چلے ہیں دل والے مینار پاکستان
(Jawaid Ahmed Khan, Karachi)
کینٹ اسیشن پر جھنڈوں اور پرچموں
کی بہار ہے ۔استقبالیہ کیمپ سے اعلانات ہو رہے ہیں لاہور جانے والے شرکاء
کا استقبال کیا جارہا ہے جب گاڑیوں کے ٹائمنگ کا وقفہ ہوتا ہے ترانے شروع
کر دیے جاتے ہیں ۔بسوں ،ویگنوں،ٹیکسیوں اور پرائیویٹ گاڑیوں سے مرد و
خواتین آرہے ہیں اور جوق در جوق اپنے اپنے پلیٹ فارم پر پہنچنے کی کوشش
کررہے ہیں ۔خواتین کے ساتھ بچے بھی ہیں اور اس دفعہ بہت بڑی تعداد میں
خواتین اس سالانہ اجتماع میں شریک ہو رہیں ہیں ۔یہی جذبہ اور شوق اجتماع
عام کی کامیابی کہ ضمانت ہے ۔یہ لوگ کیوں جارہے ہیں کیا اس سے انھیں کوئی
مالی فوائد حاصل ہوں گے نہیں ایسا نہیں ہے ۔سفر کئی قسم کے ہوتے ہیں کچھ
لوگ کاروبار کے لیے سفر کرتے ہیں ۔کچھ لوگ علم کے حصول اور اعلیٰ تعلیم اور
اپنے شعبہ میں بین الاقوامی معروف اداروں سے سند حاصل کرنے کے لیے سفرکرتے
ہیں ۔کچھ لوگ اپنے رشتہ داروں سے ملنے اور ان کی خبر گیری کے لیے سفر کرتے
ہیں ۔ ایک سفر جہاد کے لیے بھی ہوتا ہے جس میں مجاھدین اپنے دین کی سربلندی
کے لیے سفر کرتے ہیں ۔کچھ لوگ وہ سفر بھی کرتے ہیں جس کو ہجرت کا سفر بھی
کہا جاتا ہے کہ جب کسی جگہ دین پر عمل کرنا مشکل ہو جائے اور دین اسلام کے
مخالفین جینا دوبھر کردیں تو پھر ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا جاتا ہے ۔ا س
طرح کے سفر تو دنیا میں کم ہی ہوتے ہیں ۔لیکن اس کے علاوہ عام معروف معنوں
میں جو سفر کیے جاتے ہیں وہ تو چار قسم کے ہیں جو اوپر بیان کیے گئے گئے
ہیں یعنی علم کے لیے ،کاروبار کے لیے، جہاد کے لیے اور اپنے پیاروں سے ملنے
کی خاطر،یہ چوتھے قسم کے سفر پاکستان اور بھارت میں بہت ہوتے ہیں کہ
1947میں دنیا کی بہت بڑی ہجرت ہوئی تھی اور بڑی تعداد میں لوگ بھارت سے
ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور اسی طرح اس سے کچھ کم تعداد میں پاکستان
والے حصے ہندو بھارت گئے تھے۔یہ سفر جو ہورہا ہے جس میں ملک کے ہر حصے سے
لوگ لاہور کی طرف رواں دواں ہیں یہ ا ن پانچوں میں سے کس حصے میں شمار ہو
گا ۔میں سمجھتا ہوں یہ سفر ان پانچوں مقاصد کے لیے ہو رہا ہے ۔یہ سفر علم
کے حصول کے لیے بھی ہے ،نظریاتی رشتے خون کے رشتوں سے بھی زیادہ محترم ہوتے
ہیں اس لیے یہ اجتماع اپنے ان رشتے داروں سے ملنے کا بھی زریعہ ہے ،پورے
ملک سے ایک نظریے سے وابستہ خواتین و حضرات جمع ہوں گے ایک دوسرے سے ملنے
کا اور وہاں کے حالات سے آگہی کا موقعہ ملے گا ۔جہاں تک یہ بات ہے کہ کیا
یہ سفر کسی کاروبار کے لیے ہے ۔ایک لحاظ سے یہ کاروباری سفر بھی ہے کہ اﷲ
تعالیٰ نے خود قران مجید و فرقان حمید میں فرمایا ہے کہ ہم نے مومنو کی جان
و مال جنت کے بدلے خرید لیا ہے ۔یہ ایک تجارت ہے جو اہل ایمان اپنے رب سے
کرتے ہیں ۔اﷲ کے دین کو اس دنیا میں غالب کرنے کی تڑپ رکھنے والے اور اس کے
لیے جدوجہد کرنے والوں کا یہ سفر اپنے رب سے ایک قسم کی تجارت کا سفر بھی
ہے ۔آج کے دور میں جو لوگ دین کے لیے جدوجہد کررہے ہیں وہ ایک قسم کا جہاد
بھی ہے اس لیے یہ سفر اس ملک سے طاغوتی قوتوں کے شر سے قوم کو بچانے کے لیے
ہے اس لیے یہ ایک جہادی سفر بھی ہے۔آج صورتحال یہ ہے کہ اسلام کے خوبصورت
چہرے کو بگاڑ کر پیش کیا جارہا ہے ۔جماعت اسلامی ہو اخوان المسلمین ہو یا
حماس ہو اس طرح کی تنظیموں کے اثرات کو کم کرنے کے لیے انتہا پسند تنظیموں
کو ایک خاص سازش کے تحت آگے بڑھایا جارہا ہے ۔اس تناظر میں جماعت اسلامی کا
یہ اجتماع عام اپنی جگہ بہت اہمیت رکھتا ہے کہ ایک بہت بڑی حاضری دنیا پر
یہ بات ثابت کر سکتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت معتدل اسلام کی دل وجان سے
حامی ہے اور وہ انتہا پسند تنظیموں کو پسند نہیں کرتے ۔
جتنی بڑی تعداد میں لوگ ملک کے مختلف حصوں سے اس اجتماع میں شریک ہو رہے
ہیں اس کی دوگنی تعداد ایسی بھی جو اپنی بعض مجبوریوں کی وجہ سے اس پروگرام
میں شرکت نہیں کرپارہے ہیں ۔ایک صاحب کو تو میں اچھی طرح جانتا ہوں جو جانے
کے لیے بے چین ہیں ۔انھیں نظم کی طرف سے زبردستی روکا گیا ہے کہ دل کے مریض
ہیں آئے دن ان کی طبعیت خراب ہوتی رہتی ہے کئی کئی دن اسپتال میں داخل ہونا
پڑجاتا ہے وہ جانے کے لیے ضد کررہے تھے کہہ رہے تھے میں اپنی دوائیں لے کر
چلوں گا لیکن ان کی بیمار ی کی شدت کے پیش نظر انھیں روکا گیا ہے ۔یہ ایک
مثال ہے کہ جو لوگ شریک نہیں ہو پارہے ہیں ان کے دل کی دھڑکن بھی اس اجتماع
کے ساتھ ہی دھڑک رہی ہے ۔آج ہی جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کا یہ
بیان شائع ہوا ہے کہ 67برس میں ایک دن کے لیے بھی اسلام کا نفاذ نہیں ہو
سکا ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست بنا کر دم لیں گے ۔21نومبر
کو لاکھوں عاشقان مصطفیٰﷺمینار پاکستان پر ملک میں لا الہ اﷲ کے نظام کے
نفاذ کا عہد کریں گے عوام اسٹیٹس کو کو ایک لمحے کے لیے برداشت کرنے کو
تیار نہیں ہے ۔پاکستان کے تمام مسائل کا حل خلافت راشدہ کے نظام میں ہے
۔کراچی اور سندھ سے تحریک تکمیل پاکستان میں شرکت کے لیے قافلے لاہور کی
طرف چل پڑے ہیں ہم ان شاء اﷲ قوم کو ایسی اسلامی اور فلاحی ریاست دیں گے جس
میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہو ں گے۔
|
|