سکون کے مُتلاشی اِنسان
(Hafiz Abdur Rahim, Banu)
ہندوستانی گلوکار ہنس راج ہنس جِس نے
موسیقی کی دنیا میں بڑا نام کمایا۔ جو کہ ایک وقت کہا کرتا تھا کہ موسیقی
روح کی غذا ہے۔ اور میرے لیے موسیقی وہی مقام رکھتا ہے۔ جس طرح روح کا تعلق
جسم سے ہوتا ہے۔ اِس بندے نے جب اِسلام قبول کیا۔ اور اپنا نام ہنس راج ہنس
سے تبدیل کرکے محمد یوسف رکھا۔زندگی کے ایک اور روپ میں اپنے آپ کو ڈالنے
کے بعد اِس عظیم موسیقار کا کہنا تھا۔ کہ مسلمان ہونے کے بعد میری روح کو
جو سکون مِلا اُسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے سابق مایہ ناز کرِکٹر یوسف یوحنا نے ۲۰۰۵میں دینِ اِسلام قبول
کیا۔ قبولِ اسلام کے بعداپنا نام تبدیل کرکے محمد یوسف رکھا۔
۲۰۰۶ میں سر ویون رچرڈ کا ایک کلینڈرسال میں سب سے زیادہ ۹ سنچریوں کا
ریکارڈ بھی اپنے نام کیا۔یوسف کا کہنا تھا کہ’ ’ اِسلام قبول کرنے سے پہلے
میں اپنے آپ کو ادھورا سمجھ رہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ وہ کونسی کمی ہے۔
جس کی وجہ سے میں نامکمل محسوس کر رہا ہوں ۔ ایک دِن خواب میں دیکھا۔ کہ
ایک دوست مجھے کہہ رہے ہیں مبارک ہو آپ تو مسلمان ہو گئے ہیں ۔ پھر جب سعید
بھائی نے مجھے گلے لگا لیا۔ اِس کے بعد میری دنیا بدل سی گئی۔ نئی روپ میں
مجھے ایک طمانیت کا اِحساس ہوا۔ اور کلمہ طیبہ کا اِقرار کرتے ہی تاریکیاں
روشنیوں میں بدل گئی ‘‘۔
واقعی جس دل میں ایمان کی روشنی آ جائے۔ جس میں ایمان کی بہار داخل ہو
جائے۔ اُس دل کی سابقہ خزانیں ختم ہو جاتی ہیں ۔اُس دل کے اندر نئی کونپلیں
اُبھرنی شروع ہو جاتی ہے۔ حقیقت کا اِدراک تسلیم ہونے لگتا ہے۔رنگوں سے
مُزین دنیا میں مستقبل کی ایک نوید نظر آنی شروع ہو جاتی ہے۔اور انسان کو
اپنے مقصد کا تعین ہو جاتا ہے۔
بھارت کے شہر ممبئی کے جامعہ مسجد میں نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہیں
۔ھالانکہ اسی شہر میں شراب پینے والے بھی بہت زیادہ ہیں ۔ اُن سے جب پوچھا
گیا کہ بھائی آپ تو شراب اور دیگر بُرائیوں میں بھی پیش پیش ہوتے ہیں اور
پھر مسجد میں بھی آپ لوگوں کا اِتنا شوق سے آنا یہ کیسے؟ جواب مِلا کہ ’’
ہم جب مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو مسجد میں ایک روحانی سکون و اِطمینان
مِلتا ہے۔ جو کہیں اور نہیں ملتا۔ گویا صرف روحانی سکون کیلئے مسجد میں
پناہ لیتے ہیں ۔
اﷲ تعالی نے اِنسانوں کو صرف اور صرف اپنی بندگی کیلئے پیدا کیا۔ اور ساتھ
ساتھ فرمایا۔ کہ اے بندوں ! اگر تم میری رضا اور محبت چاہتے ہوں تو تمہارے
لیے ضروری ہے کہ میرے احکامات کی تابعداری کرواور میرے بھیجے ہوئے رسول کا
اِتباع کرو۔رب کائنات کے بھیجے ہوئے کلام کی تلاوت کرو۔اور اس کو اپنے لیے
راہِ عمل بنا لو یہ آپ کیلئے فلاح کا راستہ ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے ۔’’ جو
اسلام کے سوا کسی اور دین کا مُتلاشی ہوگا وہ ہر گز مقبول نہیں ہوگا‘‘ (آل
عمران ۸۵)۔ اب جو گُمراہ لوگ ہیں ، وہ تو منکر ہیں ۔ وہ صرف اس دنیا کو عیش
عشرت کی جگہ سمجھتے ہیں ۔ اُخروی زندگی تو اُسکی ایمانیات اور عقیدے کا حصہ
بھی نہیں ۔ وہ حیات بعد الممات پر یقین بھی نہیں رکھتے۔ لیکن اب اِس مسلمان
کا کیا بنے گا جو اﷲ کے احکامات اور رسولﷺ کے طریقوں کی بجائے اغیار کی
نقالی کو اپنے لیے کامیابی سمجھ بیٹھے ہیں۔ خُلفائے راشدین کی طرزِ حکمرانی
کو اپنے لیے رول ماڈل قرار دینے کی بجائے سوئیزرلینڈ اور اِنگلستان کے
حکمرانوں کو اپنے لیے مشغلِ راہ بنا لیتے ہیں ۔ ہم بحیثیت مجموعی اپنے عظیم
اِسلامی روایات و اقدار، بزرگوں کے نقشِ قدم، اُن کے بتائے ہوئے فرامین کے
خائن بن بیٹھے۔اب ہم اپنے عظیم ربِ کائنات کو ناراض کر سکتے ہیں اور سردارِ
دو جہانﷺ کے سُنتوں کو اپنے لیے شرم اور نالائقی کا باعث سمجھتے ہیں ۔ لیکن
نوبل اِنعام یافتگان کو اپنے لیے مقدم سمجھتے ہیں ۔ ہمارے مسائل اور بے
سکونی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔کہ ہم نے دنیاو دولت ، جاہ و حشمت کے حصول کو
اپنا نصب العین سمجھ لیا۔اپنی خوبصورت نیندوں کو اِن کی نظر کر دیا۔ ہم نے
اپنے رب کے احکامات سے اعراض اور روگردانی کی۔تو ہماری زندگیوں اور ہماری
مال و اولاد سے برکت چلی گئی۔ ہم نے اغیار سے دوستی کیں ۔ تو ہماری پوری
نسل اُن کی تابعدار بن بیٹھی۔ مسلمان کے گھر میں صبح کا سورج طلوع ہوتے ہی
تلاوتِ قرآن کی بجائے موسیقی کا دُھن سُنائی دینے لگا۔ہم نے اپنے گھروں سے
سُکھ و آرام کو خود ختم کیا۔ جب ہم نے اپنے بزرگوں کی سادہ زندگی چھوڑی۔
اور عیش و عشرت کا سامان ڈھونڈنے لگ گئے۔تو ہمارے گھریلوں اخراجات بھی
ہماری آمدنی سے بڑھ گئے۔مال و دولت کے عِوض اپنے عزیز خونی رشتوں کو بھی
قربان کر دیا۔ اپنے بچوں کو اُمہات المومنین کی حیاتِ طیبہ کا درس دینے کی
بجائے ملالہ کا درس دینے لگے۔ اپنی نفس کی عارضی خوشی اور ہِوس بُجھانے
کیلئے دوسروں کے حقوق کا تخت و تاراج کیا۔ جب ہم نے باری تعالٰی سے سوال
کیا کہ یا اﷲ میرے لیے یورپ یا انگلینڈ کا ویزہ لگوا دیں ۔ تو اپنے خوابوں
میں بھی یورپ کی سیر کرنے لگے۔ جِس نے شارٹ کٹ طریقے سے حرام کا مال کمایا۔
وہ انہی سوچوں میں صبح کرتا ہے۔ میرا مال ختم نہ ہو جائے ۔ کہیں میرا
اِحتساب نہ ہو جائے۔خواب آور گولیاں تو اس بچارے پر اثر نہیں کرتیں۔
جب ہم دنیا کے مُتلاشی ہو گئے۔ تو ہمارے اندر اطمینان و سکون ، راحت و خوشی
کی فضا ختم ہو گئی۔ اگر ہم ذاتِ اقدس باری تعالٰی کی رضا کے مُتلاشی ہو
گئے۔ اور اُسی کو اپنا معبود مان گئے۔ تو ہماری زندگیوں میں سکون اور
خوشیوں کی بہاریں لوٹ آئے گی۔
اﷲ کرے کہ ہم اپنی رب کریم کی رضا اور بندگی کو اپنا مقصد بنائیں ۔ |
|