زراعت سے متعلق اسلام کا نظریہ
(Safdar Awan, Faisalabad)
خوراک ہماری ایک ایسی ضرورت ہے
جس کے بغیرہماری زندگی کا تصور بھی ممکن نہیں جب تک ہمیں پیٹ بھر کر کھانے
کو نہ ملے۔ہمارے لئے دینی تقاضے ،مذہبی روایات،سیاسی ذمہ داریاں،اخلاقی
اقدار،عملی نظریات اور سائنسی افکار ہی نہیں بلکہ کائنات کی ہر چیز بے معنی
ہوجاتی ہے۔ایک خالی پیٹ انسان یہ سوچنے لگ جاتا ہے کہ رب العالمین کی ہستی
کہیں ہے بھی یا نہیں۔سرورِکائناتﷺ انسان کی اس نفسیاتی کیفیت سے بخوبی آگاہ
تھے اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا:
’’کَادَالفَقرُ اّن یَّکُونَ کفراََ ‘‘
(فقر آدمی کو کفر کے قریب لا کھڑا کرتا ہے)
اور آپ نے کفر اور فقر کو ایک ہی سیاق میں ذکر فرما کر دونوں سے پناہ مانگی
ہے۔
’’اللّٰھمُِّ انِّی اَعُوذُبِِکَ مِنَ الکُفرِوِ الفَقَرِِ‘‘
(اے اللہ میں کفر اور فقر دونوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں)
اسلامی ریاست کایہ فرض ہے کہ ہر شخص کو پیٹ بھرکھانا مہیا کیا جائے اور وہ
بھی اس بات کا لحاظ کئے بغیر کہ وہ خود اپنے مال سے یا اپنی محنت کے ذریعے
سے اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے البتہ ایسے افراد جو اپنی ضروریات پوری
کرنے کے قابل نہ رہے ہوں انکی ضروریاتِ زندگی کی تکمیل کرے
مثلاََمعذور،کمزور،بیوہ اور یتیم وغیرہ۔
اسلام زیادہ اے زیادہ غذا پیدا کرنے پر زور دیتا ہے ۔
رسولِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:
’’اُطلُبُوالرِّزقَ فی حَبَا یَا اَلارضِ ‘‘
(رزق کو زمین کی تنہاؤں میں تلاش کرو)
حضرت محمدﷺ نے اپنے دست مبارک سے’ جرف‘کے مقام کاشتکاری کی اور قبیلہ اوس
کے سردار حضرت سعد بن معاذؓ کے ہاتھوں میں آپ نے کھیتوں اور نخلستان میں کد
ا ل اور پھاوڑے کی وجہ سے گٹے پڑے ہوئے دیکھے تو آپ ﷺنے ان کے ہاتھوں کو
چوم کر فرمایا:
’’یہ دونوں ہتھیلیاں اﷲ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں‘‘
اسلامی ممالک اپنی وسیع اور زرخیز اراضی کی بدولت اس قابل ہیں کہ نہ صرف
اپنی غزائی ضروریات کو پورا کریں بلکہ اتنا وافر غلہ پیدا کر سکتے ہیں کہ
دوسرے ممالک کو برآمد کیا جائے لیکن دوسرے معاشی ترقی کے شعبوں کی طرح
زراعت کی طرف بھی بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔مثال کے طور پر پاکستان میں
20.33ملین ایکڑ رقبہ ز یرِ کاشت ہے جبکہ 10.80ملین ایکڑقابل کاشت اراضی
بنجر پڑی ہوئی ہے گویا قابلِ کاشت رقبہ میں سے ایک تہائی بنجر ہے اور زیرِ
کاشت اراضی میں بھی زرعی پیداوارکا معیار پست اور فی ایکڑ پیداوار کم ہے جس
کے کئی اسباب ہیں:
۱۔ زمینداری نظام نے زراعت کی ترقی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔زمیندار زرعی
ترقی پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔اسے صرف بٹائی سے غرض ہوتی ہے جو وہ فصل کی
کٹائی کے موقع پر ایک دانہ وصول کر لیتا ہے اور مزار عین بھی زراعت کو ترقی
دینے پر زیادہ محنت نہیں کرتے کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ انکی محنت کا
بڑا حصہ تو زمیندار لے جائے گا۔
۲۔ بنجر رقبے بالعموم بڑے بڑے زمینداروں کے ہوتے ہیں جو خود انھیں آباد
کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اگر کوئی مزارع اسے آباد کرنے کے لئے تیار
ہو تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ آباد ہونے کے بعد وہ رقبہ اس
مزارع کے پاس رہے گا اور زمیندار اس سے لیکر کسی کو نہیں دیگا۔
