جامع مسجد دہلی کے امام صاحب پر حملہ اور بردوان کا بم
دھماکہ
ہریانہ میں ہیرالال کھٹر کی سربراہی میں نئی بھاجپا سرکار آگئی ہے۔ حلف
برداری کے فوراً بعد وزیراعلا سمیت کئی وزراء نے جو بیانات دئے ہیں ان سے
ظاہر ہوتا ہے سرکار کے ایجنڈے میں سرفہرست سابق حکومت کے اہل کاروں اور ان
کی پارٹی کانگریس کو نشانہ پرلینا ہے۔ اگرنئی سرکار کرپشن کے بارے میں
واقعی فکرمند ہے تو اس کو گڑے مردے اکھاڑنے کے بجائے آگے کی فکر کرنی چاہئے۔
مختلف وجوہ سے عام طور سے پورے ملک میں اور خاص طور سے ہریانہ میں کرپٹ
طریقوں کو سماجی منظوری ملی ہوئی ہے۔جس کا ایک ثبوت حالیہ اسمبلی الیکشن
میں ملا۔ اگر بدعنوانی رائے دہندگان کی نظروں میں کوئی عیب ہوتی تو چوٹالہ
، جو کرپشن کے معاملے میں دس سال کی سزا کاٹ رہے ہیں، ایک بھی سیٹ نہ ملتی۔
مہاراشٹرا میں بھی ایک رپورٹ کے مطابق بھاجپا کے 61فیصد ممبران(122میں سے
74) کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔رشوت دیکر اپنا کام نکال لینا اور رشوت کی دولت
سے حویلیاں کھڑی کرلینا اکثرلوگوں کے ضمیر پر بوجھ نہیں بنتا۔
کرپشن صرف حکمرانی میں قانون کی اندیکھی کا ہی نام نہیں بلکہ دھاندلی،
زورزبردستی اوربے ایمانی سے دولت حاصل کرنا اور دوسروں کو ان کے حق سے
محروم کر دینا بھی کرپشن ہے۔ رہی بدلے کی سیاست تواس کا انجام ہم 1977کے
بعد مرکز میں قائم ہونے والی جنتاسرکار میں دیکھ سکتے ہیں۔ مبصرین اس رائے
پر متفق ہیں کہ اگراس وقت کے وزیرداخلہ چودھری چرن سنگھ نے شاہ کمیشن قائم
کرکے اندراگاندھی کا پیچھا نہ گھیرا ہوتا تو مرارجی دیسائی کی سرکار یوں
تاش کے پتوں کی طرح نہ بکھر جاتی۔
سابق بھوپندرسنگھ ہڈا سرکار کے خلاف انتقامی مہم شروع کرنے سے پہلے مسٹر
کھٹر کو یہ بھی سمجھ لینا ہوتا کہ ان کی سرکار بہت مضبوط نہیں ہے اور ریاست
کی سیات پر ان کی گرفت بھی مختلف وجوہ سے مضبوط نہیں ہوسکتی۔ اہم وجہ یہ ہے
مسٹر گھٹر ہندی نہیں بلکہ پنجابی ہندو ہیں۔ تقسیم ملک کے وقت سرحد پار سے
آکر دیگر ریاستوں میں بس جانے والے شرنارتھی تواب عام طور سے مقامی ہندوؤں
میں گھل مل گئے ہیں ، مگر ہریانہ میں پنجابی ہندوؤں کی الگ شناخت برقرار ہے
۔اس کی سیاسی وجہ خود ہریانہ کا وجود ہے۔ یکم نومبر1966تک ہریانہ پنجاب کا
ہی حصہ تھا جس کے بڑے خطے کی عوامی زبان پنجابی تھی۔لیکن جس حصہ میں اب
ہریانہ ہے، اس کی بولی ہریانوی ہے جس کو اب ہندی کہا جانے لگا ہے۔ ریاست کی
یہ تقسیم دراصل پنجابی اور ہریانوی تنازعہ کا ہی نتیجہ ہے۔ کھٹَّر کے وزیر
اعلا نامزد ہوتے ہی سوال یہ اٹھایا جانے لگا ہے کہ اگر پنجاب میں کوئی ہندو
وزیراعلا نہیں ہوسکتا ،جب کہ اس کی آبادی میں47 فیصد ہندو ہیں تو ہریانہ
