ٹریفک کے حادثات
(Rubab Faheem , Rawalpindi)
زندگی حادثات ھی کے مجموعے کا د
وسرا نام ھے- زندگی ایسی شاخ ھے جس سے حادثات کے شگوفے پھوٹتے رھتے ہیں یہ
حادثات مختلف انداز سے رونما ھوتے ہیں اسی لیے کوئی نہیں جانتا کونسا وقت
کيا واقعہ رونما کر دے-
؎وقت کرتا ھے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس وقت یہ کالم سپرد قلم کر رھٰي ھو ں 19 سالہ دانش کے نام جو کچھ دن قبل
راولپنڈی کے اھسپتال کے انتہائی نگھد ا شت یونٹ میں وٰينٹی ليٹر پر
نيوروسرجری وارڈ ميں تھا-
دانش بھي نھيں جانتا تھا کہ وقت اس کے ساتھ کيا کھيل کھيلنے لگا ھے وہ ایک
شام اپنے گھر والوں کے سا تھ بيٹھا باتيں کر رھا تھا کہ اتنے ميں اسکے د
وست کا فون آگيا آ جاؤ کھيں جانا ھے،اس نے اپنے گھروالوں سے اجازت لي اور
جانے کی تياری کرنے لگا، کون جنتا تھا کے جا تو اپنے پيروں پر رھا ھے اور
واپسي کس انداز ميں ھوتي ھے-
دانش موٹرسائيکل لے کر نکلا تو راستے ميں اس کا د و ست کھڑا انتظار کر رھا
تھا، وہ بھي سا تھ بيٹھ گيا تھوڑی دور ھی آگے گئے تھے د ونوں کے پيچھے سے ڈ
مپر آرھا تھا انھوں نے موٹرسائيکل ایک طرف کرلي مگر اندھا دھند آگے آتا ھوا
ڈ مپر د و نوں کو کچلتا ھوا آگے نکل گيا-
اردگرد کے لوگوں نے ريسکيو کو کال کر کے دونوں کو سول اھسپتال پھنچا يا
ابتد ا ئی طبی امداد کے بعد وھاں کے ڈ ا کٹرز نے جواب دے ديا د و نو ں کو
قائد اعظم انٹر نيشنل اھسپتال بھيجا گيا جھاں پوری رات گزارنے کے بعد زخموں
کی تاب نہ لاتے ھوئے د م توڑ گئے-
آج کل جن حاد ثوں کا ذکر مقصود ھے انھی ميں سے يہ بھی ایک واقعہ تھا- ایک
محتاط اندازے کے مطابق دنيا ميں ھر سال 25 لا کھ افراد ٹريفک کے ھاتھوں موت
کا نوالہ بنتے ھيں-
پاکستان ميں يہ حادثے روزبروز بڑھ رھے ھيں ان حا د ثوں کی روک تھام کے لئے
ضروری ھے کہ ان کے اسباب پر غور کيا جا ئے اس مادی دور ميں لوگوں کے پاس
دولت کی کثرت کا اندازہ خود سرما يہ داروں کو بھی نھيں ھے – نتيجہ يہ ھے کہ
کاريں اور موٹرسائيکل عام ھيں بے شعور بچے بھی موٹرسائيکل چلاتے نظر آ تے
ھيں بچوں اور لڑکوں کو نہ ٹريفک کے آداب سے واقفيت ھوتی ھے اور نہ ھی انھيں
ڈرائيونگ کے اصول آتے ھيں نتيجہ حاد ثات کی شکل ميں نکلتا ھے، اس کے علا وہ
ڈرائيونگ لائسنس بنوانے کا نظام اس قدر خراب ھے کہ رشرت کے عوض گھر بيٹھے
بغير کسی امتحان کے ڈرائيونگ لائسنس مل سکتا ھے- جب تک ڈرائيونگ لائسنس کا
نظام درست نھيں ھوگا حا د ثا ت کی روک تھام نھيں ھو سکتی- حکومت کو چا ھيے
کہ ڈرائيونگ کی تربيت کے ادارے خود کھولے جب تک اس ادارے کی تصد يق نہ ھو
لائسنس جاری نہ کيا جا ئے-
حاد ثا ت کی ایک بڑی وجہ شھروں ميں تجا وزات کی موجودگی ھے آج کشادہ سڑکيں
بھی اس وجہ سے تنگ ھوگئ ھيں کہ فٹ پا تھ د و کا نيں بن گئے ھيں اور پيدل
چلنے والوں کو مجبورآ وھاں سے گزرنا پڑتا ھے جو تيز رفتاری کے لئے مخصوس
ھيں – يھی غير ذمہ دارانہ عمل ھے جو سڑکوں کو انسانی لھو سے رنگين بنانے
ميں مد د گا ر ثابت ھو تا ھے حالانکہ انسانی لھو اس قدع مقد س ھے کے ایک
بار حضورﷺ نے کعبے کو مخاطب کر کے فرمايا تھا کہ :
“اے کعبہ ! تو مجھے بھت عزيز ھےمگر ياد رکھ اگر ایک طرف تو گرتا ھے اور
دوسری طرف کسی کا خون بھتا ھو تو ميں تجھے چھوڑد وں گا ا ور اس خون کی حفا
ظت کروں گا ”
مگر آج کل پا کستان ميں حاد ثا ت روزمرہ کا معمول بن کر رہ گئے ھيں کسی دن
کا کوئی اخبار بھی ان خبروں سے خالی نھيں ھوتا-
؎کيوں حا د ثا ت روز کا معمول بن گئے ھيں
ھر شخص اپنے فرض سے غافل ھے آج کل
حاد ثا ت کے مرتکب ڈ رائيوروں کو سزا د ينے کا عمل اس قد ر صبر آزما ھے کہ
فيصلے کے وقت اصل مقصد نگاھوں سے اوجھل ھو جا تا ھے قانون ميں اس قدر جھول
ھے کہ ایک ڈ رائيور قتل عام کر کے عموما بچ جاتا ھے کھبی ایسا نھيں ھوا کہ
کسی حا د ثے کے مرتکب ڈ رائيورکو بھی سزا موت ملے تو با قی ڈ رائيوروں کو
بھی ھوش کا د ا من تھا منے کا سبق ملے - ڈ رائيور تو سٹيرنگ پر ھاتھ رکھتے
ھی ھوا کے گھوڑے پر سوار ھو جا تے ھيں اور سواريوں کی دھن ميں ایک دوسرے سے
آگے نکلنے کی سعی ميں اکثر بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتر جاتے ھيں-
آج کوئی گاڑی ،ٹيکسی،بس ايسی نھيں جس ميں ريڈيو موجود نہ ھو- گا نے ھر لمحہ
ساتھ ساتھ چلتے ھيں،آواز کی دلکشی ڈرائيور کی توجہ ميں خلل ڈ ا ل کر حاد ثا
ت کا باعث بن جا تی ھے اور تيز رفتاری بھی حاد ثا ت کا ایک بڑا سبب ھے- اس
سلسلے ميں چيکنگ کے لئے افسران ھونے چاھيں ھيں جن کی شھرت بے د ا غ ھو، اس
کے ساتھ ھی لوگوں ميں آداب کا صيھح شعور بھی پيدا کرنا چاھيے –
دفتروں،سکولوں اور کالجوں کے اوقات عموما ایک ساتھ شروع ھوتے اور ختم ھوتے
ھيں- اس طرح ان اوقات ميں بھی ٹريفک کا ھجوم بڑھ جاتا ھے اور حاد ثا ت کا
باعث بن جا تا ھے-
حکومت کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی اپنے فرائض کا احساس ھونا چاھيے ،انسانی
لھو بھرحال ایک مقدس امانت ھے –سڑکوں پر اس کی رسوائی،انسانيت کی تذليل ھے
جب تک ھم سب مل کر اس چيلنج کو قبول نھيں کريں گے اس وقت تک حادثات بد ستور
تقليف دہ رھيں گے-
ٹريفک کے حاد ثوں نےترقی يافتہ دنيا ميں حيات انسانی کو اس قدر غير محفوظ
کر ديا ھے کہ دلوں کا سکون ختم ھو کر رہ گيا ھے گھر سے باھر قدم رکھتے ھی
ایک بے نام سا خوف قلب و نظر پر چھا جاتا ھے انسان پيدل ھو يا سوار جب تک
لوٹ کت گھر ميں قدم نہ رکھ لے دل پريشان سا رھتا ھے-
کا ش يہ ڈرائيور سمجھ سکتے کہ ان کی يہ تيز رفتاری اور ایک دوسرے کو پيچھے
چھوڑنے کا جنون کتنی ھی ھنستی مسکراتی زند گيوں کو موت کے سنا ٹوں ميں اتار
ديتا ھے- اب ٹرانسپورٹ سروس نے شرح رفتار مقرر کر دی ھےاور مختلف جگہ رفتار
کی حد لکھی ھوتی ھےاور ڈرائيور کو تنبھہ کی جا تی ھے کہ وہ اس حد سے نہ
بڑھے- ایک ذ را سی احتياط ھزاروں بچوں کو ماں باپ کی شفقت سے محروم اور بھت
سے افراد کو معذ ور و لا وارث ھونے سے بچا سکتی ھے-
الغرض جب تک عوام ميں آداب سفر کا صيحح ذوق پيدا نھيں ھوگا،بس کے ڈرائيوروں
کے اندر خدا کا خوف نھيں ابھرے گا، ڈرائيور تر بيت يافتہ اورانسان دوست
نھيں ھوں گے اور جانچ پڑتال کا نطام درست نھيں ھوگا اس وقت تک شاھراھون کا
يہ قتل عام نھيں رک سکتا-
خدا ھميں نظم و ضبط اور قانوں کی پابندی کی توفيق عطا کرے – آمين ! |
|