دورِ جدید میں ذہانت کی بجائے
جہالت کو جس بامِ عروج تک پہنچانے میں ہم انسانوں کا عمل دخل ہے اس کی مثال
نہیں ملتی،کہنے کو تو سب یہ ہی کہتے ہیں کہ ہم وقت کے ساتھ قدم ملا کر چل
رہے ہیں لیکن جب چھوٹی سی بات پر صبر و برداشت کادامن چھوڑ دیتے ہیں تو اس
دامن کو سمیٹنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے، اپنی انا ،ضد ،ہٹ دھرمی
اور دقیانوسی سوچ کو اپنا حق سمجھتے ہیں جو کہ شاید ہماری نظر میں آعلیٰ
ظرفی ہو لیکن اس کم ظرفی، ضد اور انا کی بدولت ہماری زندگی سے منسلک کئی
افراد کی زندگیاں اور مستقبل داؤ پر لگ جاتے ہیں جس سے شاید ہمیں کوئی
سروکار نہیں ہوتا ہمیں اپنی ضد اور انا کو قائم رکھنے کیلئے کئی بار کٹھن
اور دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے تلخیاں اور مصائب برداشت کرنا پڑتے
ہیں لیکن اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں ،ہماری اسی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کئی غیر
متعلقہ افراد کے علاوہ ہمارا خاندان بھی اس ضد نما عفریت کا شکار ہوتا ہے
جس میں سر فہرست ہمارااپنا خون ،ہماری اولاد ،ہمارے بچے ہیں ،لاعلمی ، ضد
یا انا کا مسئلہ بنا کر ہم اپنے ہاتھوں سے اپنا گھر اجاڑ دیتے ہیں اور
الزام دوسروں کے سر تھوپتے ہیں،میں نے تو کچھ نہیں کیا میری توکوئی غلطی
نہیں میرا کیا قصور۔۔۔ تو قصور وار کون ہے؟میڈیا یا ہم خود، لاعلمی یا منفی
سوچ، مادہ پرستی یا نمائش یا پھر موروثی باقیات جو آج بھی قائم ہیں؟
انسان کو زندگی گزارنے کیلئے ایک ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے اور شادی ایک ایسا
ذریعہ ہے جو دو افراد کے درمیان ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کیلئے خوشیوں کا
گہوارہ ثابت ہوتا ہے مگر بعض اوقات اس رشتے میں دراڑ پڑ جاتی ہے، نااہلیت ،
جلد بازی اور تدبر کے فقدان کی وجہ سے یہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے،جس کے نتیجے میں
علیحدگی یا طلاق کی نوبت بھی آتی ہے کہنے کو علیحدگی یا طلاق عام سے الفاظ
ہیں لیکن ان کے عمل سے بالخصوص بچوں کی زندگی میں زہر گھول دیا جاتا ہے،اس
عمل سے نہ صرف خاندان کا ڈھانچہ تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ رشتے بھی متاثر ہوتے
اور تکلیف و انتشار کا سبب بنتے ہیں،انسان بھول جاتا ہے کہ علیحدگی یا طلاق
مسائل یا تنازعات کا حل نہیں بلکہ یہ خود ایک گمبھیر مسئلہ ہے جس کے سبب
خاندان میں مضبوط مراسم تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اور تلخیاں باقی رہ جاتی
ہیں۔
ازدواجِ زندگی، مسائل،ملازمت،اولاد،اخراجات،دینی و دنیاوی رسومات کے علاوہ
ہر گھر میں کئی ایسے چھوٹے مسائل جنم لیتے ہیں جو معمولی اور بے وقعت ہوتے
ہوئے بھی انسانوں کی ہنستی بستی زندگی میں زہر گھول دیتے ہیں اور ایک
گھرانہ اجڑ جاتا ہے،میاں بیوی کے رشتے میں جب بحران پیدا ہوتا ہے تو بحران
ایک تنازعہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور والدین کے یہی تنازعات بچوں پر
بری طرح اثر انداز ہوتے ہیں، لیکن والدین یہ نہیں سوچتے کہ بچوں کو ہماری
ضرورت ہے اگر ہم سے ایک موجود نہیں تو ان کی زندگی میں خلا پیدا ہو جائے گا
اور اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے ہماری علیحدگی یا طلاق سے