میں پنجابی وزیراعلا کو کیسے برداشت کرلیا جائیگا جب کہ ان کی آبادی صرف 8
فیصد ہے؟
اگرچہ مسٹرکھٹر آرایس ایس کے تفریقی نظریہ میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ان سے
قومی ہم آہنگی جیسے معاملات میں خیر کی امید نہیں، مگریہ اعتراف کرنا ہوگا
کہ ذاتی طور سے ان میں کئی خوبیاں ہیں۔ وہ سادگی پسند ہیں، ان کے دامن پر
جنسی یا مالی کرپشن کے داغ دھبے نظر نہیں آتے۔ وہ صاف گو بھی ہیں۔ مگر
سرکار چلانے کے لئے یہ خوبیاں کافی نہیں ۔ ایک ضلع کا ایڈمنسٹریشن چلانے کے
لئے جس افسر کا تقرر کیا جاتا ہے اس کویو پی ایس سی کے کڑے امتحانوں سے
گزرنا ہوتا ہے ۔ پھر کئی سال کی تربیت اور تجربہ کے بعد ضلع کی کمان سونپی
جاتی ہے۔ ہریانہ کی بدقسمتی یہ ہے اس کی کمان جس شخص کے حوالے کی گئی ہے اس
کو سرکاری انتظامیہ کا ایک دن کا بھی تجربہ نہیں۔ وہ پہلی مرتبہ اسمبلی کے
لئے چنے گئے اور اس لئے وزیراعلا بنادئے گئے کہ وہ سنگھ کے پرچارک رہے
اوروزیراعظم کی پسند ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس نئے رول میں وہ دوسرے
مودی ثابت ہوتے ہیں، یا نتیانند سوامی بن جائیں گے ۔اتراکھنڈ کی تشکیل کے
بعد بھاجپا قیادت نے مسٹرسوامی کوپہلا وزیراعلا مقرر کیا تھا۔ وہ بھی سیوم
سیوک تھے، شبیہ ان کی بھی صاف ستھری تھی ۔ مگر چند ماہ بعد جب اسمبلی چناؤ
ہوئے تو پارٹی ہارگئی ۔ان کی عدم مقبولیت کی اہم وجہ یہ تھی کہ ان کی جنم
بھومی ریاست سے باہرنرنول( ہریانہ) تھی۔ ناتجربہ کاری کی وجہ سے وہ اپنے
کام سے بھی عوام کو مطمئن نہیں کرسکے ۔ ہریانہ کے نئے وزیراعلا بھی ریاست
سے باہر کے آدمی ہیں اور انتظامیہ کاتجربہ نہیں رکھتے۔چنانچہ دوسرے سوامی
ثابت ہوسکتے ہیں۔بھگوا جواہرکٹ پہن کرہرکوئی مودی نہیں بن سکتا۔ پارٹی کی
اسمبلی میں اکثریت بھی صرف دو کی ہے، اس لئے وہ ممبران جو حال ہی میں
اقتدار کا رس چوسنے کیلئے پارٹی میں شامل ہوئے ہیں،وزیراعلا کو اصولوں کی
سیاست نہیں کرنے دیں گے۔ سوامی کے خلاف فضاسازی کا الزام پارٹی لیڈر
کوشیاری پر لگایا جاتا تھا، ہریانہ بھاجپا میں بھی کئی کوشیاری موجود ہیں۔
معروف صحافی جناب حفیظ نعمانی نے اپنے تازہ کالم میں مسٹرکھٹر کے ایک بیان
کا حوالہ دیا ہے جس میں خواتین میں نیم عریانیت کے چلن پر ناپسندیدگی کا
اظہار کیا گیا ہے۔ نئی نسل میں جامہ پوشی کی شائستہ روایات سے بغاوت پران
کا اظہار تاسف بجا ہے۔شہروں میں ہی نہیں، دیہات میں بھی نیم عریاں اورجسم
سے چپکا ہوا لباس عام ہوگیا ہے جس سے منچلوں کو شوخی سوجھتی ہے۔ اس معاملے
میں ہریانہ کی صورتحال کم سنگین نہیں۔ میڈیا میں سیکس کرائم پر شور تو بہت
مچتا ہے مگرجب کوئی اس کی ترغیبات پر گرفت کرتا ہے ،تو اس کا پیچھا گھیرلیا
جاتا ہے۔نوجوا ن نسل میں محنت سے کام کرنے اور تعلیم پر توجہ دینے کے بجائے
