سر سید احمد خان کی ولادت 17؍اکتوبر1817ء کو دہلی میں
ہوئی۔حضرت شاہ غلام علی نقش بندی مجددی دہلوی نے ’’احمد‘‘نام رکھا اور بڑے
ہونے کے بعد مکتب بھی پڑھایا۔سر سید کی ابتدائی تعلیم وتربیت خالص مذہبی
اور روحانی ماحول میں ہوئی،کیوں کہ ان کے والد اور دیگر افراد خانہ کو دہلی
کے دو اہم علمی وروحانی مراکز خانقاہ نقش بندیہ اور خانوادۂ شاہ عبدالعزیز
محدث دہلوی سے گہری عقیدت اور والہانہ تعلق تھا۔
سر سید کی نمایاں سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی دو حیثیتیں متعین کی جاسکتی ہیں۔
(۱)ایک تعلیمی معمار کی
(۲)دوسری مذہبی مصلح کی
اپنی پہلی حیثیت میں سر سید نے تعلیم کے ذریعے مسلمانوں کی معاشرتی اور
معاشی ترقی کے لیے متحدہ ہندوستان میں تحریک چلائی،اسے تاریخ میں ’’علی گڑھ
تحریک‘‘ کے نام سے جانا جاتاہے،جو مدرسۃ العلوم (علی گڑھ مسلم یونی
ورسٹی)کی شکل میں بارآور ہوئی۔معرکۂ ستاون کے بعد مسلمانوں کی
تعلیمی،معاشرتی اور معاشی بدحالی پر اس تحریک نے جس طرح قابو پایاہے،اس کا
اعتراف بلا تفریق مذہب وملت سب کو ہے۔
سرسید کی دوسری حیثیت مذہبی مصلح کی ہے۔اپنی اس حیثیت میں انہوں نے
مسلمانوں کی مذہبی اصلاحات کا آغازکیا اور مذہبی خیالات کے زیر اثر جو
تعلیمی ، معاشی اور معاشرتی حد بندیاں مسلمانوں نے مقرر کی تھیں،انھیں ختم
کرنے کی کوشش کی،نیز عیسائی حکمراں اور مستشرقین اسلام کے جن اصولوں پر
معترض تھے،ان کی توجیہہ وتشریح عقل وسائنس کے ذریعے کرنے کی بنا ڈالی۔جو ان
کے مقاصد کی تکمیل میں مانع تھا،یہاں تک کہ ہندوستان میں اس طرح کے خلاف
جمہور عقیدوں پر مشتمل ایک ایسا فرقہ ظہور میں آگیاجو اعتزال کی ایک نئی
شکل تھی،جو بلا شبہ تعقل پسندی اور نیچرل سائنس پر استوار تھا جسے ’’فرقۂ
نیچریہ ‘‘ سے تعبیر کیاگیا۔در اصل سرسید کا یہی فعل ان کی ذات سے شروع ہوکر
ان کی تعلیمی تحریک کی مخالفت کا سامان بن گیا۔
اس اعتراض کو سمجھنے کے لیے سر سید کے مذہبی عقائد وافکار کوجاننا ضروری
ہے،جس سے مسئلے کی سنگینی اور علما کے مخالفانہ رویے کی صحت اور جواز کا
اندازہ ہوسکے گا۔سرسید کے چند مذہبی عقائد بطور منشے نمونہ از خروارے حسب
ذیل ہیں:
(۱) ملائکہ اور فرشتوں کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔
(۲) نبی پر متعارف فرشتوں کے ذریعے وحی نہیں ہوتی،بلکہ خارجی طور پر وحی کا
سرے سے کوئی وجود نہیں۔
(۳) معراج اور شق صدر کے واقعات رؤیا کا فعل ہے۔
(۴) قرآن میں جن یا اجنہ کے الفاظ آئے ہیں،ان سے مراد پہاڑی اور صحرائی لوگ
ہیں،نہ کہ وہ وہمی مخلوق جو بھوت اور دیووغیرہ کے الفاظ سے مفہوم ہوتی ہے۔
(۵) جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر(کعبہ)میں
ایک ایسی متعدی برکت ہے،جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے
،یہ ان کی خام خیالی ہے۔کوئی چیز سوائے خداکے مقدس نہیں ہے۔
(۶)متحنقۂ اہل کتاب یعنی ایسے پرندے یا جانور جسے اہل کتاب نے گلا گھونٹ کر
ماراہو،اس کاکھانا مسلمانوں کو جائز ہے۔
(۷)حساب کتاب،میزان اور جنت ودوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں،ان سے متعلق
قرآن میں جو ارشادات ہیں وہ بطریق مجاز،استعارہ اور تمثیل کے ہیں۔
(۸) قرآن مجید کی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ حضرت عیسی بن باپ کے
پیداہوئے یا آسمان پر اٹھالیے گئے۔
(۹)اﷲ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کاکوئی خارق عادت نشان دکھاہی نہیں
