کائنات کی معلوم حدود قیود میں
جہاں جہاں بنی نوع انسانی کا وجود ہے، وہاں وہاں اُن کی ذہنی و فکری
بالیدگی اور علم و آگہی کی آبیاری کے لئے علماء کا وجود از حد ضروری ہے،
ابھی تک کی حاصل معلومات کی روشنی میں علماء کو دو اقسام میں تقسیم کیا جا
سکتا ہے جو ایک دوسرے سے صفاتی اعتبار سے متضاد ہیں، ایک علماء حق اور
دوسرے علماء سو۔
اول الذکر اگر مثبت درجہ کی انتہائی بلندی پر فائز ہیں تو ثانی الذکر اسفل
کی ارزل حدود پر بیٹھے جگالی کر رہے ہیں۔
آج ہم اول الذکر سے آنکھیں چراتے ہوئے ثانی الذکر کو موضوع گفتگو بنائیں گے
کہ ذکر اول پر فائز حضرات کا بیان صرف اور صرف سادگی سے کیا جا سکتا ہے کہ
اُس میں زیب داستاں کے لئے مواد ملنا تقریبا ناممکن ہے، اسی لئے اُسے ایک
کثیر تعداد کے یہاں مقبولیت کی سند دلانے سے تحریر قاصر رہے گی اور ویسے
بھی اُن کے یہاں ہماری دال گلنے سے منکر ہو جاتی ہے اور پتیلی کے پیندے سے
ہمارا منہ چڑاتے ہوئے کہتی ہے کہ مجھے گلاؤ تو جانیں۔
جیسا کہ گندگی کے ڈھیر مکھی مچھروں اور جراثیموں کی افزائش کا باعث بنتے
ہیں بعین ہی اُسی طرح جہالت کی افراط علماء سو کی افزائش کا باعث ہے۔ عوام
الناس میں سے جہاں جہاں ستیاناس قسم کے جہلا کی معقول، اوہ معاف کیجئے گا
نامعقول تعداد ( کہ لفظ معقول کی معقولیت اس بات کی متقاضی ہے کہ اُسے یہاں
ان جیسے لوگوں کے لئے استعمال نہ کیا جائے) پائی جاتی ہے وہاں وہاں یہ
علماء سو آکاش بیل کی طرح اُگ آتے ہیں اور آس پاس کے حسین علمی پیڑوں کو
بھی اپنی نحوست کی سانپ نما شاخوں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔
ایسا نہیں کہ علم و حکمت علماء سو کے گھر کی لونڈی نہ ہو لیکن معمولی سا
فرق تو بحرحال رہتا ہے کہ علماء حق کے یہاں تاثیر ہوتی ہے جو سیدھا دل پہ
اثر کرتی ہے مگر ان کے جن کو ہدایت کی سند عطا کر دی جاتی ہے اورعلما سو کے
یہاں بھی تاثیر ہوتی ہے جو کہ سیدھا دل پر اثر کرتی ہے جہلا کے۔
وجہ اس امر کی یوں ہے کہ علم و حکمت کا حصول جو کہ عین عبادت ہے وہ اس بات
کا متقاضی ہوتا ہے کہ آپ اس کے حصول سے فارغ التحصیل ہوتے ہی اسے پھیلانے
کے فرض کے قرضدار ہو جاتے ہیں۔ علما حق تو اسی جزبے کے تحت علم و حکمت کا
حصول کرتے ہیں جبکہ علما سو اپنی ذاتی تشہیری مہم اور ذاتی مفادات کے لئے
اسے حاصل بھی کرتے ہیں اور استعمال بھی کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ موخر الذکر کو اپنی باطنی خباثت کو چھپانے کے لئے بھی ایک ملمع
کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ علم و حکمت کی صورت پورا ہو جاتا ہے۔