خود نمائی کی وبا بڑھتی جاتی ہے، جس کا مشاہدہ فیزبک پربخوبی ہوتا ہے۔ دولت
کی افراط نے بھی خرابیاں پیدا کی ہیں۔ہریانہ میں شراب پانی کی طرح پی جارہی
ہے۔ کسی قوم کی تباہی کے لئے نوجوان نسل کی سہل پسندی ، سفلہ پن اور نشہ
خوری کی عادتیں کافی ہیں۔ اگر مسٹرکھٹر ان برائیوں کی اصلاح کے لئے کوئی
موثر کام کرسکے تو بڑی بات ہوگی۔ اسکولوں کی طرح کالجوں اوردفتروں میں بھی
بہو بیٹیوں کو سادہ لباس پہن کر آنے کی ترغیب دی جانی چاہئے ۔سماج سدھارکی
مہم ویسے ہی چلائی جائے جیسے صفائی کے لئے چلائی جارہی ہے۔ ا ب مرکز سے
ریاست تک آرایس ایس کا بول بالا ہے۔ وزیراعظم، ریاست کے وزیراعلا اور گورنر
تینوں پرچارک رہ چکے ہیں۔ وہ اگر سماج میں توہمات، فضولیات اور افتراق کے
بجائے مادی ترقی پر توجہ کے ساتھ عریانیت و کرپشن کی ذہنیت پر لگام لگانے
کی تدابیر کرتے ہیں تواپنے وطن کی شائستہ قدروں کی قدرکرنے والے ہرفردکو اس
کی تائید کرنی چاہئے۔ یہ سب کے بھلے کی بات ہوگی۔
امام صاحب پر حملہ
کسی بھی مسجد کے امام پر حملہ ہوتا ہے تویقینا یہ تشویش کی بات ہے۔ اب
اگرحملہ شاہی جامع مسجد دہلی کے امام پر ہو اوروہ بھی نماز کی حالت میں تو
یہ انتہائی سنگین واقعہ ہے ۔ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ 26؍
اکتوبر کو جب جناب سیداحمد بخاری مغرب کی نماز پڑھارہے تھے، ایک بدبخت آٹھ،
دس صفیں پھلانگ کر آگے آیا اور محترم اما م صاحب پرمٹی کا تیل انڈیل کر
لائٹر نکال لیا اورآگ لگانے کی کوشش کی لیکن سیکیورٹی اسٹاف نے حملہ آور کو
بروقت دبوچ لیا۔اس طرح ایک بڑا سانحہ ٹل گیا۔ شکر الحمدلﷲ۔
اہم بات یہ ہے کہ امام صاحب نے سکون کے ساتھ نماز پوری کی ورنہ مسجد میں
شدید افترتفری مچ جاتی۔حملہ آور ، ضلع 24پرگنہ کا ایک مسلمان ہی ہے۔ اگر وہ
اپنے ناپاک ارادے میں کامیاب ہوجاتا تو بڑا ہی غضب ہوجاتا۔ دہلی کی جامع
مسجد کو ملک کی تمام مساجد میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔ سیاسی ومسلکی اختلاف
اپنی جگہ مگر اس سے امام جامع مسجد دہلی کی مرکزی حیثیت متغیرنہیں ہوتی۔
حکومت نے اس واقعہ کا فوری طور سے نوٹس لیا۔ پولیس کے اعلاافسران اطلاع
ملتے ہی پہنچ گئے اور مرکزی وزیرداخلہ نے بھی دومرتبہ امام صاحب کوفون کرکے
اپنی فکرمندی کا اظہار کیا، عافیت دریافت کی اور واقعہ کی مذمت کی ۔ معلوم
ہوا ہے کہ اس کے بعد سیکیورٹی بڑھادی گئی ہے۔
اس کے دوسرے دن ہی ان کے چھوٹے بھائی سیدطارق بخاری پر ایک شخص نے اس وقت
وار کیا اور جب وہ مسجد کے شمالی دروازے پر اخبانویسوں سے بات کررہے تھے۔
لیکن اطمینان کی بات یہ ہے ان کو بھی کوئی گزند نہیں پہنچی۔طارق بخاری کئی
مواقع پر اسرائیل کی سفاکیوں کے خلاف عوامی مظاہروں کی قیادت کرچکے ہیں
