قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو!

مجھے زندگی میں کچھ نہیں ملا،سوائے ناکامیوں کے،مایوسی،دل آزاری،دکھوں،حسرتوں ،نامرادیوں کے سوا۔مجھے زندگی میں سب کچھ ملا،خوشیاں،کامیابیاں،تسکین،ر رنگینیاں،آرزؤں کی تکمیل۔یہ دونوں متضاد خیالات ایک ہی انسان کے بھی ہو سکتے ہیں،فرق صرف نکتہ نظر کا ہے کہ وہ زندگی کو کیسے دیکھتا ،کیسے گزارتا اور کیسے محسوس کرتا ہے۔میری صحافتی زندگی کا باقاعدہ آغاز 1984ء سے ہوا اورمیں نے 1986-87ء سے لکھنا شروع کیا۔مجھے یاد ہے کہ 1994ء میں جب میں نے کچھ عرصہ لکھنا چھوڑ دیا تو میرے والد گرامی خواجہ عبدالصمد وانی (مرحوم) نے مجھے سے پوچھا کہ کیا بات ہے کہ تم اب لکھتے نہیں ہو،اخبارات میں تمھاری تحریر نظر نہیں آ رہی؟تو میں نے جواب دیا کہ ہمارے معاشرے میں اتنی بے حسی ہو گئی ہے کہ اب لکھنے کو دل نہیں کرتا ، پانی کی بوندیں مسلسل گرنے سے پتھر میں سوراخ کر سکتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے دل اتنے سخت ہو گئے ہیں کہ اب اچھے سے چھے الفاظ ،تحریر بھی بے اثر ہو کر رہ گئی ہے۔اس پر میرے ’’ ابو جی‘‘(میں اپنے والد کو ابو جی ہی کہتا تھا اور ان کی وفات کے بعد جب ان کا ذکر آئے تو وانی صاحب کہتا ہوں) مسکرائے اور کہنے لگے بیٹا زندگی بہت تلخ اور سخت ہوتی ہے،اگر اس زندگی میں انسان کا کوئی بڑا مقصد نہ ہو تو انسان بہت خراب ہوتا ہے،اور مقصد ہمیشہ بڑا رکھنا چاہئے،اگر بڑے مقصد کے لئے زندگی گزارو گے تو زندگی کے راستے میں کتنی ہی رکاوٹیں ،کتنی ہی مشکلات کیوں نہ آئیں،تمھارا سفر بہت اچھی طرح طے ہو گا۔ابو جی نے مزید کہا ’’ بیٹا جی کامیابی کا مطلب یہ نہیں کہ تم سرینگر پر کامیابی کا جھنڈا گاڑ لو،بلکہ کامیابی یہ ہے کہ تمہاری کوششوں کا تسلسل جاری ہے،کوشش کا جاری رہنا ہی تمہاری کامیابی ہے۔

تقریبا ہفتہ دس دن پہلے میرے بڑے بھائی کا مظفر آباد سے ٹیلی فون آیا اور وہ کہنے لگا’’ اوئے، تو نے کشمیر پر بنی انڈیا کی نئی فلم ’’ حیدر‘‘ دیکھی ہے؟‘‘میں نے بیزاری سے جواب دیا نہیں،تو بھائی کہنے لگا کہ فوری طور پر فلم حیدر دیکھو،بہت اچھی فلم ہے،اس سے تمہیں سیکھنے کا موقع بھی ملے گا۔تین چار دن تو فرصت نہ ملی لیکن جب بھائی کی طرف سے روزانہ فون پر اصرار ہوتا رہا تو میں نے کسی کو بازار سے اس فلم کی ڈی وی ڈی لانے کو کہا اور ساتھ ہی رات کے وقت انٹر نیٹ پہ اس فلم کی تلاش شروع کر دی۔نیٹ پہ فلم مل گئی اور میں نے فلم دیکھنا شروع کی،آدھی فلم دیکھی تو لائٹ چلی گئی۔اگلی رات دوبارہ فلم دیکھ رہا تھا کہ آدھی سے زیادہ فلم دیکھنے کے بعد ایک بار پھر لائٹ چلی گئی،اب مزید انتظار ممکن نہیں تھا،اگلی صبح بیدار ہوتے ہی میں نے دوبارہ فلم لگا لی۔مکمل فلم دیکھی ۔یہ فلم بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار لاپتہ افراد کے موضوع پر تھی تاہم اس میں کشمیر اور کشمیریوں کے حالات اور احساسات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔فلم کی کہانی،فلمبندی،مقامات ،اظہار جذبات کے علاوہ جس چیز نے سب سے زیادہ مجھ پہ اثر کیا وہ اس فلم میں شامل فیض احمد فیض کی غزل کے چند اشعار ہیں،’’گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے‘‘۔فیض کی اس غزل کو میں اپنے بچپن سے اب تک درجنوں بار شہنشاہ غزل مہدی حسن کی آواز میں سن چکا ہوں ،لیکن اس غزل نے مجھ پہ کبھی کوئی اثر نہیں کیا،شاید اس لئے کہ اس کے معنی ،اس کے مفہوم ،اس کے احساسات سے بے خبر تھا۔جیسا کہ شاعر مشرق فرزند کشمیر علامہ اقبال نے کہا کہ ،جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی ، کھلتے ہیں غلاموں پراسرار شہنشاہی ،کے مصداق جب الفاظ کے مطلب،مفہوم،احساسات سمجھ میں آتے ہیں تو زندگی کا حسن حقیقی انداز میں نکھر کر سامنے آتا ہے۔اس فلم نے میرے لئے اس طرح کا کام بھی کیا کہ جیسے راکھ کو ٹٹولا جائے تو اس کی تہہ سے شعلے نمودار ہوکر کر ایک بار پھر بھڑک اٹھتے ہیں۔