سکتا۔کیوں کہ اگر ایساہواتو اس کی عظمت وقدرت وصنعت کو بٹالگے گا۔
سر سید کے یہ تمام عقائد ان کی تفسیر’’تفسیر القرآن‘‘سے ماخوذ ہیں،جس کے
بارے میں مولاناالطاف حسین حالیؔنے اپنے ایک مضمون ’’سر سید اور مذہب‘‘میں
لکھاہے جو مئی 1898ء میں علی گڑھ میگزین میں شائع ہوا:
’’بہت سے مقامات ان کی تفسیر میں ایسے موجودہیں،جن کو دیکھ کر تعجب ہوتاہے
کہ ایسے عالی دماغ شخص کو کیسے ایسی تاویلات باردہ پر اطمینان ہوگیا اور
کیوں کر ایسی فاش غلطیاں ان کے قلم سے سرزدہوئیں‘‘۔(حیات شبلی،ص:237)
’’حیات جاوید‘‘میں لکھتے ہیں:
’’ان کو اپنا مقصد پوراکرنے کے لیے مذہب کے متعلق صدہاباتیں جمہور کے خلاف
لکھنی پڑیں۔اور اپنی سمجھ اور علم اور عقل کے موافق قرآن کی تفسیر لکھنی
شروع کی‘‘۔
(حیات جاوید،حصہ دوم،ص:14-15)
مذہب کے تعلق سے سرسید کا یہی رویہ اور مذکورہ عقائد وافکار ملک گیر سطح پر
بحث کا موضوع بن گئے۔حالاں کہ مسلمانوں کی عمومی ترقی کے لیے سرسید کی
جدوجہد،جفا کشی اور جنون کو دیکھ کر ان کی نیت اور خلوص پر شک نہیں
ہوتا،تاہم محض خلوص کی نیت کی وجہ سے اسلام کے موروثی ڈھانچے کے انہدام کا
تماشا بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔عرب وعجم کے علما نے اسی خیال کے پیش نظر سر
سید کے مذہبی تفردات کے خلاف سخت تشویش کا مظاہرہ کیا،مضامین ورسائل
لکھے،فتوے صادر کیے اور ان میں ان کی تردید وتکفیر بھی کی،کیوں کہ سرسید کے
مذہبی افکار کے اثرات سے امت کا ایک بڑا طبقہ اسلام کے اصولی عقائد میں
جمہور کی روش سے ہٹ رہاتھا اور ضروریات دین کا منکرہورہاتھا۔
یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ سر سیّدسے علما کا اختلاف خالص مذہبی
بنیاد پر تھا۔یہ بات درست نہیں ہے کہ انگریزی تعلیم اور جدید علوم کی اشاعت
کی وجہ سے علما سرسید کی مخالفت کررہے تھے۔شیخ محمد اکرام نے اس نکتے کی
یوں وضاحت کی ہے:
’’اس بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی بہت عام ہے کہ علما نے سر سیّد کی مخالفت
اس وجہ سے کی کہ وہ مسلمانوں میں انگریزی تعلیم رائج کرنا چاہتے تھے۔ہم نے
سر سید کے موافق اور مخالفت تحریروں کا مطالعہ کیاہے۔ہماری رائے میں یہ
خیال غلط ہے اور علما اور اسلام کے ساتھ صریح بے انصافی ہے‘‘۔(موج
کوثر،ص90)
سر سیّد کی حیات اور تحریک کے نامور محقق ضیاء الدین لاہوری نے اسی خیال کا
اظہار کیاہے:
’’(سرسیّدکے خلاف)ان فتوؤں کے متلعق اکثر یہ بدگمانی پھیلائی جاتی ہے کہ
فتویٰ باز علما انگریزی پڑھناکفرجانتے تھے،جب کہ سر سیّد انگریزی تعلیم کے
زبردست حامی تھے،اس لیے انہوں (علما)نے سرسیّد کے خلاف فتوے جاری
کیے‘‘۔(سرسیّد اور ان کی تحریک،ص:16)
اس کے ساتھ یہ بات بھی صحیح ہے کہ سر سید کے مذہبی عقائد وافکار کی وجہ سے
ان کی ذات کے ساتھ ان کی تحریک کی مخالفت بھی کی گئی۔لیکن اس کی بنیاد بھی
سرسیّد کے مذہبی عقائد ہی تھے۔علما محسوس کرتے تھے کہ جس شخص کے عقائد
وافکار ایسے ہوں،اگر وہ ایک بڑاتعلیمی مرکز قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتاتو
لامحالہ انہی عقائد وافکار کی تعلیم واشاعت ہوگی۔انسانی فطرت اور مزاج کو
دیکھیں تو علما کے اس احساس اور خدشے کوغلط نہیں قرار دیاجاسکتا،کیوں کہ
عموماً جس فکرونظرکا انسان حامل ہوتاہے،اسی کی تبلیغ واشاعت بھی
کرتاہے۔(بحوالہ:سرسید کے مذہبی عقائد وافکار:ایک مطالعہ) |