اخلاقی انحطاط! کیوں؟

وہ ایک عمر رسیدہ شخص تھا۔ ہاتھوں میں سیب کا شاپر لئے وہ وہیل چیئر بیٹھا ٹریفک سگنلز کے بند ہونے کا منتظر تھا تاکہ سڑک کو کراس کرسکے۔ کچھ دیر کے بعد اس کے طرف والی لائٹس ریڈ(سرخ)ہوگئی اس نے جلدی سے زیبرا کراسنگ پر اپنی وہیل چیئر چلانے شروع کی ابھی درمیان میں ہی تھا کہ اس کے ہاتھ سے سیبوں والا شاپر چھوٹ گیا اور سیب سڑک کے چاروں طرف بکھر گئے۔ اس نے بے بسی سے ادھر ادھر دیکھا دور دور تک گاڑیوں کی لمبی لائنز بتی سبز ہونیکی منتظر تھی۔ اس نے ماحول اور حالات کا جائزہ لینے کے بعد یہی بہتر جانا کہ سیب اٹھائے بغیر، ٹریفک کو ڈسٹرب کئے بغیر اور عوام کو پریشانی میں ڈالے بغیر چپ چاپ سڑک کراس کرلے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ بکھرے سیب سمیٹنے کیلئے اسے کم از کم 5 منٹ درکار تھے اور اتنی دیرتک ٹریفک نہیں رک سکتی تھی۔ پس اس نے چشم نم سے بکھرے سیبوں کو دیکھا اور بقیہ ماندہ سڑک کراس کرنا شروع کی۔ڈیجیٹل ٹریفک سگنلز پر لگی گھڑی سے سیکنڈز تیزی گررہے تھے اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ٹریفک کے رواں ہونے پر سیبوں کی کیا حالت ہونا تھی مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق وہ چل دیا۔

اسی دوران آس پاس کی گاڑیوں میں بیٹھے جولوگ یہ منظر دیکھ رہے تھے ان میں سے چند اپنی گاڑیوں سے نکلے۔انہوں نے چاروں طرف بکھرے سیب چنے شاپر میں ڈالے اور پھر وہ شاپر اس بوڑھے شخص کے حوالے کردیا جو کہ اب تک سڑک کراس کرچکا تھا۔اب اس کی آنکھیں میں موجود آنسوؤں میں خوشی کی چمک تھی۔ بات یہیں پر موقوف نہیں یہ سب منظرسگنلز ڈیوٹی پر موجود ٹریفک کانسٹیبل بھی دیکھ رہا تھا ۔اسی دوران نیلی بتی جل چکی تھی۔ اس نے بتی کے سبز ہونے سے پہلے ہی بٹن دبادیا تاکہ سبز بتی نہ جل سکے اور سیب چننے والے لوگ سیب سمیٹ کر بوڑھے کے حوالے کردیں۔ یہ سب تقریبا ایک منٹ میں وقوع پذیر ہوا۔مذکور ہ بالا تحریر ایک سٹوری دکھائی دیتی ہے تاہم اس میں ہر شخص نے انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ بوڑھے شخص نے یہ سوچتے ہوئے اپنے سیبوں کی قربانی دی کہ میری وجہ سے عوام مسافر اور ٹریفک اہلکار پریشان نہ ہوں۔ ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ نہ آئے۔ دوسری طرف مسافروں نے ایک معذور بے بس اور مجبور شخص کی لاچاری دیکھ کر اپنی اپنی استطاعت کے مطابق سیبوں کو چننے میں اپنا حصہ ڈالا اور تیسری جانب ٹریفک اہلکار نے انسانیت اور اخلاقیات کو مقدم رکھتے ہوئے چند سیکنڈز کیلئے ٹریفک کو روک کر اپنا حصہ ڈال دیا

یہ واقعی کہانی معلوم ہوتی ہے لیکن ایسی کہانیاں ہمارے معاشرے میں، پاکستانی معاشرے میں کیوں دکھائی نہیں دیتیں۔یہاں تو انسان کو انسان سمجھنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف بنتا جارہا ہے ہر شخص دوسرے کے کپڑے پھاڑنے اور اتارنے پر تیار بیٹھا ہے کوئی ایک کسی دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔تو پھر یہ کونسے معاشر ے ہیں جہان انسانی احساسات کو انسانیت کی کسوٹی پرپرکھا جاتا ہے ہمارے معاشرے میں انسان جانورں سے بھی بدتر معلوم ہوتے ہیں کہ کبھی معصوم کلیوں کو مسل ڈالتے ہیں تو کبھی بیگناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے کبھی مسیحی جوڑے کو بٹھے میں زندہ جلادینے والا اندوہ ناک اور غیر انسانی واقعہ پیش آتا ہے تو کبھی اقربا پروری اور کرپشن کی بنا پر ایسے نااہل اور اناڑی ڈرائیورزکو انسان کو مارنے کے لائسنس جاری کردیئے جاتے ہیں اور پھر خیر پور میں 60 کے قریب انسانی جانوں کو بے حسی کی بھینٹ چڑھادیا جاتا ہے۔ہائی وے والے اپنے مفادات کی خاطر اور ٹھیکیدار اپنے بنک بیلنس کو بڑھانے کی خاطر ناقص میٹریل استعمال کرتے اور کرواتے ہیں جس سے روڈ ابتری کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر حادثات کا سبب بنتے ہیں لیکن یہاں پروکوئی بھی ایسا نہیں جو ان سے پوچھ سکے تحقیق کرسکے بازپرس اور سرزنش کرسکے گناہ گار کو گناہ گار ٹھہرا سکے اور اسے کیفرکردار تک پہنچاسکے۔ سب مصلحتوں میں قید ایک دوسرے کے کانے ہیں۔معاشرہ بے حسی بے راہ روی کا شکار ہوچکاہے ۔ اخلاقیات اور اخلاص ہمارے اعمال و کردار سے غائب ہوچکاہے۔اخلاقی انحطاط روز بروز ہم پر غالب آتا جارہا ہے۔نجانے کیوں ہم میں وہ شعور و آگہی نہ آسکی کہ جس کی بنا پر ہم پوری کائنات میں مشہور و معروف تھے۔متعدد غیر مسلم مفکروں اور دانشوروں نے بھی اسلام اور ہماری تعلیمات کو دنیا کی بہترین تعلیمات قرار دیا ہے۔ انہیں قابل ستائش اور ترقی کا زینہ کہا گیا۔ اس بات کی بھی تائید کی گئی کہ اسلامی تعلیمات اور باعمل مسلم معاشرہ اخلاقیات اور انسانی اقدار کی بہترین شکل ہے اور اس کے پیروکار کا اخلاقی مورال نہایت ہی حدتک بلند ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں وہی عروج حاصل کرنے کیلئے اپنی صفوں کو سدھارنے کی ضرورت ہے اور صفیں اس وقت سدھرتی ہیں جب انسان خود اپنے کندھوں کو دوسرے کے کندھوں سے ملاتا اور جوڑتا ہے۔حاصل گفتگو یہ ہے کہ معاشرے میں سدھار لانے کیلئے ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تبھی ہمارا معاشرہ ایک انسان دوست اور اخلاقی اقدار سے مزین معاشرہ بن سکتا ہے اور ہماری شناخت باقی رہ سکتی ہے-
liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 211758 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More