کھو گئیں راہیں ۔ ۔ ۔ !
(Dr. Riaz Ahmed, Karachi)
ایک وقت تھا جب کسی کسی کے گھر
ٹی وی ہوا کرتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اکثر لوگ محلے میں دوسروں کے گھر ٹی وی دیکھا
کرتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شام پانچ بجے تلاوتِ کلامِ پاک اور دس بجے قومی ترانہ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ خبرنامہ کا وقت‘ کارٹون کا وقت‘ ہفتہ میں ایک دفعہ گیت مالا اور
دوسرے ہفتہ ایک اردو فلم‘ اسی طرح مقررہ ڈرامے اور انگریزی پروگرامز ۔ ۔ ۔
۔ ۔ گو کہ اس دور میں بہت خیال رکھا جاتا تھا ڈراموں میں میاں بیوی کا
کردار کرنے والے اداکار ایک دوسرے کو چھونا تو دور کی بات ایک ساتھ بستر پر
بیٹھے ہوئے بھی نہیں دکھائے جاتے تھے اور فلموں میں ہیرو درختوں سے لپٹ کر
ہی گزارا کیا کرتے تھے لیکن پھر بھی والدین اپنے بچوں کو بمشکل کارٹون اور
بچوں کے پروگرامز دیکھنے کی اجازت دیا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھر میں ٹی وی
ہونے کے باوجود بچوں کو اجازت نہیں ہوتی تھی کہ خود سے ٹی وی کھول کر جو
مرضی دیکھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دور میں پوری فیملی کا ساتھ بیٹھ کر فلم دیکھنا
ایک پریشان کن عمل ہوتا تھا جب گانا یا کوئی رومانوی منظر سامنے آ جائے تو
بڑے چھوٹوں اور چھوٹے بڑوں سے نظریں چراتے دیکھا کرتے تھے اور بعض بڑے کسی
بہانے کمرے سے نکل جایا کرتے تھے۔
.
وقت گزرتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قطرے گرتے رہے اور شرم و حیا میں سوراخ ہوتا گیا ۔
۔ ۔ ۔ ۔ آج ہمارے معاشرے کے لئے ٹی وی اور اسی طرح کے دوسرے ذرائع اطلاعات
فراہم کرنے والے اداروں سے سرمایہ داروں اور اغیار کا ہتھیار بن کر رہ گئے
ہیں۔ وہ نہ صرف ہماری جیبیں بلکہ ذہنوں کو بھی صاف کر رہے ہیں۔ قوم کی
معیشت ہی نہیں بلکہ کردار بھی تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لیکن اسلام کے ٹھیکے داروں اور قوم کے رہنماؤں کے لئے یہ لمحہء فکریہ نہیں۔
وہ اپنے مفادات میں اور قوم اپنی لاعلمی میں مست ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نئی نسل اس
ثقافتی یلغار کا شکار ہو کر کس حال کو پہنچ گئی ہے اس کی نہ کسی کو فکر ہے
اور نہ غم۔
.
کہتے ہیں کہ اگر جھوٹ کو تواتر سے بولا جائے اور اسے عام کیا جائے تو وہی
سچ لگنے لگتا ہے اور لوگ سچ کو ہی بھول جاتے ہیں۔ آج ٹی وی اور اسی طرح کے
دوسرے ذرائع اسی اصول کو اپناتے ہوئے عریانی کو اس تسلسل سے دکھا رہے ہیں
کہ آہستہ آہستہ یہ معاشرے کے لئے قابلِ قبول ہوتی جارہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس
معاشرہ میں جہاں باپ بھائیوں کے گھر آنے پر بہنیں اور بیٹیاں خود ہی اپنے
دوپٹے ٹھیک کر لیا کرتی تھیں اور اگر کوئی بھول چوک ہو جائے تو مائیں توجہ
دلایا کرتی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج اسی معاشرے کے گھروں سے لڑکیاں بے پردہ بنا
دوپٹہ کے نکلتی ہیں اور باپ بھائیوں کو گراں نہیں گزرتا۔
.
ٹانگیں اور باہیں
ننگی اور کھلی دیکھ کر
کھو گئیں راہیں |
|