بچوں کے ذہن پر منفی اثرات مرتب ہونگے ان کی نشو و نما میں کمی واقع ہو گی
ہمارے اختلافات کی سزا بچوں کو ملے گی یا اس بحران میں بچوں کی ترقی یا
فلاح و بہبود کی ذمہ داری کس پر عائد ہوگی۔ تنازعات کے دوران والدین اتحاد
کرنے کی بجائے لاشعوری طور پر بچوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالتے ہیں ،بچے پہلے تو
اس ناگہانی صورت کو سمجھ نہیں پاتے اور والدین کی طرف سے مزید دباؤ کا شکار
ہونے پر ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور راہِ فرار ڈھونڈتے ہیں جو انہیں
میسر نہیں ہوتی،والدین میں علیحدگی یا طلاق بچوں کی سلامتی کے لئے خطرہ
ہے،اکثر بچے والدین کی چپقلش میں اپنے آپ کو قصور وار سمجھتے ہیں،ان حالات
میں بچوں کے پاؤں تلے سے زمین نکل جاتی ہے کہ یہ کیا ہوا،کیوں میرے والدین
میں علیحدگی ہوئی ،میرا کیا ہو گا وغیرہ وغیرہ۔
ماہرین کا کہنا ہے اگر علیحدگی کی نوبت آجائے تو والدین کو چاہئے کہ بچوں
کو سمجھائیں کہ وہ ان تنازعات کے ذمہ دار نہیں ہیں،ہم تمھارے والدین ہیں
اور ہمیشہ رہیں گے بھلے ہم علیحدہ ہو جائیں،مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ
طلاق کی صورت میں والدین بچوں پر دباؤ ڈالنے کی بجائے انہیں صاف گوئی سے
حالات سے آگاہ کریں تاکہ ان کے ذہن میں مختلف قسم کے خدشات نہ جنم لیں اور
اس با ت پر یقین کریں کہ میرے ماں اور باپ ہیں میں اکیلا نہیں ہوں ،علاوہ
ازیں بچوں کی عمر پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس عمر میں ہیں کہ تمام
واقعات کو سمجھ سکیں اور دباؤ میں نہ رہیں،بہت چھوٹے بچوں میں یہ خوف ہوتا
ہے کہ کہیں انہیں اکیلا تو نہیں چھوڑ دیا جائے گا،سکول جانے والے بچوں سے
اس دباؤ کی ابتدا ہوتی ہے کئی بچے ان معاملات کو ذہنی و جسمانی رد عمل یا
جذباتی تکلیف سمجھتے ہیں اور کچھ درگزر کرتے ہیں،والدین کو چاہئے تنازعات
اور ممکنہ مشکلات کے رد عمل کو ایک خرابی کے طور پر نہیں بلکہ بچوں کو
بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے مضبوط رہنے اور خود اعتمادی سے جینے
کی صلاحیت پیدا کریں،نہ کہ جذباتی رویہ اختیار کریں بچوں میں مزاحمت کے
خلاف احساس پیدا کریں بہت سی تبدیلیاں لا کر بچوں کو مغلوب کیا جا سکتا
ہے،اگر بچے ذہنی پریشانی میں مبتلا پائے جائیں تو فوراً کسی ماہر نفسیات سے
رجوع کریں،ان حالات میں بچوں کو مدد کی اشد ضرورت ہوتی ہے،کیونکہ وہ جسمانی
چوٹ نہیں ذہنی چوٹ اور غم و غصہ کا شکار ہوتے ہیں وہ اپنا خاندان کھو دیتے
ہیں انہیں فوری سہارے کی ضرورت ہوتی ہے بچے اس ان دیکھے بحران میں دھکیل
دئے جاتے ہیں جو تاحیات ان کے لئے بحران ہی رہتا ہے ایک ایسی کمی جو کبھی
پوری نہیں ہو سکتی اس بحران کا احساس اور زندگی سے جنگ کرتے ہیں،لیکن اگر
والدین تحمل مزاجی ،برد باری اور اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی توجہ
دیں اور بحران سے نمٹنے کیلئے سنجیدگی سے بچوں میں پائے جانے والے خدشات کو
دور کریں اور حالات سے مقابلہ کرنے کی ہمت اور صلاحیت پیدا کرنے میں کامیاب
ہو جاتے ہیں تو شاید بچوں کے مستقبل میں کوئی روکاوٹ پیش نہیں آسکتی،کیونکہ
بچوں کے لئے خاندان کا کھو دینا ایک نقصان ہوتا ہے ،اپنے تحفظ اور سلامتی
کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ ان کے کیا حقوق ہیں؟والدین
کی کشیدگی کے کیا اسباب ہیں ؟ اور ان حالات میں اگر والدین بچوں پر خصوصی
توجہ نہیں دیتے تو ممکن ہے غیر متعلقہ افراد کی دخل اندازی بچے کو مزید
نقصان پہنچا سکتی ہے ان حالات میں والدین کو چاہئے اپنی طرف سے ہر ممکن
کوشش کے بعد مخلص دوستوں ،قریبی رشتہ داروں سے امداد حاصل کی جاسکتی ہے
بدیگر صورت فیملی کونفلکٹ کے ماہرین و معالجین سے رابطہ کریں۔
بچے بہت حساس طبعیت کے ہوتے ہیں وہ فوراً محسوس کرتے ہیں کہ والدین کے
درمیان جھگڑا چل رہا ہے اس دوران اگر بچوں کو سچ بات بتا دی جائے تو وہ
سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ کہ ایک جھوٹ کو چھپانے کیلئے ساری زندگی جھوٹ
کا سہارا لیا جائے اور غیر یقینی صورت حال پیدا کی جائے بلکہ سچائی بیان
کرتے ہوئے ناخوشگوار واقعات اور افراتفری سے بچا جا سکتا ہے،اس بات کو نظر
انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ بچے بھی حقوق رکھتے ہیں،والدین کے درمیان
بھلے پیار محبت یا تعلقات باقی نہ رہیں لیکن بچوں کی خوشنودی کیلئے آپس میں
ایسا میل جول برقرار رکھنا ضروری ہے جس سے بچے حقائق کو سمجھیں اور ان کے
جذبات مجروح نہ ہوں،والدین کیلئے ایسے لمحات چیلینجز سے کم نہیں ہوتے لیکن
اگر وہ محض اپنی انا ،ضد ،ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہیں تو بچوں کو مزید نقصان
پہنچ سکتا ہے،ایسے لمحات مشکل ہوتے ہیں لیکن ناممکن نہیں ایسی ملاقات بچے
کیلئے اطمینان بخش ثابت ہو سکتی ہے اور اسی دوران بچے کو ہینڈل کرنے کے
مواقع بھی میسر آتے ہیں تاکہ وہ ایک نئی زندگی کی شروعات کرکے لطف اندوز ہو
سکیں۔
علیحدگی اور طلاق کے نتائج پر مطالعہ اوراس کے بچوں پر اثرات۔والدین میں
علیحدگی یا طلاق بچوں کو شدید متاثر کرتی ہے،اور اگر سوتیلی ماں یا سوتیلے
باپ سے بچوں کا واسطہ پڑجائے تو انکے مستقبل اور زندگی کو مزید خطرات لاحق
ہو جاتے ہیں،کیونکہ خاندان میں نئے شراکت داروں کی مرضی اور عادات واطوار
کے تحت ہی زندگی بسر کرنے پر زور دیا جاتا ہے جس سے بچے کی ذہنی وجسمانی
صلاحیت متاثر ہوتی ہے، والدین اکثر اس بات سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کی غیر
موجودگی میں نئے خاندانی شراکت دار ان کے بچوں سے کیسا رویہ اختیار رکھے
ہوئے ہیں،تحقیق کے مطابق سامنے آیا ہے کہ سوتیلے والدین اکثر بچوں کو نظر
انداز کرتے اور ممکنہ جسمانی و ذہنی تشدد کرتے ہیں،اس رویے کے مختلف پہلو
ہو سکتے ہیں ،مالی مشکلات سب سے اوّل پہلو شمار کیا گیا ہے ۔بچے منہ سے
نہیں اپنی آنکھوں سے سوال کرتے ہیں کہ تم دونوں میرے ماں باپ ہو ؟ کیا ماں
باپ ایسے ہوتے ہیں؟ کیوں اپنی اپنی انا، ضد ، کم ظرفی اور برداشت کے فقدان
کے سبب میری زندگی اور مستقبل سے کھلواڑ کیا ،تمھارے مسائل اور تنازعات سے
میرا کیا واسطہ ،مجھے بتاؤ میں کہاں جاؤں ؟ کس سے مدد مانگوں؟ بتاؤ میرا
کیا قصور ہے؟جس دن ہم نے یہ سیکھ لیا کہ ہاں میری غلطی ہے اس دن سے تمام
تنازعات، مسائل ،تردد،الجھنیں ،کھینچا تانی،کشمکش اور دیگر منفی باتیں یکسر
ہمارے ذہن سے خارج ہو جائیں گی،میری غلطی ہے کہنے یا غلطی کو مان لینے سے
انسان کم ظرف نہیں آعلیٰ ظرف کہلاتا ہے۔
بات صرف سوچنے کی ہے؟ |