جوانی ٗ صحت ٗ اختیار اور وسائل انسان کو
فرعون بنا دیتے ہیں ۔انسان یہ سوچتا ہی نہیں کہ اس نے بھی ایک نہ ایک دن
بڑھاپے کی دہلیز پر اس طرح قدم رکھنا ہے کہ پھر ہر طرف سے مایوسیاں ٗ
پریشانیاں ٗ بیماریاں اور مالی تنگ دستی جیسی مشکلات اسے بھی گھیر لیں گی۔
یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز افسروں کی گردنوں میں ہر لمحے سریا
دکھائی دیتا ہے کئی افسر تو اس قدر مغرور ہیں کہ سلام کا جواب دینا بھی
توہین تصور کرتے ہیں اس لمحے شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن ان کی سریے
والی گردن بھی( اختیارات کی کرسی چھن جانے کے بعد) جھک جائے گی ۔یہ دنیا کی
وہ حقیقت ہے جس کو ہم دیکھتے بھی ہیں لیکن ماتحت ملازمین اور دکھی انسانیت
کے لیے کچھ کرنے کا عزم نہیں رکھتے۔ جب انسان اس قدر خود سر ہوجائے تو اﷲ
اور آخرت کا خوف بھی دل سے نکل جاتا ہے ۔محتسب پنجاب کے عہدے پر ان دنوں
ایک ایسا نیک سیرت انسان ( بیورو کریٹ ) جاوید محمود فائز ہے جس کے دل میں
نہ صرف اﷲ اور آخرت کا خوف ہے بلکہ ان کے چیف سیکرٹری کے دور کو اب بھی لوگ
یاد کرتے ہیں۔ ایک حادثاتی واقعے کی وجہ سے چیف سیکرٹری کے عہدے سے فارغ
کرکے انہیں چند سال پہلے محتسب پنجاب کے عہدے پر فائز کردیا گیا تھا۔اس نیک
سیرت انسان نے اس عہدے کو بھی اپنے بہترین اور عوام دوست فیصلوں سے مقبول
عام بنا دیاہے۔ پنشنروں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نہایت خوبصورت
بات کہی ہے کہ سرکاری افسر عمررسیدہ پنشنروں کے چہروں میں اپنا مستقبل
دیکھیں ۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فل بنچ کی طرف سے واضح فیصلہ ہونے
کے باوجود حکومت پنجاب گروپ انشورنس کی رقم ادا نہیں کررہی جو ریٹائرڈ
ملازمین کی تنخواہوں سے ہر مہینے کاٹی جاتی تھی ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ
ملازمین حکومت پنجاب کے ہوں یا کسی بھی بنک یا پرائیویٹ ادارے کے ہوں ۔ ان
کا معاشی استحصال ہر جگہ بد سے بدترین طریقے سے کیا جاتا ہے ۔ گروپ انشورنس
اس لیے کی جاتی ہے کہ اگر کوئی ملازمین فوت ہوجائے تو لواحقین کو مالی
پریشانیوں سے بچایا جاسکے اگر کوئی شخص خوش قسمتی سے 60 سال کی عمر میں
زندہ رہتے ہوئے ریٹائر ہوجاتا ہے تو گروپ انشورنس کی رقم ریٹائر ملازمین کو
ہر حال میں ملنی چاہیئے کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد مہنگائی اور بے وسائلی کے
ہاتھو ں زندگی بھی موت سے بدتر ہوجاتی ہے۔میں سمجھتا ہوں چیف جسٹس سپریم
کورٹ کو از خود نوٹس لیتے ہوئے تمام موجودہ اور سابقہ ملازمین کو (جو زندہ
ہیں) گروپ انشورنس کی رقم دلوانے کا حکم جاری کرکے لاکھوں بے سہارا اور بے
وسائل ملازمین کی دعائیں لینی چاہیئیں۔اس کے علاوہ جو افراد کسی بھی ایسے
ادارے میں کام نہیں کرتے 60 سال کی عمر کے بعد انہیں بھی حکومت بیت المال
سے کم ازکم ماہانہ 20 ہزار اور یکمشت ایک لاکھ روپے ادا کرے کیونکہ بڑھاپا
سب سے بڑی بیماری ہے کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جوانی میں تو انسان کو خدا
بھی یاد نہیں رہتا لیکن جب انسان بوڑھا ہوجاتا ہے تو اپنے گناہوں پر آنسو
بہاتے بہاتے مسجدوں سے باہر نکلنے کو دل نہیں چاہتا ۔محتسب اعلی پنجاب کی
توجہ کے لیے ایک اور مسئلہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ ملازمین جو اپنے محکموں
سے تعمیر مکان ٗ خرید موٹرسائیکل کے لیے قرض لیتے ہیں اس پر محکمہ ان سے
منافع ٗقرض کی رقم کو انشورڈ بھی کیا جاتاہے تاکہ ملازمین کے فوت ہونے کی
صورت میں قرض نہ ڈوب جائے ۔یہ وہ قرض ہے جو پچاس ہزار یا دو تین لاکھ روپے
تک ہوتا ہے لیکن بنک جس سرمایہ دار کو ایک ارب روپے قرض دیتا ہے ان کا یہ
قرض کیوں نہیں انشورڈ کیا جاتا اگر وہ ڈیفالٹ کرتا ہے تو ایک ارب روپے کی
رقم تو معاف کردی جاتی ہے لیکن ملازمین کو چالیس پچاس ہزار کی رقم معاف
نہیں کی جاتی ۔کیا یہ امر زیادتی کے مترادف نہیں ہے ۔ پھرملازمین کو ریٹائر
کرنے سے پہلے ایک مرتبہ حج اور ایک مرتبہ عمرے کی سعادت حکومت اور اداروں
کی جانب سے فراہم کی جانی چاہیئے کیونکہ پوری زندگی ملازمت کرنے والے چھوٹے
ملازمین کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ اپنے خرچ پر حج کرسکیں ۔اگر
سرکاری ملازمین کو سرکاری ہسپتالوں میں بعد ازریٹائرمنٹ آپریشن اور علاج کی
فری سہولت حاصل ہے تو بنکوں اور دیگر اداروں میں کام کرنے ملازمین کو بھی
یہ سہولت تاحیات ملنی چاہیئے ۔میں یہ بات اعلی افسران سے کہنا چاہتا ہوں جو
اعلی عہدوں پر فائز ہیں اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے اور وہ بھی
ریٹائرمنٹ کے بعد در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں عمررسیدہ اور ریٹائر
ملازمین کو نہ صرف عزت دیں بلکہ ان کی مشکلات کو ہر ممکن ختم کرنے کی جستجو
کریں ۔اس کے لیے چاہے انہیں قوانین ترمیم ہی کیوں نہ کرنی پڑے ۔ایسے خداترس
بیوروکریٹس میں آج ڈاکٹر محمد عارف ٗ جاوید احمد قریشی اور جاوید محمود کا
ذکر تاقیامت ہوتا رہے گا جنہوں نے اپنے ماتحت ملازمین اور عوام الناس کے
لیے مسائل پیدا نہیں کیے بلکہ پیدا کیے جانے والے مسائل کو اپنی کاوشوں سے
حل کرکے دکھایا بھی ہے ۔ |