فلم حیدر ایک ڈاکٹر کی کہانی ہے جو زخمی حریت پسندوں کا علاج کرتا ہے، بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر کچھ عرصہ مختلف ٹارچر سلز میں رہنے کے بعد فائرنگ کر کے مار دیا جاتا ہے اور اس کی لاش دریائے جہلم میں پھینک دی جاتی ہے،اس کی لاش بارہمولہ کے قریب واقع گاؤں بونیار میں دریا سے نکلتی ہے اور اسے اسی جگہ قبرستان میں دفن کر دیا جاتا ہے۔فلم سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ کشمیریوں کی یہ لڑائی ،ان کی اپنی لڑائی ہے ،ان کا اپنا نصیب ہے اور ان کا اپنا راستہ ہے،اور جس کا مقصد بھی نیک ہے۔فلم میں یہ کہنے کی کوشش بھی کی گئی کہ ا نتقام سے آزادی نہیں مل سکتی۔فلم میں ایسے کئی مناظر اور جملے ہیں جو کشمیریوں کے جذبات کو بیان کرتے ہیں اور دیکھنے والے کے احساسات پر اثر انداز ہوتے ہیں ،مقتول ڈاکٹر کے بیٹے حیدر کے لال چوک میں تقریری انداز کے جملے ہوں ،انڈین مخبر کے ذریعے انڈین فوج کی شناخت پریڈ کے مناظر ہوں،کشمیری ثقافت کی جھلکیاں ہوں،ایسے کئی مناظر ہیں جو دیکھنے والے پر گہرا اثر ڈالتی ہیں تاہم جس منظر نے مجھے سب سے زیادہ اثر انداز کیا وہ کشمیری ڈاکٹر کی بھارتی ٹارچر سیل میں گونجتی آواز ہے،قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو ، کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے۔کشمیر کے ٹارچر سیل کے ماحول میں گونجتی یہ آواز نہایت اثر انگیز ہے اور اس فلم سے اس غزل کا نہایت خوبصورت مفہوم سامنے آتا ہے۔اس فلم کی کہانی سنانے کی نہیں دیکھنے کی ہے کیونکہ اکثر باتیں اس کے اصل ماحول میں ہی سمجھ آتی ہیں۔جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں ، ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے ، مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں ، کو ئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔ فلم سے کشمیریوں کے اس عزم آزادی کو مزید تقویت ملتی ہے کہ وہ حق پر ہیں اور جس کٹھن ترین راستے پہ چلتے ہوئے وہ قربانیاں دے رہے ہیں،آزادی کو ان سے دور رکھنا ممکن نہیں۔یہ معاملہ ہے کیا تم ہی کچھ کہو دوستو ، کیوں نصیب میرا یوں بر سر برباد چلے ،ہم پہ جو گزری وہ گزری تو سہی ، جنت میں رہ کے بھی عذاب جہنم گزار چلے ۔میں بھی گنگنانے کی کوشش کرتا ہوں کہ قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو،مگر ،قفس اداس ہے یارو ،سے آگے آواز نہیں نکل پاتی ۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 612727 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More