حضرت زینب ؓ 5جمادی الاول5 کو پیدا ہوئی ۔ حضرت فاطمہؓ اورحضرت علی مرتضی ٰ
ؓ کی یہ اریخ اسلامی کی ایک محترم اور قابل ِتقلید شخصیت ہیں ۔ ہمت حوصلے
اور سعی و عمل کا منہ بولتا ثبوت یہ عالی نصب ہستی حضرت علی ؓ کی
صاحبزادیوں میں سب سے بڑی ہیں ۔ جنہیں عقیلہ بنی ہاشم بھی کہا جاتا تھا ۔
حضرت زینب ؓ کی کنیت ام مصائب ، ام کلثوم ، ان کا لقب صغریٰ نبی آخرالزماں
آپ کا نام زینب حضرت محمدمصطفی ﷺنے رکھا ۔ حضرت امام حسین ؓ ان کی بے حد عز
ت کرتے تھے ۔ بہنوں میں سب سے بڑی ہونے کی وجہ سے اپنی والدہ ماجدہ حضرت
فاطمہ ؓ کے بعد گھر کے معاملات کی ذمہ دار بھی تھیں ۔ ان کی شادی حضرت جعفر
طیار ؓ کے فرزند عبداﷲسے ہوئی ۔حضرت زینب ؓ کی اولاد کے نام علی ، عون اکبر
، عباس ، جعفر اکبر ، محمد ، عون محمدہیں ۔ جن میں محمد کربلا میں شہید
ہوئے ۔
کربلا کی تاریخ کے دو باب نہایت اہم ہیں ایک حضرت امام حسینؓ اور دوسری
حضرت زینبؓ ۔ حضرت زینب ؓ کے مقام و عظمت کو کون جان سکتا ہے ۔آپ کا صبر
عظیم صبر ہے ۔ یہ وہ صبر نہیں جو حالت ِمجبوری میں اپنایا جاتا ہے بلکہ یہ
صبر وہ صبرہے جو سوچ سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے اوراصولی صبر ہے ۔حضرت
زینب ؓ ظلم و استبداد کے خلاف جہاد میں اپنے بھائی کے ساتھ رہیں۔حضرت زینب
ؓ نے اپنے بھائی کے حوصلے میں اضافہ کیا ۔ حضرت زینب ؓ ،عملاـَحضرت امام
حسین ؓ کی ہمت اوردست و بازو بنی رہیں ۔ یہاں تک کہ جب کربلا میں حضرت امام
حسین ؓ اور بیٹوں کی شہادت رونما ہو چکی تو بھی آپ ؓ نے ہمت نہ ہاری ۔ہمت
اور حوصلہ کی حامل خاتون تھی جنھوں نے انتہائی مخدوش حالات میں بھی ہمت نہ
ہاری بلکہ دعا فرمائی
اے اﷲہم سے یہ قربانی قبول فرما
کربلا میں جنگ کے خاتمے کے بعد حضرت زینب ؓ اوراہل ِ بیت کے ساتھ دمشق لے
جایا گیا جہاں آپ ؓ نے استقامت ، عبادت ، ایثار ، جہاد اور حمایتِ دین کا
جو مظاہرہ کیا اس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی ۔ حضرت زینب ؓ کا امام
حسینؓ کے ساتھ مکہ سے مدینہ اور مدینہ سے کربلا تک کا سفر اور پھر دمشق میں
قیام ایک غیر معمولی کارنامہ تھا ۔دس محرم کوامام حسین ؓ کے بعد یتیموں ،
بیواؤں اور جوانوں ، عورتوں کی نگرانی ، دشمنوں کے مقابلے میں صبر و تحمل
کا مظاہرہ کیا ۔ جس کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی ۔ جب یہ لٹا پٹا
قافلہ قید کر دیا گیا اور عبداﷲبن زیاد کے سجے سجائے دربار میں پیش کیا گیا
۔آپ ؓ کی ردا بھی آپ کے سر پر نہ تھی ۔حق کی سربلندی کے لیے آپ ؓ خاموش نہ
رہیں بلکہ آپ ؓ نے اہل ِدربار کو مخاطب کر کے خطبہ دیا اورآپ ؓنے عبداﷲبن
زیاد کے دربار میں اس کی گستاخیوں کا جواب اتنی جرات مندی سے دیاکہ عبداﷲبن
زیاد اور اس کے درباریوں پر آپ ؓ کا رعب و دبدبہ بیٹھ گیا ۔یزید کے دربار
میں حضرت زینب ؓ کی تقاریر نے اہلِ دمشق کو خواب ِ غفلت سے بیدار کیا اور
سلطنتِ بنو امیہہ کی بنیادوں کو ہلا دیا ۔حضرت زنیب ؓ کی کوفہ میں کی گئی
لا جواب تقریریں تاریخی حیثیت رکھتی ہیں۔انھوں نے لوگوں میں ایک شعور بیدار
کیا اور یہ ثابت کیا کہ ظلم وبربریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور عورت بھی کسی
طور مرد سے کم نہیں ۔حق کی سربلندی کے لیے اٹھ کھڑے ہوناہی بہادری کی علامت
