شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے

کہا جاتا ہے کہ انسان ایک معاشرتی حیوان ہے ۔انسان اکیلے زندگی نہیں گزار سکتا ۔ اسے ہر موڑ پر سہارے کی ضرورت رہتی ہے ۔ کچھ یہی حال ایک ملک کا بھی ہوتا ہے ۔ کوئی ملک بھی دوسرے ممالک سے کٹ کر اکیلا نہیں رہ سکتا ۔ معاشی ترقی کے لیے بالخصوص دوسرے ممالک سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں ۔ لیکن یہاں ایک فرق یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے تعلقات ِ عامہ کے ساتھ ساتھ اس قوم کی عزت اور وقار بھی بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اسی عز ت اور وقار کی بدولت وہ اقوام ِعالم میں اپنی بات منوا سکتا ہے ۔ اور یہ اس وقت ممکن ہوتا ہے جب ملکی معیشت مضبوط ہو ۔ ملک میں امن وامان ہو ۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بحیثیت قوم وہ وقار اور عزت کھو چکے ہیں جو کبھی ہمارا خاصہ تھی ۔ جس کی بدولت اقوام ِعالم میں ہمارے نقطہ ء نظر کو اہمیت دی جاتی تھی ۔ اس بدحالی کا سبب ہمارے معاشرے میں پھیلتا ہو ا کرپشن کا ناسور ہے ۔یہاں مجھے فن لینڈ کے سفیر کی یہ بات یاد آتی ہے ۔ اس نے کہا
"کسی زمانے میں پاکستان ہمارا آئیڈیل ہوتا تھا ہمیں ہر طرح کی مدد دیتا تھا لیکن آج ہم اس کی مدد کر رہے ہیں "

قوموں کی زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ۔ لیکن وہ قومیں جو خود پر انحصار کرتی ہیں اقوام ِعالم میں ان کا سر ہمیشہ بلند رہتا ہے ۔ایسی قومیں جوخود پر انحصار کرنے کی بجائے دوسری قوموں پر انحصار کرنے لگتی ہیں وہ اقوام ِعالم میں آہستہ آہستہ اپنا مقام کھو دیتی ہیں ۔ کچھ یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے ۔ ابھی چند برس پہلے تک پاکستان پوری دنیا میں ایک عزت ایک مقام رکھتا تھا ۔لیکن اب دہشت گردی ، کرپشن کی صورت کلنک کے ٹیکے ماتھے پر سجائے ہم اپنی وہ حیثیت وہ مقام کھو چکے ہیں ۔

اگر ہم وطن ِعزیز کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ایک بات صاف نظر آتی ہے کہ ہمارے ملک میں رہنماوؤں نے ہمیشہ اپنے مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی ۔بیرون ِملک یہ سیاست دان اپنے بینک اکاؤنٹس کو بھرتے رہے اور ملکی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبتی رہی ۔ چاہے وہ بار بار حکومت کی تبدیل ہو یا پھر مارشل لا ء کا نفاذ دونوں صورتوں میں ملکی مفاد کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی مفاد کو مدِنظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے گئے ۔ آمریت میں ملکی مفاد اور عوام کو اظہار ِ رائے تک کی اجازت نہیں دی جاتی جبکہ جمہوریت کی صورت میں عوام کا ووٹ اور عوام کی حمایت لے کر منتخب ہونے والے سیاست دان جب اقتدار میں آتے ہیں تو عوام کو یادکر نا ان کے مسائل حل کرنا تو درکنار وہ روپیہ کمانے کے چکر میں ملکی مفاد تک کا سودا کر بیٹھتے ہیں ۔لیکن بات صرف اشرافیہ تک محدود نہیں عوام بھی اس میں برابر کے شریک ہیں ۔ کیونکہ عوام بار بار جانتے بوجھتے انہی سیاست دونوں کو ووٹ دیتے ہیں ۔ اور وہی لوگ پھر سے اقتدار کی کرسی پر آن بیٹھتے ہیں ۔جاگیر دارانہ نظام کا شکار عوام ،ان وڈیروں کے علاوہ کسی کو چننے کی بہت کم جرات کرتے ہیں ۔کئی بار آزمائے گئے لوگوں کو پھر سے منتخب کرنے والے اس احساس سے عاری ہیں کہ یہ لوگ ان کے لیے کچھ نہیں کریں گے سوائے وعدوؤں کے ۔

بات صرف ووٹ کے استعمال تک محدود ں نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کے جیسے عوام ہوتے ہیں اسی طرح کے حکمران ان پر نافذ کیے جاتے ہیں ۔ ہم بڑی آسانی کے ساتھ دوسروں کو موردِالزام ٹھراتے ہیں اور خود اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں جھانکنا نہیں چاہتے ۔آج کل جس کو دیکھا جائے وہ حکومت کی کرپشن کے بارے میں گلہ کرتا نظر آتا ہے ۔ہر شخص یہ رونا روتا نظر آتا ہے کہ حکومت نے فلاں جگہ کرپشن کی فلاں جگہ بد عنوانی کی ۔فلاں جگہ کرپشن ہوئی ۔

لیکن اگر دیکھا جائے تو حکمران طبقے سے لے کر عوام تک ، ایک ریڑھی والے سے لے کر ایک وزیر تک سب کے ہاتھ کرپشن سے رنگے ہوئے ہیں ۔ اگرایک ریڑھی والے کو دیکھا جائے تو وہ سامنے صاف لیکن گندہ فروٹ اس صاف فروٹ کے نیچے رکھا ہے اور نظر بچا کر وہ گاہک کو صاف فروٹ کے داموں میں فروخت کرتا دیتا ہے ۔یہ بھی توچھوٹی سطح کی کرپشن ہیں ۔ اگر کسی آفس کا جائزہ لیں تو اس طرح کی کئی مثالیں آپ کو مل جائیں گی ۔ ہر سطح پر ، ہر شخص چاہتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں ڈنڈی مار لے اور کام دوسروں کے سر پر ڈال دے ۔یہی حال طالبِ علموں کا بھی ہے وہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ وقت جو تعلیم کے لیے مختص ہے اسے کھیل کود میں ضائع کریں اور والدین اور اساتذہ کی آنکھوں میں کسی طرح دھول جھونک کر اپنا وقت برباد کر دیں ۔کنٹونمٹ بورڈ کا سؤپر بھی اس وقت تک گلیوں کی صفائی نہیں کرتا جب تک کہ محلے دار اس کو الگ سے پیسے نہ دیں یہ بھی تو ایک طرح کی کرپشن ہے جس کا کسی کو ادراک تک نہیں ۔ایک ایسا شخص جو خود کرپشن کرتا ہو کسی دوسرے کو کرپشن سے نہ تو روک سکتا ہے اور نہ ہی ملکی سطح پر ہونے والی کرپشن کا گلہ کرنا کسی طور جائز نہیں ہے ۔ تبدیلی ہمیشہ خود سے اور نچلے طبقے سے شروع ہوتی ہے ۔اگر ہر سطح پر ہر شخص اپنا محاسبہ کرے ، کرپشن کو ہر سطح سے ختم کیا جائے تو ملکی سطح پریہ ناسور خود بخود ختم ہو جائے گا ۔اگر ہر شخص اپنے انفرادی عمل کو دیکھے تو سبھی اپنی اپنی جگہ خود سے نظریں اٹھا نہیں پائیں گے اور سبھی کے سر شرم سے جھک جائیں گے ۔ وہ کوئی ریڑھی بان ہو یا گریڈ بائیس کا افسرسیاستدان ہو یا کسی دفتر کا چپڑاسی ، ہر کوئی اپنی اپنی جگہ مجرم ہے اور جس کو جہاں بن پڑتا ہے وہاں وہ کرپشن یا دو نمبری کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا ۔

ہم بحیثیت قوم ہر سطح پر بدعنوانی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ انفرادی سطح پر کوئی بھی اپنے آپ کو سدھارنا نہیں چاہتا ۔ ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے اور ہمارے حالات کو بدل دے ۔ کوئی جادو کی چھڑی گھمائی جائے اور سب ٹھیک ہو جائے لیکن عملی طور پر کوئی کچھ کرنے کو تیار نہیں ۔ تو یاد رکھیں کوئی مسیحا ، کوئی ابنِ مریم اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھے ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اگر ہمیں اس ملک کی حالت بدلنا ہے تو انفرادی سطح پر ہر ایک کو خود کو بدلنا ہو گا ۔ ملک کی حالتِ زار کو سدھارنے کے لیے ہر ہر شخص کواپنی سطح پر خود کو سدھارناہو گا ۔ ہر شخص کوذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور معاشرے کو بہتری کی جانب مائل کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا ہو گا ۔۔کیونکہ معاشرہ اکائیوں سے بنتا ہے ۔اجتماعیت انفرادیت کا شاخسانہ ہے ۔ اگر ہر شخص دوسروں کی بجائے خود کو سدھار لے تو پورا معاشرہ خودبخود سدھرنے لگے گا کیونکہ اگرایک شخص خود کرپشن ، بدعنوانی نہیں کرتا تو وہ شخص کسی بھی بدعنوان کا احتساب کر سکتا ہے ۔ آپ کسی اور پر تنقید کرنے کے حق دار اس وقت ہیں جب آپ میں خود وہ خامی نہ ہو ۔جب عوام سیدھی راہ پر چلیں گے تو خدا حکمران بھی اچھے نافذ کرے گا ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164225 views i write what i feel .. View More