تحریر ۔۔۔۔فضل خالق خان
نومبر کو سوات سے کراچی جانے والی ایک مسا فر کوچ خیرپور سندھ میں خوفنا ک
حادثے کا شکار ہوئی جس میں 60 کے قریب مسافر جاں بحق اور 10 کے قریب افراد
شدید زخمی ہوگئے جن میں سے بیشتر کی حالت اب بھی تشویش ناک ہے جن کا علاج
مختلف اسپتالوں میں ہورہا ہے ، اس وقت اگرچہ حکومت نے تمام جاں بحق افراد
کی لاشوں اور زخمیوں کواسپتا لوں میں منتقل کرنے سے لے کر ان کی میتیں
گھروں تک پہنچانے کیلئے بہتر انتظامات کئے ،اور لواحقین کو اس غم کی کیفیت
سے نکالنے کیلئے کئے گئے اقدامات پر ذمہ داران کو لائق تحسین پیش نہ کرنا
یقینا زیادتی ہوگی،اس حوالے سے موصولہ اطلاعات کے مطابق سب سے ایکٹیو رول
جس نے ادا کیا ہے وہ سوات کے آپریشنل کمانڈرمیجر جنرل جاوید بخاری کا ہے
جنہوں نے حادثہ کی اطلاع ملتے ہی فوری طورپر پاکستان ائر فورس سے رابطہ
کرکے انہیں میتیں آبائی علاقوں تک پہنچانے کی درخواست کی جس پر عمل درآمد
شروع ہوتے ہی پاک فوج کے سی ون تھرٹی طیاروں کے ذریعے میتوں کو سوات
پہنچانے کی خبر دی گئی لیکن بعدا زاں رات ہونے کی بناء پر ان میتوں کو
رسالپور چھاؤنی تک پہنچانے کے بعد ایمولینسوں کے ذریعے متقل کیا گیا ،خیر
پور بس حادثہ سوات کی تاریخ میں ٹریفک حادثوں کے حوالے سے سب سے بڑ اسانحہ
ہے،اس سے قبل سوات میں عسکریت پسندی کے دوران بھی بے تحاشہ اموات ہوئے بڑے
بڑے حادثات رونما ہوئیں لیکن حالیہ حادثہ اپنی نوعیت کے اعتبا ر سے زیادہ
دلخراش ہے کیونکہ اس میں یا تو پورے خاندان کا صفایا ہوگیا یا نشانی کی
طورپرا یک فرد زندہ اور باقی پیوند خاک ہوگئے،اس کے علاوہ کئی گھروں سے بیک
وقت کئی کئی جنازے اُٹھنے پر ہر علاقے میں صف ماتم بچھی رہی اور لوگ دھاڑیں
مار مار کر اپنے پیاروں کو منوں مٹی تلے دباتے رہے اور آج کئی دن گزرنے کے
باؤجود پورے سوات کی فضا سوگوار ہے ،متاثرہ خاندانوں میں سے خوازہ خیلہ اور
بحرین میں ایک ہی گھر سے پانچ جنازے اُٹھے،مدین کے علاقہ بشیگرام میں ایک
ہی خاندان کے 6اور دوسرے خاندان کے 7 افراد پیوند خاک ہوئے اسی طرح تحصیل
بحرین میں مجموعی طورپرحادثے کے 19 شہداء کو مٹی کے حوالے کیا گیا،ا س
دلخراش واقعہ پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہوگا سوات میں موجود پاک فوج
کے افسران نے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھائی اور خیرپور سے لاشوں کوآبائی
علاقوں تک منتقلی سے لے کران کے جنازوں میں شرکت تک تمام اقدامات لائق
تحسین رہے لیکن افسو س ناک امر یہ ہے کہ اتنا بڑا سانحہ ہوا ،60کے قریب
قیمتی جانیں ضائع ہوئیں لیکن تاحال نہ سند ھ حکومت کی جانب سے نہ مرکز ی
حکومت کی جانب سے اور نہ خیبر پختون خوا کی حکومت نے ان متاثرین کی دلجوئی
کیلئے کسی قسم کی مالی امداد کا اعلان کیا حتیٰ کہ اتنا بڑا سانحہ ہونے کے
باؤجود تاحال کسی مرکزی یا صوبائی حکومت کے اعلیٰ ذمہ داروں میں سے کسی نے
ان غم زدہ خاندانوں کے ساتھ براہ راست پُرسہ کیا ہو، سوات کے عوام اس با ت
پر بجا شاکی ہیں کہ جب پنجاب اور دیگر علاقوں میں کوئی بم دھماکہ یا ٹریفک
حادثہ ہوتا ہے تو فوری طورپر سب سے پہلے متوفین اور زخمیوں کے لئے امدادی
اعلانات کئے جاتے ہیں ،انسانی جان کا نعم البدل مالی امداد یادیگر لوازمات
ہر گز نہیں ہوسکتے ہیں لیکن اس سے صرف اتنا ہوسکتا ہے کہ متاثرہ خاندانوں
کا غم ہلکاکر نے کا سبب ضرور بنتا ہے لیکن خیبر پختونخوا باالخصوص سوات کے
عوام کی یہ شروع سے بدقسمتی رہی ہے کہ آج تک عسکریت پسندی سے لے کر سیلاب
میں ہونے ولے نقصانات سمیت دیگر مواقع پر ان کی کماحقہ دلجوئی نہ ہوسکی ،اب
حالیہ واقعہ میں بھی حکومتی ذمہ دارن چاہے وہ سندھ حکومت ہو وفاق ہو یا
خیبرپختونخوا کے تبدیلی کے دعویدار ہوں کسی نے بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں
کی،اﷲ بخشے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو جنہوں نے ایک تعز یتی
بیان جاری کرکے کم ازکم اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے باقی اﷲ اﷲ خیر
صلا!ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حادثہ کے فوری بعد ان متاثرہ خاندانوں کی
دلجوئی کیلئے فوری طورپر معاوضوں کا اعلان کیا جاتا اس کے علاوہ اس حادثہ
میں جاں بحق افراد کا سامان جو حادثے کے بعد نجانے کہاں چلاگیا ہے اس کی
بحفاظت واپسی کے حوالے سے بھی تحفظات ہیں ،لواحقین کے مطابق ا ن کے تمام
مسافروں کے پاس قیمتی سامان جس میں عمر بھر کی جمع پونجی جو نقدی اور
زیورات کی شکل میں تھی اس کے علاوہ دیگر سامانِ زندگی جو وہ اپنے ساتھ لے
کر جارہے تھے کا کہیں پتہ نہیں چل رہا ہے جس پر حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے
کہ وہ ان غم زدہ خاندانوں کی زخموں پر مرہم پٹی کرتے ہوئے انہیں فوری طورپر
معاوضوں سمیت انکے سامان کی واپسی کوبھی یقینی بنائیں بصورت دیگر سوات کے
عوام کی یہ محرومی بڑھتی جائے گی کہ سوات دیگر پاکستان سے علیحدہ کوئی خطہ
ہے جس کے مرنے والوں سے حکومت کو کوئی سروکار نہیں بس انکے نام پر آنے والی
بیرونی امداد پر حکمرانوں کے محل چلیں گے اور اور انکے بچے عیش کرتے رہیں
گے۔ |