اورنہایت شائستہ مزاج انسان ہیں۔سماجی کاموں میں بھی شریک رہتے ہیں۔ ہم ان
دونوں واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ یوں تو معاشرے میں تشدد پسند ہردور میں
ہوئے ہیں، لیکن دورحاضر میں اس وبا میں جواضافہ ہورہا ہے وہ تشویشناک ہے۔
اس کے محرکات پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔
بردوان کا دھماکہ
بردوان (مغربی بنگال) اوراس کے قرب وجوار میں چوری چھپے بم سازی کا جرم
سنگین نوعیت اختیارکرگیا ہے۔ پوری ریاست میں 2013 میں 9ہزار کے قریب دیسی
بم ضبط ہوئے تھے، جن میں سے 7ہزارضلع بردوان ، بیربھوم اور مرشدآبادسے ضبط
کئے گئے۔ اسی مدت میں 2,285کلوگرام دھماکہ خیز مادہ ضبط ہوا، جس میں
1701کلو ضلع بردوان سے ضبط کیا گیا۔2؍اکتوبر کو بردوان کے ایک گاؤں کھاگرہ
گڑھ کے ایک مکان میں بم سازی کے دوران دھماکہ ہوا جس میں ایک شخص شکیل غازی
موقع پر ہی ہلاک ہوگیا جب کہ اس کا ساتھی سوپن عرف شوبھن منڈل شدید زخمی
ہوا۔ منڈل نے علاج کرانے سے انکار کردیا اوراسپتال میں دم توڑ دیا ۔ ایک
دوسرا زخمی عبدالحکیم پولیس کی حراست میں ہے۔ پولیس نے اس غازی کی بیوہ
رضیہ بی بی اور ایک دوسری عورت امینہ بی بی کو گرفتارکرلیا ۔ وہ اس حادثہ
کے وقت دوسرے کمرے میں تھیں۔ اس کے بعد تلاشی میں ایک دوسری جگہ سے بھی بڑی
تعداد میں دیسی بم برامد ہوئے۔
ظاہر ہے کہ غیرقانونی بم سازی ایک سنگین مجرمانہ سرگرمی ہے، جس سے علاقہ کی
پولیس بے خبر نہیں ہوگی۔ ایسے جرائم پیشہ یہ کہاں دیکھتے ہیں کہ ان کا مال
خریدنے والا کون ہے اور کس مقصد سے خرید رہا ہے۔گمان یہ ہے کہ یہ غیرقانونی
بم سازی بنگلہ دیش کے خریداروں کے لئے ہورہی تھی اور ان کا استعمال حسینہ
واجد کی سرکار کے خلاف ہوتا، جنہوں نے جمہوری عمل کو مفلوج کردیاہے۔ اس
واقعہ پر میڈیا نے اور ممتا بنرجی کی پولیس نے ایسا ماحول بنادیا گویا یہ
ریاست کے اقلیتی فرقہ کی دہشت گردانہ سرگرمی ہو۔حد یہ ہے اس واقعہ میں ہلاک
غازی کے شریک جرم سوپن منڈل کا ذکر تک نہیں ہورہا ہے۔ بہرحال این آئی اے
اور دیگر ایجنسیاں اس معاملہ کی گہرائی سے جانچ کررہی ہیں، اور ابھی تک
ایسا کوئی سراغ نہیں ملا کہ اس جرم میں ملوث افراد کا کوئی براہ راست تعلق
کسی دہشت گرد گروہ سے ہو یا کوئی مدرسہ اس میں ملوث ہو۔ تاہم ریاستی حکومت
نے تمام مدارس کی اسکریننگ کا حکم دیدیا ہے، جس کی وجہ سے اقلیتی فرقہ میں
اندیشے پیداہونا فطری ہے۔ جانچ پڑتال میں اگر صرف جرائم پیشہ ہی گرفت میں
آئیں تو کوئی مضائقہ نہیں چاہے ان کا تعلق چاہے کسی بھی فرقہ سے ہو۔ لیکن
عموماً بے گناہ بھی لپیٹ لئے جاتے ہیں۔ امید کرنی چاہئے کہ ممتا بنرجی کے
دوراقتدار میں اس ظلم کا اعادہ نہیں ہوگا۔(ختم) |