۳۔ کسانوں کی اکثریت پرانے طریقے سے کھیتی باڑی کرتی ہے جس میں ہل اور
مویشیوں کے ذریعے کاشت کاری کی جاتی ہے۔زراعت کے میدان میں جدید سائنسی
ٹیکنالوجی کو بہت کم استعمال میں لایا جاتا ہے۔
۴۔ کیمیاوی کھاد اور عمدہ قسم کے بیج کے حصول کی طرف کسان کی توجہ نہیں
ہوتی۔
اسلام نے ان تمام مسائل کا حل بتا یا ہے اسلام کے نقطہ نظر سے جس زمین سے
دس من پیداوار نکالنے کی صلاحیت ہو لیکن غفلت اور کاہلی کی وجہ سے دس من کے
نو من ہو تو جس شخص کی وجہ سے پیداوار میں
کمی ہوئی وہ قیامت کے دن ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا کہ مخلوق خدا اس کی وجہ
سے اس روزی سے محروم ہو گئی جو اسے مل سکتی تھی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے پوری ریاست میں یہ فرمان جاری کیا تھا کہ:
’’زمین کو غیر آباد ہر گز نہ چھوڑا جائے اگر کوئی کاشتکار نصف حصہ کی بٹائی
پر اسے آباد کرنے پر تیار نہ ہو تو تہائی پر دے دو ۔ اگر پھر بھی آباد نہ
ہوتودسویں حصے کی شرط پر دے دو۔ پھر بھی کوئی کسی زمین کو آباد نہ کرے تو
لوگوں کو یوں ہی مفت آباد کرنے کے لئے دے دو اوراگر پھر بھی آباد نہ ہوتو
حکومت کے خزانے سے خرچ کر کے غیر آباد زمینوں کو آباد کرو‘‘
اسلام نے زمینداری نظام کو ختم کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے،پاکستان میں
مزارعت کی جو ظالمانہ صورتیں رائج ہیں ان کے جائز ہونے کی دلیل نہیں
ہے۔بنجر زمینوں کی آبادی کی ترغیب دیتے ہوئے حضرت محمد ﷺ نے فرمایا:
’’مَن اِحیَا اَرضََا مَوَاتَا فِھی لَہٗ‘‘
(جس نے بنجر زمین کو آبا دکیا وہ اس کی زمین ہے)
ایک موقعہ پر فرمایا:
’’جس کے پاس زمین ہو ، اسے خود کاشت کرے ،ورنہ اپنے کسی بھائی کو کاشت کرنے
کے لئے بلامعاوضہ دے دے‘‘
اور اگر کوئی شخص نہ تو خود کاشت کرتا ہو نہ کاشت کرواتا ہو بلکہ اس نے
اپنی مملوکہ زمین رکھ چھوڑی ہو تو اس کے بارے میں آپ ﷺ کا رشاد ہے:
’’بے کاشت روک رکھنے والے کا حق تین سال کے معد ساقط ہو جاتا ہے‘‘
گویا جو زمین تین سال تک بنجر پڑی رہے گی اس پر سے ملکیت کا حق ختم ہو جائے
گا اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ کسی بے زمین کاشت کار کو آباد کرنے کے لئے دے
دے۔ اگر ہم اسلام کے ان اصولوں کے مطابق اپنے زرعی نظام کو از سر نو استوار
کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی ضرورت سے زائد غلہ پیدا کر نے کے قابل ہو
جائیں۔لیکن آج کل کے دور کا ایک بڑامسئلہ یہ لے کہ حکومت کے مقرر کردہ اہل
نمائندے جن کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے وہی اپنے مقصد سے پہلو تہی کرتے
ہوئے اور اپنی جیب گرم کرنے کے چکر میں ایمان داری کا ساتھ چھوڑ بیٹھتے ہیں
اور سال کے بعد جب ریکارڈ اپ ڈیٹ کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ رشوت لیکر
زمینداروں کے غیر آباد رقبوں کا اندراج زیرِکاشت رقبہ کے طور پر کر دیتے
ہیں اس طرح وہ اہم اور ذمہ دار حکومتی کارکن حکومت کے ساتھ اور اپنی ذات کے
ساتھ غداری کرتے ہیں اور ایک ایسا غیر اخلاقی جرم کا ارتکاب کرتے ہیں جس کے
بارے میں نہ انھوں نے کبھی سوچا ہوتاہے اور نہ وہ کبھی سوچنا چاہتے ہیں وہ
جرم نا انصافی ہے اورناانصافی بھی ایسے کہ ایک زمیندار کی غیر آباد زمین کو
ریکارڈ میں زیرِ کاشت ظاہرکرتے ہیں جبکہ ایک غریب جو بیچارہ چھوٹے درجے کا
کاشتکا رہوتا ہے اور وہ اس قابل نہیں ہوتا کہ رشوت دے سکے اس کا زیرِ کاشت
رقبہ ناقابلِ کاشت ظاہر کیا جاتا ہے۔ |
|