں اُگھی ہوئی ہے اور دور تک حد نگاہ تک پھول ہی پھول ہی
نظر آتے ہیں۔ خیموں کے اوپر کے حصے مسجد کے میناروں کی طرح لگتے ہیں۔آج رات
کھانے میں مرغ چاول ملے ہیں جو پلاؤ جیسے ہیں۔صبح ناشتے میں بسکٹ اور جوئس
کا ڈبہ ملا ہے۔ دیے گئے کوپن کے مطابق منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں دوپہر کا
کھانا نہیں ملے گا۔ گروپ کے ساتھیوں نے منیٰ کے قیام کے لیے بسکٹ اور فروٹ
لے لیا تھا تاکہ کھانے کی جگہ لائٹ غذا کھائی جائے۔ہمار ے خیموں نمبر اے ۲۸
کے قریب ہی باورچی خانہ ہے۔ جمرات سے منیٰ کے آخری حصے تک تین ریلوے اسٹیشن
ہیں۔جمرات کے پاس ریلوے اسٹیشن نمبر ۳،پل ملک عبدالعزیز کے پاس نمبر ۲ اور
پل ملک فیصل کے قریب نمبر ۱ ہے جو منیٰ کے آخری حصے پر ہے۔ ہمار اگروپ
رہائش سے، ریلوے اسٹیشن نمبرا، کے سامنے والے حصے میں، مکتب نمبر ۷۵ میں،
بس کے ذریعے پہنچ گئے ہیں۔ اس کے اندر ہمارا کیمپ نمبر اے ۲۸ ہے۔اسلامی
جمہوری پاکستان کے نقشے کے مطابق پاکستان کے مکاتب کو مکتب نمبر،رول
نمبرروڈنمبر،گرڈ نمبر،کے حساب سے پاکستانی مکاتب کو تقسیم کیا گیا ہے۔
پہچان کے لیے پول نمبر اور روڈ نمبر لکھے ہوئے ہیں۔
قارئین!نبی محترم حضرت محمد صلی اﷲ وسلم کے دور کا مکہ مکرمہ یاد آ
گیا۔موزانہ کر کے دل میں خیالات اُٹھے کہ کن کن مشکلات کے بعد مکہ کے لوگوں
کوآج یہ ترقی اور آرام کا دور نصیب ہو اہے ۔مشرکین مکہ کی طرف سے رسولؐاﷲ
کی مخالفت۔حضرت سمیہؓ کو ابو جہل کا برچھی مار کر شہید کرنا۔حضرت بلال ؓکو
تپتی ریت پر لیٹانا اور جسم پر بھاری پتھر رکھنا۔حضرت خبیب ؓ کو کوئلوں پر
لیٹانا اور دوسرے صحابہ ؓ کو اذیتیں دے کر انہیں حبشہ ہجرت پر مجبور کرنا۔
رسولؐاﷲ کے راستے میں کانٹے بیچھانا۔نماز میں سجدے کی حالت میں اونٹ کی
اوجھڑی ڈالنا۔
تین سال تک رسولؐ اﷲ کا سوشل بائیکاٹ کرنا۔اور طرح طرح سے رسولؐاﷲ
کوتکلیفیں دینا۔ یہ سب کچھ نبی محترم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے امت کے
لیے برداشت کیا ۔عازمین حج کی دعائیں ہیں کہ اﷲ انہیں مقام محمود پر فائز
کر ے آمین۔(باقی آیندہ) |