سانحہ کوٹ رادھا کشن اور اصل حقائق

10 محرم کو میڈیا نے رپورٹ کیا کہ کوٹ رادھا کشن کے نواحی علاقہ میں یوسف گجر کے بھٹہ پر مقامی گاؤں کے چار سو کے قریب لوگوں نے ایک مسیح جوڑے کو بھٹے میں جلا کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے واقعہ کا فوری نوٹس لیا اور قانون حرکت میں آیا اور بھٹہ مالک یوسف گجر ، منشی وغیرہ اور چار سو نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی۔ ایف آئی آر کے بعد میڈیا نے یہ رپورٹ کیا کہ مسیح جوڑا شہزاد مسیح اور اس کی بیوی شمع بی بی بھٹہ پر کام کرتے تھے جس کی انہوں نے پیشگی لی ہوئی تھی اور بھٹہ مالک یوسف گجر نے اپنے پیسوں کا مطالبہ کیااور پیسے نہ دینے پر بھٹہ مالک نے اپنے ساتھیوں سے مل کر شہزاد مسیح اور اس کی بیوی شمع بی بی کو بھٹہ میں زندہ جلا کر ہلاک کر دیا ۔ اس واقع کو بھٹہ مالک نے مذہب کا رنگ دے دیا ہے۔ یہ خبر پورے پاکستان میں آگ کی طرح پھیل گی۔ سیاست دانوں نے اس واقع کی مذمت کی اور ملزموں کو سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ میاں شہباز شریف نے مسیح جوڑے کے لواحقین کے لئے امداد کا اعلان بھی کر دیا۔

اس واقع کے اصل حقائق ہیں کیا۔کیا واقعی اس جوڑے کو جلایا گیا یا پھر جلا کر مذہبی رنگ دیا گیا ۔

اصل میں شہزاد مسیح کا والد نادر مسیح جو تعویز دھاگے کرتا تھا جو کچھ دن پہلے وفات پاگیا جب اس کے گھر والوں نے سوموار کے روز نادر مسیح کی وہ خاص صندوکڑی جس میں وہ تعویز وغیرہ رکھتا تھا اس کو کھولا اور اس میں کچھ کاغذ وغیرہ تھے ۔ صندوکڑی کو صاف کرنے کی غرض سے کاغذ وغیرہ جلا کر باہر پھینک دیے۔ ایک پھیری والا (سامان بیچنے والا)جب بھٹے پر آیا اس نے کچھ کاغذ وغیرہ جلے ہوئے دیکھے اس نے قریبی گاؤں 59چک میں جا کر گاؤں والوں سے کہا کہ میں نے یوسف گجر کے بھٹے پر قران پاک کے کاغذ جلے ہوئے دیکھے ہیں۔ تو اس پر گاؤں والوں نے یوسف گجر سے فون پر رابطہ کیا اور بتایا کہ آپ کے بھٹے پر قران مجید کی بے حرمتی ہوئی ہے توہمیں بندہ دیں۔ یوسف گجر نے کہا کہ میں صبح بھٹے پر آؤں گا تو اس معاملے کو دیکھتا ہوں اگر بے حرمتی ثابت ہوئی تو اس کو پولیس کے حوالے کردیں گے اس کے بعد فون بند ہو گیا۔ 59چک میں ایک مقامی دوکاندار ریاض کمبوہ نے اس واقع کو اچھالا۔ اس نے گاؤں میں انتشار پھلانے کی بھر پور کوشش کی ۔ گاؤں والوں نے پولیس کو بھی اطلاع کر دی کے یوسف گجر کے بھٹے پر قران مجید کی بے حرمتی ہوئی ہے۔ تو اس پر چوکی انچارچ گلیمر اڈا محمد علی ایس آئی نے یوسف گجر نے رات دس بجے کے قریب رابطہ کیا اور بتایا کہ گاؤں والوں نے اطلاع دی ہے کے آپ کے بھٹے پر قران پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے تو یوسف گجر نے کہا کہ مجھے بھی گاؤں والوں نے اطلاع دی ہے کہ ایسا کوئی واقع پیش آیا ہے لیکن میرے علم میں نہیں ہے اصل حقائق کا صبح ہی پتا چلے گا آپ صبح آجائیں اور جو آپ نے قانونی کارروائی کرنی ہے کر لیں۔ اگلے روز بروز منگل صبح کے وقت گاؤں والوں نے قریبی دیہاتوں کی مساجد میں بھی اعلان کروا دیا کہ یوسف گجر کے بھٹے پر قرآن پاک کی بے حرمتی ہوئی ہے اور یوسف گجر بندہ نہیں دے رہا۔جس سے لوگوں میں انتشار پیدا ہوگیا۔ سب لوگوں نے اکٹھے ہو کر بھٹے پر حملہ کر دیا جیسے ہی بھٹہ پر حملہ ہوا تو بھٹے کے منشی نے شہزاد مسیح اور شمع بی بی کو کمرے میں بند کر دیا تا کہ ان کی جان کو کوئی خطرہ نہ پہنچے۔ ساتھ ہی یوسف گجر کو اطلاع دے دی گئی کہ گاؤں والوں نے بھٹے پر حملہ کر دیا ہے اور شہزاد مسیح اور اس کی بیوی کی جان خطرے میں ہے تو یوسف گجر نے فوری طور پر ایس آئی محمد علی کو اطلاع دی کے حالات خراب ہیں آپ نفری کے ہمراہ فوراً پہنچے اور ہجوم کو کنٹرول کریں۔ اس کے بعد ایس آئی چار کانسٹیبل کے ہمراہ بھٹہ پر پہنچا اور ہجوم کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم کنٹرول نہ ہوا۔ ان کو کسی طرح پتا چل گیا کہ مسیح جوڑا ایک کمرے میں بند ہے۔ تو بپھرے ہوئے ہجوم نے کمرے کی چھت (جو کے کانے کی تھی) کو اکھاڑنا شروع کر دیا اور اند گھس کر مارنا شروع کر دیا۔ اور ہجوم کے تشدد کے بعد یہ مسیح جوڑا قتل ہو گیا اس کے بعد گاؤں والوں نے ان کی لاشوں کو بھٹے کے اوپر لا کر جلانے کی کوشش کی جس کے بعد جوڑے کی لاشیں کسی حد تک جل گئی۔ یہ اس کہانی کا پہلا حصہ ہے جو میڈیا نے آدھا رپورٹ کیا کہ تقریباً چار سو لوگوں نے ایک مسیح جوڑے کو بھٹے میں جلا دیاہے اور بس اس کے بعد جیسے ہی وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے نوٹس لیا اور قانون والے حرکت میں آئے اور ڈرامہ رچا دیا کیوں کہ یہ ساری ذمہ داری پولیس پر عائد ہوتی تھی۔ پولیس کو ایک دن پہلے گاؤں والوں نے اطلاع دے دی تھی اور یوسف گجر نے بھی اطلاع دے دی تھی کہ گاؤں والے حملہ کر رہے ہیں اگر جوڈیشل انکوائری ہو تو یہ بات موبائل نمبروں کے ریکارڈ سے ثابت بھی ہو جائے گی۔ اور تو اور یہ سارا واقع ایس آئی کے سامنے ہوا۔ ایک باثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے جب پولیس کے اعلیٰ احکام کو اصل حقائق معلوم ہوئے تو انہوں نے ایس آئی کی مدیت میں بھٹے والوں کے خلاف مقدمہ درج کر دیا تا کہ مسلمانوں اور مسیح برادری کے فسادات شروع نہ ہو جائے اور پولیس بھی اس واقعہ سے بری ہو جائے۔ اور ساراالزام بھٹہ مالک کے اوپر ڈال دیا گیااس ایف آئی آر میں شہزاد مسیح کا نام سجاد مسیح درج کیا گیا۔ کیوں کہ بھٹہ مالک اور لیبر کے لینے دینے والے واقعات ہر روزسامنے آتے رہتے ہیں۔ اس کے بعد میڈیا نے یہ رپورٹ کیا کہ بھٹہ مالک نے اپنے ساتھیوں سے مل کر مسیح جوڑے کو زندہ جلا دیا ہے۔ بھٹہ مالک کی تمام لیبر فرار ہو گئی۔ دیہاتیوں کے لوگوں نے یوسف گجر کے بھٹے کو بھی نقصان پہنچایا۔ صدر انجمن مالکان بھٹہ خشت پاکستان شعیب خان نیازی اور مہر عبدالحق کوآرڈینٹر بھٹہ اونر ایسوسی ایشن نے بدھ کے روز چار بجے دوپہر لاہور پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کرنا چاہی تا کہ بھٹہ ایسو سی ایشن کا بھی موقف آجائے۔ لیکن چار بجے سے پہلے ہی ڈی جی لیبر اور سیکرٹری لیبر نے پریس کانفرنس سے منع کر دیا اور کہا کہ آپ یہ پریس کانفرنس کو ڈیلے کر لیں تا کہ کچھ حالات ٹھیک ہو سکیں۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو مسلمانوں اور مسیحوں کے درمیان فسادات شروع ہو جائیں گئے اور یہ بات انٹرنیشنل میڈیا میں بھی جائے گی جس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔

یہ ہیں اصل حقائق جومیڈیا بتانے سے گریز کر رہا ہے کیوں کہ این جی اوز اور کچھ بیرونی ہاتھوں کا پریشر میڈیا پر بھی ہے اور حکومت پر بھی ۔اگر میڈیا ایسا کرے گا تو ملٹی نیشنل کمپنیز کے اشتہارت نہیں ملیں گئے اور حکومت پر بھی پریشر ہے اس پریشر کے نتیجے میں گورنمنٹ پنچاب نے لواحقین کو دس لاکھ روپے اور دس ایکڑ زمین دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔اس کو کہتے ہیں پیسہ پھینک اور تماشا دیکھ۔میرے کچھ سوالات ہیں انتظامیہ سے ۔اگر کسی بندے کو بھٹے کی آگ میں پھینک دیا جائے تو وہ بندہ کسی بھی صورت میں باہر نا تو نکل سکتا ہے اور نا ہی اس کو کوئی نکال سکتا ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ بندے کی خاک ملنا بھی مشکل ہے۔ تو مسیح جوڑے کی لاشیں کیسے باہر نکال لیں گئی؟ جو میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جس گاؤں کے قریب یہ واقع پیش آیا اس گاؤں میں پولیس کی نفری موجود ہے جو کسی بھی فردکو گاؤں سے اند ر یا باہر نہیں آنے دے رہی کیوں؟ اگر بھٹہ مالک اور شہزاد مسیح کا تنازعہ رقم کا تھا تو ایک دن پہلے گاؤں میں مساجد میں اعلان کروا کر مذہب کو اندر کیوں لایا گیا؟ایس آئی اور یوسف گجر کے موبائل ڈیٹا کیوں چیک نہ کیا گیا؟
Waseem Nazar
About the Author: Waseem Nazar Read More Articles by Waseem Nazar: 6 Articles with 22755 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.