آئے دن اخبارات میں کسی نی کسی کے دیوالیہ ہونے یا
دیوالیہ نکل جانے کی خبریں آتی ہیں۔ دیوالیہ ہونے کے اعداد و شمار ساری
دنیا میں بڑھتے جارہے ہیں گزشتہ چند دہائیوں میں ایسے لوگوں کی تعداد میں
بہت اضافہ ہوا ہے جو اپنے قرضہ جات ادا کرنے کے قابل نہیں رہے۔جبکہ قانون
سازی کرنے والے افراد ایسے قوانین بنانے پر توجہ دے رہے ہیں جو لوگوں کے
لئے خود کو دیوالیہ ثابت کرنا مشکل کردے۔ دیوالیہ ہونے والوں میں کمزور
معیشت کے کاروباری حضرات ہی نہیں دینا کی بڑی بڑی مستحکم سلطنیتیں بھی شامل
ہیں۔ مالیاتی اداروں کی تو بات ہی چھوڑ دیں ۔ یہ دیوالیہ پن اسکینڈل بھی
ہوتا ہے اور دیوالیہ ہونے کا ڈھونگ بھی رچایا جاتا ہے۔ گزشتہ سال امریکہ
میں مالی بجٹ کی عدم منظوری کی وجہ سے امریکی حکومت اور کانگریس میں جو
تنازعہ شروع ہوا تو امریکی معیشت پر تباہ کن اثرات اور اس کے دیوالیہ ہونے
کی پیشن گوئیاں کی جانے لگیں۔ضروری قانون سازیاں نہ ہونے کے باعث نہ صرف
معیشت کو 30 کروڑ ڈالر یومیہ کا نقصان ہورہا تھا ۔ بلکہ امریکی حکومت کے
ڈیفالٹ کرجانے کا بھی خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔ پڑ رہا ہے۔یونان کی بیمار معیشت
کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے۔یونان کے قرضوں کے ڈھانچے میں تبدیلی بارے
سمجھوتہ کئے جانے کے باوجود اس ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ دور نہیں ہوا۔
مالیاتی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کے مطابق اگرچہ یونان کے 107 ارب یورو کا قرض
معاف کیا جا چکا ہے پھر بھی خدشہ ہے کہ یونان کا قرضوں کا بحران طویل عرصہ
جاری رہے گا۔ہمارے بڑے بڑے ادارے بھی دیوالیہ ہوچکے ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز
تو کئی بار دیو الیہ ہونے کے قریب پہنچکر بچ جاتی ہے۔ پنجاب بنک نے دیوالیہ
ہوکر کتنوں کو ارب پتی بنادیا۔2008 میں امریکہ پر سرمایہ کاری بنکوں پر کیا
گزری ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال امریکہ کے پانچ
بڑے انویسٹمنٹ بنک کا دیوالیہ نکل گیا تھا۔ دیوالیہ ہونے والاانسان کوڑی
کوڑی کا محتاج ہوجاتا ہے اور خود کو قانونی طور پر دیوالیہ قرار دلواکر
واجب الادا قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنا پڑتا ہے۔ نوکری کا چھوٹ جانا استعفیٰ،
برخاستگی یا برطرفی کسی بھی وجہ سے نوکری چھوٹ جانے کے اثرات براہ راست
ماہانہ انکم پر پڑتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں رہنے والوں کی ماہانہ آمدن
ملازمت چھوٹ جانے کی صورت میں صفر ہوجاتی ہے۔ مغربی ممالک میں نجی شعبہ میں
بھی ملازمتوں کے حوالے سے قوانین پر عمل کیا جاتا ہے اور کسی کو برطرف کرنے
سے قبل اسے نوٹس دیا جاتا ہے، کہ وہ اپنے لئے کسی اور ملازمت کا بندوبست
کرلے۔ مزید یہ کہ حکومت کی جانب سے بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں بے روزگاری
الاونس بھی دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان جیسے ملک میں نجی شعبہ کے غیر مستحکم
اور چھوٹے اداروں میں کسی بھی فرد کو بغیر کسی نوٹس کے فارغ کردیا جاتا ہے
، ایسے ادارے اپنے آپ کو قانونی طور پر دیوالیہ قرار دلا لیتے ہیں۔ بے
روزگاری الاونس کا تو ترقی پذیر ممالک میں تصور تک نہیں ہے۔ حد سے زیادہ
قرضوں سے استفادہ بہت سے لوگوں کا اپنے اخراجات پر قابو نہیں رہتا ہے۔ ان
کی خواہشات ہوتی ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہیں جبکہ آمدن کے ذرائع