ہے ۔ اس کے بعد شام کا سفر ، شام کے بازاروں سے گزرتے ہوئے قافلے اور امام
زین العابدین ؓ کو ابنِ زیاد کے ہاتھوں سے زندہ بچا لینا آپ کا ایک عظیم
کارنامہ تھااور آپ ؓ ہی کا کارنامہ تھا کہ اتنے بڑے سانحہ کے بعد بھی عالم
اسلام میں امن برقرار رہا۔
بشیر بن ہاضم اسدی نے کہا
بخدا میں نے آج تک حضرت زینب ؓ جتنی باکردار ، باوصف مقررہ نہیں دیکھی
۔جنھوں نے بالکل اسی طرح تبلیغِ دین کی جس طرح حضرت علی ؓ نے کی ۔
یہ بات روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت زینب ؓ کی پوری زندگی حضور بنی پاک
ﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں گزری ۔یہ اسلام کی وہ معزز ہستی ہیں جو تہی دامن
ہوتے ہوئے بھی ، جب سر پر چادر بھی چھین لی گئی ، خاندان کے افراد کو شہید
کر دیا گیا ۔اس وقت بھی حضرت زینب ؓ نے اولاد ِحضرت علی ؓ ہونے کا ثبوت دیا
اوربہادری کاوہ مظاہرہ کیا جس کی مثال نہیں ملتی ۔حضرت زینب ؓ کی حیات
ِمبارکہ ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہے کہ عورت ذمہ داری سے بری الذمہ نہیں
ہوسکتی بلکہ عورت کی ذمہ داری مرد کے برابر ہے ۔ بلکہ بھض صورتوں میں عورت
کی ذمہ داری مرد کی نسبت زیادہ ہے ۔
حضرت زینب ؓ کی زندگی آج کی عورت کے لیے مشعلِ راہ ہے اور یہ سبق دیتی ہے
کہ حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں عورتوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ
دین کی سر بلندی اور حق کی بقا کی جنگ لڑنے کے لیے دشمن کے سامنے کھڑے ہو
جانا ہی عقلمندی کا تقاضا ہے ۔ عورت کو صبر وتحمل کا نمونہ ہو نا چاہیے
۔ظلم و بربریت کے خلاف خاموشی اختیار کرے کی نسبت آواز بلند کرنا زیادہ اہم
ہے ۔
آج کی عورت کردار سے بھی عاری ، صبر و تحمل سے بھی عاری ، ہمت و حوصلہ سے
بھی عاری ہے ۔ عورت کی یہی وہ کمزوریاں ہیں جن کی وجہ سے پورا معاشرہ کمزور
ہوتا جا رہا ہے کیونکہ عورت ہی وہ ہستی ہے جس کی گود میں ایک نسل پروان
چڑھتی ہے ۔ اگر ایک عورت دین دار ہو ، نیک ہو ، علم رکھتی ہوتو وہ نسلوں کو
سنوار سکتی ہے اس کے برعکس اگر عورت دین اور دنیا کا علم نہ رکھتی ہو تو وہ
اگلی نسل میں بھی وہی منتقل کرے گی جن خیالات کی وہ خود مالک ہوگی ۔جو سر
پر خود دوپٹہ لینا پسند نہ کرتی ہو وہ اولاد کو بھی یہی سکھائے گی ۔عورت
چاہیے چار دیوری میں رہتے ہوئے یا روزی روٹی کمانے کے لیے بھی مرد کا ساتھ
دے تو معاشرہ مجموعی طور پر مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے گا ۔اگر عورت دین
اور حق کی سربلندی کے مرد کا ساتھ نہ دے تو مرد کوئی جنگ نہیں جیت سکتا
۔معاشر ے میں پھیلی ظلم و بربریت ، بے انصافی کا خاتمہ بھی اسی طور پر ممکن
ہے جب عورت بھی مرد کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گی اور اپنی ذمہ داری کو سمجھے
گی ۔
حضرت زینب ؓ کی زندگی ، اور اسوۃ حسنہ آج کی عورت کے لیے زادِراہ ہے اوراگر
آج کی عورت اپنی زندگی کے ہر معاملے میں کردارِزینب ؓ کو مدِنظررکھے تو
کوئی وجہ نہیں ہے کہ معاشرے میں پھیلی یزیدیت کا خاتمہ نہ ہو سکے ۔الغرض آج
کی عورت کو دین و دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لیئے اپنے ہر معاملے میں
حضرت زینب ؓ کی زندگی سے سبق لینا چاہیے ۔ |