پانچویں ون ینگ ورلڈ سمٹ میں سوشل اسٹارٹ اپ مقابلے میں
ایک پاکستانی نوجوان نے عام آدمی کی پہنچ تک شمسی توانائی کے ذرائع کی
رسائی کے لیے جو خیال پیش کیا اسے پہلے انعام کا حق دار قرار دیا گیا۔
ڈوئچے ویلے کے مطابق آئرلینڈ کے دارالحکومت ڈبلن میں ہونے والا یہ سوشل
اسٹارٹ اپ مقابلہ ایسے نوجوانوں کے درمیان ہوتا ہے، جو اپنے ملک میں اپنی
لیڈر شپ صلاحیت کی بنیاد پر با معنی سماجی اثرات مرتب کرنے والے کام کا
آغاز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقابلے میں مختلف ممالک سے نوجوانوں کا انتخاب کیا
جاتا ہے، جو ایک مکمل بزنس پلان پیش کرتے ہیں۔ ان میں سے چھ نوجوانوں کو
فائنل مرحلے کے لیے شارٹ لسٹ کیا جاتا ہے۔
|
|
پاکستان سے اس مقابلے میں پانچ دیگر نوجوانوں نے بھی شرکت کی تاہم توانائی
سے متعلق مسائل کے حل اور اس حل کا عوام تک پہنچانے کا جو خیال پاکستانی
نوجوان خضر عمران تجمل نے پیش کیا اسے نہ صرف خاصی پزیرائی ملی بلکہ اسے
پہلے انعام کا حق دار بھی قرار دیا گیا۔
خضر کے مطابق پاکستان میں قابلِ تجدید توانائی اور متبادل توانائی کے حوالے
سے کام تو کیا جا رہا ہے اور کئی مصنوعات مارکیٹ میں دستیاب ہیں تاہم اپنی
لاگت کے اعتبار سے وہ ہر ایک کی قوت خرید میں نہیں: ’’اگر مقامی طور پر
شمسی توانائی کے ذریعے فائدہ پہنچانے والی مصنوعات بنائی جائیں جو بے شک
اپنی کارکردگی کے اعتبار سے چین سے درآمد کی جانے والی مصنوعات کے مساوی نہ
ہوں لیکن ضرورت کے مطابق کام میں آئیں اور ان پر لاگت بھی اتنی کم آئے کہ
وہ سب کی قوت خرید میں ہوں، تو اس پر ضرور کام کرنا چاہیے۔‘‘
اس مقصد کے لیے خضر نے اپنے چند دوستوں کے ساتھ مل کر 'جان پاکستان' نام کی
ایک تنظیم تشکیل دی ہے، جو ملک میں توانائی کے مسئلے کے حل اور عوام تک اس
کا فائدہ پہنچانے کے لیے مختلف آئیڈیاز پر کام کر رہی ہے۔ اسی آرگنائزیشن
کے تحت انہوں نے گرین ہاؤس ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے سولر واٹر ہیٹر
کا خیال پیش کیا، جو اس آرگنائزیشن کی پہلی کاوش ہے۔
یہ گرین ہاؤس ٹیکنالوجی کیا ہے اور اسے واٹر ہیٹنگ کے لیے کس طرح استعمال
کیا جا سکتا ہے؟ اس کے بارے میں ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خضر
عمران نے بتایا، ’’گرین ہاؤس ایک گلاس کا گھر ہوتا ہے جو دن کے وقت روشنی
اور حرارت کو اندر داخل ہونے دیتا ہے جہاں پودے ان کو پورے دن خود میں جذب
کرتے رہتے ہیں۔ شام جب ہوتی ہے تو وہ پودے دن بھر حاصل ہونے والی اس حرارت
کو خارج کرتے ہیں تاہم وہ حرارت صرف گرین ہاؤس تک محدود رہتی ہے۔ تو جو ایک
اوسطاً درجہ حرارت ہوتا ہے اس گرین ہاؤس کا، وہ اتنا ہوتا ہے کہ اس کے باعث
پودے سردیوں میں بھی سرسبز رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہہ لیں کہ اگر باہر
درجہ حرارت منفی دس ڈگری ہے تو اس گرین ہاؤس کا درجہ حرارت تقریبا بیس یا
پچیس ڈگری تک ہوگا۔ ہم اسی طرح کی ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہے ہیں جس میں
ہم پانی کا ایک کنٹینر تیار کر رہے ہیں جو گرین ہاؤس کی طرح حرارت کو محفوظ
کر لے گا اور یہ ٹیکنالوجی استعمال ہو سکتی ہے، سردیوں میں پانی کو گرم
کرنے کے لیے۔‘‘
|
|
شمسی توانائی کا استعمال کرتے ہوئے پانی کو گرم کرنے کی یہ ٹیکنالوجی
مارکیٹ میں دستیاب دوسری ٹیکنالوجی سے بہتر ہے یا نہیں؟ اس کے جواب میں خضر
کا کہنا تھا، ’’اس کو بہتر کہنا اس وقت تھوڑا مشکل ہے کیوں کہ جو چینی
ٹیکنالوجی ہے وہ اس وقت 80 فیصد کارکردگی دے رہی ہے۔ اب یہ ٹیکنالوجی کتنی
کارکردگی دکھائے گی اس کے بارے میں ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ابھی ہمارا
سولر واٹر ہیٹر پروٹو ٹائپ ٹیسٹنگ میں جائے گا، جس کے بعد حتمی طور پر
بتایا جا سکتا ہے کہ کتنی کارکردگی دکھا رہا ہے۔ لیکن کم قیمت میں آپ کا
کام پورا ہو رہا ہے، یہ زیادہ اہم بات ہے۔‘‘
خضر کے مطابق اس پر تقریباً 26 ہزار لاگت آتی ہے جو صرف پانی گرم کرنے کے
لیے ہر کسی کی استطاعت میں نہیں۔ تاہم ان کی کوشش ہے کہ ان کے تیارکردہ
واٹر ہیٹر کو کم سے کم لاگت میں تیار کیا جائے تاکہ کم مالی استطاعت رکھنے
والے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں: ’’اس کی لاگت اس طرح سے کم کی گئی ہے کہ
جو چیزیں درکار ہیں وہ پہلے ہی ملک میں دستیاب ہیں مثال کے طور پر آپ کو ٹن
فوائل کی ضرورت ہے ریفلیکٹنگ پینل کے لیے یا تھرما پول کی ضرورت ہے تو یہ
سب پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہے۔ تو اگر آپ مقامی طور پر ملنے والے خام مال
کو استعمال کرتے ہیں اور اس سے آپ بے شک کم کارکردگی دکھانے والی چیز تیار
کر لیتے ہیں، جو ضرورت کے مطابق کام کرتی ہے، سستی بھی ہے اور آپ کا مقصد
بھی پورا ہو جاتا ہے تو کیوں نہیں۔ ہاں اگر ملک میں شمسی توانائی کے ذریعے
پانی گرم کرنے کا خیال فروغ پاتا ہے اور اس کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور
مستقبل میں کوئی اس منصوبے پر سرمایہ کاری کر سکتا ہے تو اسے بڑے پیمانے پر
تیار کیا جا سکتا ہے۔‘‘
خضر اور ان کے دوست "جان پاکستان" نامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ملک اور عوام
کے لیے مفید دیگر کئی پراجیکٹس شروع کرنے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ |