ممکن ہے!

ہماری قوم یہ سوچتی ہے کہ قو م میں تبدیلی آنا نہ ممکن ہے،قوم وملت کی فلاح و بہبودی نہ ممکن ہے ،قوم میں کوئی انقلاب نہیں آسکتا اوریہ بھی ہمارے یہاں تصور ہے کہ یہ قوم مردہ ہوچکی ہے۔ہم اس بات کو واضح کردیں کہ قومو ں کا وجود ہم سے ہے اورہم قوم کا ہی حصہ ہیں اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے قوم میں تبدیلی لانے والوں کا گروہ الگ ہے تو یہ خیال بالکل غلط ہے۔کوئی انسان پیدائشی طور پر سپہ سالار نہیں بنتا اور نہ ہی کوئی پیدائشی لیڈر یا رہنما بن سکتا ہے بلکہ جو ہمارے اندر جو اوصاف ہیں ان اوصاف کو تراشنے کی ضرورت ہے۔جب ہم اپنے آپ کو اپنی زندگی کے کچھ حصے کوقوم و ملت کی فلاح وبہبودی کیلئے ریزرو کرتے ہیں تو تبھی قوم و ملت میں تبدیلیاں آسکتی ہیں۔اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر قوم و ملت میں تبدیلی لانی ہے تو ہم اس کا جواب مختصر دینا چاہیں گے کہ آج جو حالات سے قوم گذر رہی ہے وہ ہماری پہچان نہیں ہے۔ہمارے حضورحضرت محمد مصطفی ﷺ نے مسلمانوں کو تمام قوموں کا سرداربتایا ہے اور اﷲ پاک نے انسان کو اس زمین کا خلیفہ منتخب کیا ہے۔لیکن ہم نے اپنی کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی وجہ سے نہ سپہ سالار بن سکے اور نہ ہی خلافت چلا سکے۔آج ہم پوری دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم قوم ہیں اور ہم پر ظلم اس لئے ڈھایا جارہا ہے کہ ہم نے اپنے جینے کے انداز کو غلامی میں بدل دیا ہے،اگر ہم اپنے اوپر ہورہے ظلم وستم کے جواب دینے کیلئے منصوبے تیار کئے ہوتے اور دوسری قوموں پر غالب آنے کیلئے اپنے آپ میں قائدانہ صفات پیدا کرتے تو آج ہمار ا وجود سب سے بہتراور برتر ہوتا ۔ہندوستان کی آزادی کے بعد سے مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد قوم و ملت کی قیادت کے نام پر آگے آئی تھی لیکن اس قیادت کو قوم نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہیں،آج ہمارے درمیان گنے چنے چند لیڈران ہیں لیکن وہ قوم و ملت کے لیڈران سے بڑھ کر سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کہلاتے ہیں،ان کا مقصد صرف اور صرف ان کے مفادات کی تکمیل ہے نہ کے قوم و ملت کی قیادت۔ایسے میں مسلمانوں کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور مجبوری کی حالات میں مسلمان غیروں کی قیادت قبول کرنے پر مجبور اور انہیں وہاں پر سماجی انصاف نہیں مل رہا ہے بلکہ غلامی کی زندگی بسر کرنا پڑ رہا ہے۔اس ملک کے تقریباًدس گیارہ کروڑ سے زائد خواتین و مردمسلمان مختلف دینی تحریکوں سے جڑے ہوئے ہیں اور ہر ایک دینی تحریک یہی درس دیتی ہے کہ اسلام نے جو باتیں بتائی ہیں ا س پر عمل کیا جائے،یعنی اسلام نے ہمیں اس بات کا درس دیا ہے کہ مسلمان ظلم نہ سہیں،اپنا خلیفہ منتخب کریں اور اپنی پہچان کو قائم رکھنے کیلئے دوسرے قوموں کی تابعداری نہ کرتے ہوئے اپنی قوم کے ماتحت دوسری قوموں کولیں،آج اس ملک میں مسلمانوں کی آبادی اٹھارہ تا بیس کروڑ ہے کیا یہ بیس کروڑ مسلمان مل کر اپنی شناخت نہیں بنا سکتے،کیایہ بیس کروڑ مسلمان اتنے کمزور ہیں کہ دوسرے ان پر غالب آرہے ہیں؟کیا ان بیس کروڑ مسلمانوں میں اتنی بھی دور اندیشی نہیں ہے کہ وہ اپنے وجود کو بحال رکھنے کیلئے اپنے خلیفہ کا انتخاب کریں،ہمارا خلیفہ وہی ہے جو قوم وملت کی قیادت کو اپنا نصب العین سمجھیں۔اگر ان باتوں کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں تو یقینا ہماری قوم میں ایک انقلاب آسکتا ہے،ایک تحریک جاگ سکتی ہے اور مسلمان مردہ قوموں میں شمار نہیں ہونگے۔
Mudassar Ahmed
About the Author: Mudassar Ahmed Read More Articles by Mudassar Ahmed: 269 Articles with 197717 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.