علم و حکمت وہ خوشبو ہے جسے پھیلانے کے لئے دل کی شیشی سے بلا مفاد نیت کی
گاڑی میں سوار کرا کر زبان کے سڑک سے منزل مقصود تک پہنچانا پڑتا ہے، جبھی
وہ اس قابل ہوتی ہے کہ بکھرے تو معطر کر دے، جبکہ علما سو اسے صرف نوک خنجر
زباں سے پھسلا دیتے ہیں اور پھر داد طلب نگاہوں سے زمانے کو دیکھتے ہیں ،
جہلا واہ واہ سے سند قبولیت عطا کرتے ہیں جبکہ اصحاب علم ناک پر رومال رکھ
لیتے ہیں۔
قصور دیکھا جائے تو علما سو کا زیادہ نہیں ہوتا ، یہ تو اُن کی فطرت ہے کہ
جہاں کہیں انسان اپنی ذہنی اور فکری کھیتی کی نمود سے غافل ہوا، وہاں یہ
جھاڑ جھنکار کی طرح اُگ آتے ہیں اور آخر کار کھیتی کی بربادی کا سبب بنتے
ہیں۔
علما سو کی مثال ایسے پھل جیسی ہے جس کا چھلکا دلکش ہوتا ہے لیکن اندر سے
گلا سڑا، ان کی زبان علوم و فنون کے انتہائی فصیح و بلیغ بیانات سے مرصع
ہوتی ہے مگر دل جہل کی سڑاند سے بدبودار۔ عصر حاضر یا ماضی قریب کے حالات
نے علما سو کو پنپنے کے تمام تر مواقع سرکاری سرپرستی میں مہیا رہے ہیں
چناچہ زمین کے طول و عرض میں یہ گندگی پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے، ظاہری
خوشبو اور باطنی بدبو کے علاوہ جو صفت علما سو میں بدرجہ تُم پائی جاتی ہے
وہ ہے ان کا ٹویوٹا کی طرح کیش ان ہینڈ ہونا، چونکنے کی قطعا ضرورت نہیں
ہے، سیانے کہتے ہیں کہ ٹویوٹا اور علما سو جب چاہو بیچ لو۔ خریدنے کے لئے
ڈالر نہیں تو روپے اور وہ بھی نہیں تو کوئی لائسنس مل شل لگانے کا یا پٹرول
پمپ کا بھی چلے گا۔ مال آپ کے پاس ہے تو جو چاہے علما سو سے کروا لیجئے،
جیسا کہ کسی پر شاتم رسول ہونے کا نا صرف الزام لگوا لیجئے بلکہ اُسے زندہ
جلوا لیجئے۔
یہ خریدار کی ظاہری وضع قطع اور رکھ رکھاؤ کے بالکُل بھی قائل نہیں ہیں، اب
یہی دیکھ لیجئے کہ خریدار اگر ظل باطل بھی ہو تو یہ اُس کے لئے میرے تیرے
یعنی ہما شما کے بچے جہاد پر بھیج کر اپنے لندن اور فرانس کی اعلیٰ تعلیمی
درسگاہوں میں بھیج دیتے ہیں۔
خوبی قسمت سے اگر چچا سام بولی لگا دیں ان کی ڈالروں میں تو صلیبی جنگ کو
جہاد کا فتویٰ دینے میں انہیں قطعی تامل نہیں ہوتا۔ چچا سام سے ان کا لگاؤ
فطری ہے کہ دونوں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ محبت اور جنگ کی طرح کرتے ہیں
جس میں سب کچھ جائز ہوتا ہے، چچا کے دئے ہوئے محلول سے ذہنی مفلوج انسانی
بمب تیار کرنا ہو جو آتم ہتیا کر لے انسانوں کے ہجوم میں ( یہاں خودکشی کا
لفظ استعمال کرنے میں مجھے تامل ہے کہ کچھ مسلمانی سا لگتا ہے)، یا جراثیمی
ہتھیاروں کے لئے تجرباتی میدان کا حصول، ہر دو صورتوں میں علما سو اور چچا
کے مفادات ایک رومانوی بندھن میں بندھے ہیں. |