محدود ہوتے ہیں ، فری مارکیٹ اکنامی کے رائج ہونے کے بعد سے مالیاتی شعبہ
میں مسابقت بہت بڑھ گئی ہے۔ بہت سے مالیاتی ادارے انتہائی آسان شرائط پر
قرضے فراہم کرتے ہیں جو زیادہ اخراجات کے شوقین لوگوں کے لئے کسی نعمت سے
کم نہیں ہوتے۔ حصول میں آسان ہونے کے باعث شاہ خرچ لوگ آسان شرائط پر اتنے
قرض حاصل کرلیتے ہیں کہ کچھ عرصے بعد انہیں پتہ چلتا ہے۔ آدھی سے زیادہ
آمدن تو سود کی ادائیگی میں چلی جاتی ہے جبکہ بعض قرضوں کا سود ادا نہ کرنے
پر سود بھی قرض کی اصل رقم میں شامل ہوتا رہتا ہے اور قرض بڑھتا جاتا ہے۔
اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ ایسے افراد کی آمدن کا ایک بڑا حصہ قرضوں کے
سود ادا کرنے میں خرچ ہوتا ہے جبکہ ان کے حقیقی اخراجات پورے کرنے کے لئے
ان کے پاس آمدن کی قلت ہوجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے چار و ناچار وہ بہت سے
قرضوں کا سود ادا کرنے سے کترانے لگتے ہیں اور روز مرہ کی ضروریات پوری
کرنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔نتیجتاً قرضوں کی ادائیگی کے لئے ان کی
جائیدادیں تک نیلام کردی جاتی ہیں اور بقیہ قرض ادا کرنے سے بچنے کے لئے
انہیں خود کو دیوالیہ قرار دلوانا پڑتا ہے۔ خاندانی تنازعات مغربی ممالک
میں ازدواجی رشتہ ختم کرنے کی بھی اچھی خاصی لاگت آتی ہے جس میں معاہدے کے
مطابق اپنے سابقہ ہمسفر کو ایک خطیر رقم بطور ہرجانہ ادا کی جاتی ہے، جس کی
وجہ سے اس فریق کا دیوالیہ نکل جاتا ہے، اسی ایما پرعلیحدگی ہوتی ہے۔تاہم
ایشیائی ممالک میں ازدواجی رشتوں کے ختم ہونے پر تو اتنی لاگت نہیں آتی
تاہم خاندانی تنازعات خاص طور پرجائیداد کے تنازعوں اور مشترکہ جائیداد کے
حصے بخرے ہونے کی وجہ سے دیوالیہ ہونے کا امکان موجود رہتا ہے۔ خاص طور پر
خاندان کا ایسا فریق جس کے حصے میں کسی قانونی وجہ سے کم ورثہ آیا ہو وہ
خود کو دیوالیہ قرار دلوا کر اپنی مالیاتی ذمہ داریوں سے بر ی الذمہ ہونے
کی کوشش کرتا ہے۔ ناگہانی اخراجات کسی ناگہانی آفت مثلاً زلزلے، سیلاب یا
طوفان کی وجہ سے جائیداد یا کاروبار کو ناقابل تلافی نقصان کی وجہ سے کوئی
بھی فرد دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر جب کسی کا کاروبار یا جائیداد
ناگہانی آفات کے حوالے سے بیمہ شدہ نہ ہو، تو پورے کا پورا نقصان صاحب
جائیداد یا کاروبار کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے، جس کے نتیجے میں
دیوالیہ ہوجانا فطری امر ہے اور عدالت بھی ضروری کاغذی کارروائی اور شواہد
کی پڑتال کے بعد ایسے افراد کو دیوالیہ قرار دے دیتی ہے۔ لب لباب ٹیکس کی
ادائیگی سے بچنے یا چھوٹ حاصل کرنے کے لئے خود کو دیوالیہ قرار دلوانے کی
بہت سی وجوہات ہیں۔ تاہم دانشمندی، مالیاتی منصوبہ بندی اور مستقبل کے
حوالے سے تیاری کے ذریعے دیوالیہ پن سے بچا جاسکتا ہے۔ ایسے افراد جو بہت
زیادہ نقصانات اٹھانے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دیوالیہ پن کی دہلیز پر
آچکے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ خود کو دیوالیہ قرار دلوانے کے لئے کسی بہتر
مالیاتی و قانونی مشیر کی خدمات حاصل کرکے اس جانب کوئی قدم اٹھائیں۔ اپنے
طرز زندگی میں تبدیلی لائیں، بے جا قرض اور فضول خرچی سے بچیں۔حکومتیں اور
بڑے ادارے بھی اگر کفایت شعاری سے کام لیں تو انھیں بھی دیوالیہ پن سے نجات
مل سکتی ہے۔ |