شمشیر و سنان اول۔۔۔

اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں جہاد با السیف کومسلمانوں پر فرض قرار دے کر متعدد مقامات پر اسکی اہمیت اور فضیلت کو اجاگر فرمایا۔ سورہ بقرۃ، سورۃ انفال، سورہ توبہ، سورہ احزاب میں تو بڑے غزوات اور قتال فی سبیل اﷲ کا بیا ن موجود ہے۔ جہاد سے ملک و قوم کی سلامتی ، جان و مال اور عزت و آبرو کو تحفظ حاصل ہے۔ جہاد کے لیئے جہاں جانوں کی ضرورت ہوتی ہے وہیں مال کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ مال سے جہاد کی ضروریات اور آلات حر ب و ضرب کی خریداری کی جاتی ہے۔ مال خرچ کرنے کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ قرون اولیٰ کی کثیر مثالیں موجود ہیں۔ مثلا سید ہ ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبرایٰ رضی اﷲ عنہا جو مکہ معظمہ کی امیر ترین خاتون تھیں ، انہوں نے سارا مال دین اسلام کی تبلیغ اور رسول اﷲ ﷺ کی خوشنودی کے لیئے صرف فرمایا۔ سید نا ابو بکر رضی اﷲ عنہ امیر ترین تاجر تھے مگر سب کچھ دین اسلام پر لٹانے کے بعد پیوند لگے لباس میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سلام کے تحفے آئے۔ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے توجیش عسرت( غزوہ تبوک کا بے سروسامان ) کو آراستہ کردیا اور جنت کی سند اﷲ کے رسول ﷺ سے حاصل فرمائی۔ اورشہادت کے شوق کا تو یہ عالم تھا کہ زندہ واپس آنے سے زیادہ شہید ہونے کی تمنا ہوا کرتی تھی۔ ان ہی قربانیوں کے نتیجہ میں صرف 92 سالوں میں ایشیا ،افریقہ اور یورپ میں پرچم اسلام لہرانے لگا۔ منشاء الٰہی کے مطابق مسلمانوں کے فتح کردہ علاقوں کا حکمران صرف ایک خلیفہ نام کا شخص ہوتا تھا۔ اور اسی کے فرامین کی اطاعت کی جاتی تھی۔ یہی خلافت مسلمانوں کے اتحاد اور قوت کی مظہر تھی۔ جب تک مسلمانوں کا ہاتھ قبضہ شمشیر پر رہا، غیر مسلموں کو سر اٹھانے کی جرائت نہ ہوئی۔ ۔فطرت بشر ہے کہ آسائشوں میں کھو کر اپنے تحفظ سے بھی غافل ہوجاتاہے۔یہی کچھ ہوا۔ سلطان ترکی سلطان سلیم کی قوت سے صلیبی یورپ لرزاں رہتا تھا۔ لیکن صلیبیوں نے یہودیوں کے تعاون سے جدید آلات حرب تیارکرکے مسلمانوں سے انتقام کی ٹھان لی۔ جب صلیبیوں نے یورش کی تو مسلمانوں کی شمشیر زنی، تیرافگنی اور نیزہ بازی کا زور ختم ہوگیا۔ آگ اگلنے والے دور مارہتھیاروں سے مسلمان شکست کھاگئے۔ مسلمانوں کے پاس دولت کی کمی نہ تھی ۔ صرف سوچ اور فکرفردا سے بے بہرہ ہوچکے تھے۔ مغرب سے مشرق تک صلیبیوں نے فتح کے جھنڈے گاڑے اور انہوں نے مسلمانوں سے جی بھر کر انتقام لیا۔ یہی نہیں جس مقدس سر زمین سے تحریک دین اٹھی تھی اسی سرزمین کو مسلمانوں کے ذریعے تاراج کیا۔ عرب شریف کے مسلمانوں پر برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز کی ملازمت اور حمائت میں ظلم کیئے۔ یاد رہے کہ برصغیر کے جن چند افراد کو وکٹوریہ کراس سے نوازاگیا انہوں نے اپنے ہی علاقوں اور اپنے مسلمانوں بھائیوں کے قتل کرنے میں مبالغہ کیا تھا۔ تاریخ ڑھیں اور ریکارڈ دیکھ لیں۔

آخر ایسا کیوں ہوا؟ اﷲ تعالیٰ کا قانون ہے اسے بدلا نہیں جاسکتا۔ بنی اسرائیل نے اﷲ کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہی تو ہمیشہ مارکھائی اور ملعون و مغضوب ہیں۔ مسلمانوں کو کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ اﷲ اور اسکے رسول کی نافرمانیوں کی انتہا کردیں، اپنی معشوقہ کے مقبرے بنائے، ناچ گانے میں شب و روز بسر کریں، بے حیائی، فحاشی کی محفلیں سجائیں، طوائفوں سے دل بہلائیں۔ تقویٰ اور جہاد کو سرے سے بھلادیں تو پھر ایسا ہی ہواکرتا ہے۔


جن سورما ؤں کا سلطان سلیم کے کھنگورے سے پیشاب نکلتا تھا وہی دنیائے اسلام پر چڑھ دوڑے۔ پھر بھی اﷲ کو اپنے محبوب ﷺ کی لاج تو رکھنی ہے۔ صلیبی خبیث تو دفع ہوگئے مگر انکے پالتو گماشتوں نے پاکستان کے معاشرے کو نجاست اور غلاظت سے ایسا آلودہ کیا ہے کہ ایسا کبھی نہ تھا۔ ہم کہتے ہیں مغربیت کا طوفان ہے درحقیقت اب یہ مشرقیت فحاشی کا سونامی ہے۔

مولانا فضل الرحمن صاحب کی بات کہ اسلام آباد دھرنوں میں بے حیائی اور عریانیت کا طوفا ن ہے۔ دراصل یہ کوئی سپیشل شو نہیں ہمارے معاشرے کی اپنے دین سے بیگانگی اور شیطانی قدروں کا اظہار ہے۔ یہاں عریانیت کا اجتماع ہے تو ٹی وی مذاکروں میں ایک خوبصورت لڑکی اس سے بھی زیادہ عریانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوان اور بزرگ رہنماؤں کو گویا اپنی انگلیوں پر نچاتی ہے۔ بعض دفعہ تو لگتا ہے کہ وہ اکیلے فیشن شو کررہی ہے۔ اور ایک دفعہ ایک چینل پرنیم برہنہ اینکر لڑکی پرنشے میں مست ہونے کا گما ن غالب تھا۔ اسی طرح اخبارات اور جرائد بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ آئے دن اخبارات میں اشتہارات فحاشی اور عریانی کو فروغ دے رہے ہیں۔ٹی وی چینلز نے تو پاکستان کو فحاشی اور عریانی کا مرکز بنانے کی ٹھان رکھی ہے۔ایک صاحب نے بتایا کہ حضرت علامہ اقبال کے یوم وصال پر شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے میگزین کے صفحہ اول کو فحش لڑکیوں کی تصاویر سے سجا کر حضرت علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان حالات پر اہل فکرو نظر کا دل جلتا ۔ کیا پاکستان انہی خرافات اور لادینیت کے فروغ کے لیئے بنا تھا؟ خدا را حکمران اس طوفان کو روکیں ۔ خدشہ ہے کہ پھر نہ کہیں افتاد پڑے۔

AKBAR HUSAIN HASHMI
About the Author: AKBAR HUSAIN HASHMI Read More Articles by AKBAR HUSAIN HASHMI: 146 Articles with 128164 views BELONG TO HASHMI FAMILY.. View More