نسیم احمد غازی فلاحی
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مصری کو ایک گھونسہ رسید کردیا جس کی وجہ سے
اس کی موت واقع ہوگئی۔ موسیؑ اس اندیشے کی وجہ سے کہ کہیں اس جرم کی پاداش
میں انہیں پکڑ نہ لیا جائے، مصر سے نکل کھڑے ہوئے اور مدین جا پہنچے۔ بستی
میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ بستی کے لوگ ایک کنویں پر اپنے جانوروں
کو پانی پلارہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ دو لڑکیاں اپنے جانوروں کی
رسیاں پکڑے ایک طرف کھڑی ہوئی ہیں، جبکہ ان کے جانور پانی پینے کے لیے
کنویں کی جانب بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ حضرت موسیؑ نے ان لڑکیوں سے دریافت
کیا کہ وہ اپنے جانوروں کو پانی کیوں نہیں پلادیتیں۔ وہ بولیں کہ ہم اس وقت
تک پانی نہیں پلا سکتے جب تک کہ چرواہے لوگ اپنے جانوروں کو پانی نہ پلالیں۔
ان لڑکیوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے والد بہت ضعیف ہیں، اس لیے انہیں ہی
جانوروں کو پانی پلانے کے لیے آنا پڑتا ہے۔
موسیؑ پورا ماجرا سمجھ گئے اور انہوں نے ان لڑکیوں کے جانوروں کو لے جاکر
پانی پلا دیا۔ لڑکیاں جانوروں کو لے کر گھر پہنچیں اور اپنے والد کو یہ
واقعہ سنایا۔ انہوں نے موسیؑ کو اپنے گھر بلوالیا اور ان سے ان کا تعارف
حاصل کیا۔ ان لڑکیوں میں سے ایک نے اپنے والد سے کہا کہ اس نوجوان کومزدوری
پر رکھ لیجئے۔ اس لڑکی نے یہ بھی کہا کہ مزدوری پر رکھنے کے لیے بہترین شخص
وہ ہے جو قوی اور امین ہو۔ چنانچہ ان کے والد نے نہ صرف موسیؑ کو مزدوری پر
رکھ لیابلکہ اپنی ایک بیٹی کا نکاح بھی ان کے ساتھ کردیا۔
یہ واقعہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے، جو اس سرزمین پر پیش آیا ہے۔
اس طرح کے اور اس سے ملتے جلتے واقعات آج بھی پیش آتے رہتے ہیں، بس ضرورت
ہے آنکھیں کھلی رکھنے کی اور آنکھیں کھول کر دیکھنے کی۔
قرآن مجید میں یہ واقعہ صرف ایک تاریخی واقعے کے طور پر بیان نہیں کیا گیا
ہے، بلکہ اس میں بڑی حکمتیں اور مفید جانکاریاں پوشیدہ ہیں نیزانسان کی
کامیابی کے لیے کچھ اہم اوصاف خدا نے یہاں بیان فرمائے ہیں۔ اور وہی اس
واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد بھی ہیں۔
موسیؑ مدین میں ایک اجنبی کی حیثیت سے بے سروسامانی کی حالت میں پہنچتے ہیں۔
انہیں خود نہیں معلوم کہ اس بستی کے لوگ ان کے ساتھ کیا معاملہ کریں گے اور
ان کا مسئلہ یہاں حل ہوگا بھی یا نہیں۔ہاں، وہ اپنے رب سے مدد اور رہنمائی
کی التجا ضرور کرتے ہیں۔مگرکسم پرسی کی اس حالت میں بھی انہیں اپنی ذمہ
داری کا پورا احساس ہے اور اسی احساس ذمہ داری کے تحت وہ ان مظلوم لڑکیوں
کی خود سے آگے بڑھ کر مدد کرتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ مدد بالکل بے لوث
اور بے غرض ہے۔ ان کا یہی کردار ان کے لیے آگے کی راہیں کھولنے کا سبب بن
جاتا ہے۔ اگر موسی ؑ ان لڑکیوں کی بے لوث مدد نہ کرتے یا مدد کے عوض میں
اجرت طلب کرتے تو کیا ان کو وہ صلہ مل سکتا تھا جو ملا ۔
خصوصاََ نوجوانوں کے لیے اس واقعے میں سنہری سبق یہ ہے کہ وہ لوگوں کی خدمت
کو اپنا شیوہ بنائیں اور بے غرضی وبے لوثی کے ساتھ بلا لحاظ مذہب وملت ان
لوگوں کی مدد کریں جو آپ کی مدد کے مستحق ہیں۔ ایسے لوگ آپ کو سماج میں ہر
طرف مل جائیں گے ۔سفر میں بھی اور حضر میں بھی ۔بازار میں بھی اور ہسپتال
اور کورٹ کچہری، اسکول کالج اور دفاتر میں بھی ۔یہ کردار یقینا آپ کی راہیں
دنیا وآخرت میں کشادہ کرے گا۔کامیابی اسی کردار میں پوشیدہ ہے ۔
ہزاروں سال قبل پیش آئے اس واقعے میں اﷲ تعالی نے ایک لڑکی کی زبان سے دو
ایسے سنہری اوصاف بیان کرادیے جو رہتی دنیا تک کامیابی اور کامرانی کی
ضمانت ہوں گے۔ان میں پہلی صفت ہے قوت اور دوسری ہے امانت۔ قوت کا مطلب ہے
کام کرنے کی طاقت، صلاحیت وقابلیت اور امانت کا مطلب ہے ایمان داری،
سچائی،بھروسہ اور وفاداری۔یعنی آدمی اپنے کام میں مہارت بھی رکھتا ہو اور
وہ کام ایمانداری اور سچائی کے ساتھ انجام دیتا ہو۔ اگر ہمارے نوجوان
مندرجہ بالاان تینوں صفات کو اپنے اندر پیدا کرلیں تو ان شاء اﷲ دنیا کی
راہیں بھی ان پر کھلیں گی اور آخرت کی کامیابی بھی ان کے حصے میں آئے گی
قرآن مجید میں وہ تمام اصول اور وہ تمام اوصاف مختلف پیرایوں میں بیان کر
دیے گئے ہیں جنہیں اپنا کر انسان اس دنیا میں کامیاب زندگی گزار سکتا ہے
اور آخرت میں اﷲ تعالی کی جانب سے اجر عظیم کا مستحق ہو سکتا ہے۔ بس ضرورت
ہے کہ ہم قرآن مجید کو آنکھیں کھول کر پڑھیں، سر اور دل ودماغ کی آنکھیں،
اور قرآنی اصولوں اور اوصاف کو اپنا کر ان کی برکات اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
کامیابی کے تین قرآنی نکات:
(۱) ضرورت مندوں کی خود سے آگے بڑھ کربے لوث خدمت کرنا۔
(۲) اپنے کام میں مہارت ،قابلیت، صلاحیت اور قوت اپنے اندر پیدا کرنا ۔
(۳) امانت داری، سچائی،بھروسہ اور دیانت داری کو اپنا شیوہ بنانا۔
اگر یہ صفات اپنے اندر پیدا کر لی جائیں تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ
آپ کو کامیابی کے پیچھے نہیں دوڑنا پڑے گا بلکہ کامیابی خود آپ کے پیچھے
دوڑے گی ۔
سبق پڑھ پھر صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا |