اس کے جسم پر میلے کچیلے ،پھٹے
پرانے کپڑے تھے، چہرہ حسرت و یاس کاایک نمونہ لگ رہاتھا اسے دیکھ کر یوں
محسوس ہوتا جیسے اس نے زندگی میں کبھی کوئی خوشی نہیں دیکھی۔۔۔وہ ایک گھنٹے
سے ڈیوڈ اینڈ ڈیوڈ انجیرٔ نگ نامی کارخانے کے مالک سے ملنے کیلئے کوشش
کررہاتھا اس کی چھوٹی بیٹی کافی دنوں سے بیمار تھی دوا کیلئے پھوٹی کوڑی
بھی نہ تھی وہ مالک سے کچھ رقم مانگنے کی درخواست کرنا چاہتا تھالیکن
منیجراس کی بات ہی نہیں مان رہاتھاوسیع و عریض دفترمیں ہنسنے اور نقرئی
قہقہوں کی آوازیں اس کی کنپٹیوں پر مسلسل ہتھوڑے کی ضربوں کی مانندمحسوس
ہورہی تھی ۔۔۔اتنے میں دفترکا دروازہ کھلا کارخانے کامالک باہر جانے کیلئے
نکلا عقب میں ایک حسین فتنہ بھی موجود تھا۔۔۔ وہ لپک کرآگے بڑھا اس کے
سامنے جاکرہاتھ جوڑکر کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ مالک داڑھا۔۔ ایڈیٹ۔۔ تمہاری
جرأ ت کیسے ہوئی میرے منہ لگنے گی۔۔ سر۔۔۔مزدور نے پھر کچھ کہنا چاہا ۔۔
لیکن اسی اثناء میں منیجرنے آگے بڑھ کر اسے دھکا دیا وہ لڑھک کر دور جاگرا
اور مالک حسینہ کی باہوں میں باہیں ڈالے کار میں بیٹھ کر یہ جاوہ جا -
کیپ ٹاؤن کی ایک فیکٹری میں کئی مرد وزن مشینی اندازمیں کام کررہے تھے اس
دوران کبھی بھی باتیں بھی کرتے فیکٹری میں اجرت کا کوئی باقاعدہ انتظام تھا
نہ ڈیوٹی کے اوقات مقررتھے رات دن کی تمیز بھی نہیں تھی اکثروبیشترانہیں12
گھنٹے کام کرناپڑتا مالک اور ٹھیکیدار پھر بھی ناراض رہتے چھٹی کا تو تصور
ہی نہیں تھابیماری کے دوران بھی کام کرنے کے بغیرکوئی چارہ نہ تھا کسی وجہ
سے چھٹی کرنے پر اگلے دو روز کام جرمانے کے طورپر کرنا پڑتا کسی مزدور سے
کوئی رعائت محال تھی آج مالکان نے اجرت دینے کا وعدہ کیا تھا اس لئے سب
مزدور جوش و خروش سے کام کررہے تھے لیکن اکثریت سوچوں میں غرق۔ ایک عورت
شدید بخارکے عالم میں بھی سامان پیک کررہی تھی ایک مزدور سامان اٹھا اٹھا
کر لارہاتھا اس کا پاؤں دردسے سوجا ہوا تھا ایک اور مزدورکمر دردسے بے حال
تھا پھربھی پیسے ملنے کی آس میں کام کئے جارہا تھا وہ سب فکرمند تھے ایک
ہفتہ قبل بھی اجرت دینے کا وعدہ کرکے14گھنٹے کام لیا گیا پھر ٹال دیا گیا
OOO 1844ء تک پوری دنیا میں ایسے واقعات روزکا معمول تھے سرمایہ دار
مزدوروں کو اجرت کم اور کام زیادہ لیتے تھے ان کی کوئی عزت ِ نفس نہ تھی
پھر آہستہ آہستہ مزدوروں کو حالات کی سنگینی کااحساس ہوا انہوں نے اپنے آپ
کو منظم کرنا شروع کیا اور اجتماعی قوت سے اپنے مسائل حل کرنے کا فیصلہ
کیا1862 ء تک امریکہ میں کم وبیش20سے زائد مزدور تنظیمیں وجودمیں آگئیں
تھیں جنہوں نے مشترکہ لائحہ ٔ عمل کیلئے آپس میں مشاورت کا آغازکیا 20اگست
1886ء کو77 مزدور تنظیموں نے ’’نیشنل یونین آف لیبر‘‘کے نام سے ایک اتحاد
قائم کیا جس نے اپنے یوم ِ تاسیس پرایک نکاتی چارٹرآف ڈیمانڈکااعلان کرتے
ہوئے دنیا میں پہلی بار مزدوروں کیلئے اوقات کار کا تعین کا مطالبہ کیا ان
کا کہنا تھاہم دن رات کے ایک تہائی وقت یعنی آٹھ گھنٹے کام کریں گے کیونکہ
کام کی زیادتی کے باعث ہر سال سینکڑوں مزدور ہلاک ہو جاتے ہیں سرمایہ داروں
نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے کی بجائے انتفامی کارروائیاں تیزکردیں آخرکار یکم
مئی 1886ء کو مزدوررہنماؤں نے پہلی مرتبہ ہڑتال کی کال دی جس کو ناکام
بنانے کیلئے مزدوروں کو تشددکا نشانہ بنایا گیاجس پردو دن بعدپھر احتجاج
کرنے کا فیصلہ کیا گیا -
امریکی شہر شگاگو۔۔ کو3مئی 1886ء میں مزدوروں نے اپنے مطالبات تسلیم کروانے
کیلئے مکمل ہڑتال کااعلان کیاشہر ومضافات کی تمام چھوٹی بڑی فیکٹریاں اور
کار خانے بند تھے سینکڑوں مزدوروں نے اپنے حقوق کیلئے ایک بڑا جلسہ کیا
پولیس نے اس جلسہ کو ناکام بنانے کیلئے طاقت کا بلا جواز اور بے دریغ
استعمال کرتے ہوئے نہتے مزدوروں پرفائرنگ کردی 5مزدور موقع پر ہی دم توڑ
گئے متعدد زخمی ہوئے سرمایہ داروں کے ایماء پر ڈاکٹروں نے ان زخمیوں کا
علاچ کرنے سے انکارکردیا- اس المناک واقعہ سے اگلے روز4مئی کو مزدوروں نے
اپنے ساتھیوں کی تدفین کے موقعہ پرمارکیٹ چوک شگاگومیں ایک بڑی احتجاجی
ریلی نکالی جس نے اختتام پر جلسہ کی شکل اختیار کرلی مقررین3مئی کو ہلاک
ہونے والوں کو پر امن طریقے سے زبردست اندازمیں خراج ِ تحسین پیش کررہے تھے
کہ ایک پولیس انسپکٹر کیپٹن بون پونے دوسو سے رائد سپاہیوں کو لے کرجلسہ
گاہ میں داخل ہوااس نے نادرشاہی اندازسے جلسہ ختم کرنے کا حکم دیااس وقت
آخری مقرر سیموئیول فلیڈن تقریر کررہے تھے اسی دوران جلسہ گاہ میں ایک
دھماکہ ہوا جس میں چند پولیس اہلکار مارے گئے پو لیس انسپکٹر کیپٹن بون نے
طیش میں آکرمزدوروں پر گولی چلانے کا حکم دیدیا تھوڑی دیر بعدجلسہ گاہ مقتل
کا منظر پیش کررہا تھاپولیس کی بے ہنگم فائرنگ سے ایک عورت، ایک بچے
سمیت11مزدور ہلاک ہوگئے ایک مزدور نے اپنی قمیص سیموئیول فلیڈن کے خون سے
تر کرکے ہوا میں لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ آج سے یہ سرخ پرچم دنیا بھر کے
مزدوروں کی جدوجہدکی علامت ہوگا۔۔اس کا کہا واقعی سچ ثابت ہواسرخ پرچم
مزدوروں کی انقلابی مزاحمت کا نشان بن گیا۔
اس واقعہ کے بعد متعددمزدوررہنماؤں کوگرفتارکرلیا گیا ان پردہشت گردی کے
مقدمات قائم کردئیے گئے عدالت نے بھی جانبداری کی انتہا کردی مزدوروں کو
تشددپر اکسانے،شگاگو کا امن تباہ کرنے اور پولیس اہلکاروں کے قتل کے الزام
میں 4 چوٹی کے مزدور رہنماؤں اے ڈی فشر، اسپائز،اینجل اوررابرٹ پرنسز کو
پھانسی جبکہ تین کو عمر قیدبا مشقت کی سزا سنائی گئی یکم مئی 1887ء کوسب سے
پہلے اے ڈی فشرکو پھانسی دی گئی جب اسے پھانسی گھاٹ لیجایا جارہاتھا اس نے
استقامت سے جو الفاظ کہے وہ تاریخ بن گئے اس نے کہا’’ غریبوں کی آواز
کوبلند ہونے سے روکا گیا توان کی تلواریں بلندہونے سے کوئی نہیں روک
سکتا۔مزدور رہنما اینجل کوجب سولی پرلٹکایاجانے لگا اس نے واشگاف الفاظ میں
چیخ چیخ کرکہا’’ تم لوگ ہمیں قتل کرسکتے ہو لیکن اب اس تحریک کو نہیں دبایا
جا سکتا‘‘۔۔۔رابرٹ پرنسز نے تو پھانسی کے پھندے کو چوم لیا اس کا کہنا
تھا’’تم اس آواز کو بندکرنے پر قادرہو لیکن وہ دن دور نہیں جب یہ خاموشی
آوازسے زیادہ طاقتور بن جائے گی‘‘۔۔۔مزدوررہنما اسپائزکو جب تختہ دارپر
لٹکایا جانے لگااس کے الفاظ تھے’’ ہمیں اس پھانسی کا کوئی ملال نہیں خوشی
اس بات کی ہے کہ ہم ایک اچھے مقصدکیلئے جان دے رہے ہیں‘‘ ان کا کہا حرف بہ
حرف سچ ثابت ہواان کی قربانیاں آج محنت کشوں کے ماتھے کا جھومرہیں جس کی
وجہ سے مزدوروں کومعاشی استحکام حاصل ہوا126سال گذرنے کے باوجودان کی
قربانیاں آج بھی تروتازہ ہیں یہ اے ڈی فشر، اسپائز،اینجل اوررابرٹ پرنسز کی
جدوجہدکا ثمرہے کہ مزدوروں کی ڈیوٹی کے اوقات کار طے کئے گئے ان کے بنیادی
حقوق کو تسلیم کرلیا گیا بلاشبہ شگاگو کے شہیدوں کی جدوجہد انسانی تاریخ کا
درخشندہ باب ہے یکم مئی دراصل بنیادی انسانی حقوق اور محنت کی عظمت پر یقین
رکھنے والوں کادن ہے اسی لئے دنیا بھرمیں شگاگو شہیدوں کی قربانیوں کو خراج
ِ تحسین پیش کیا جاتاہے جنہوں نے مزدور حقوق کی جنگ میں ایک نئی روح پھونک
دی۔۔۔ لیکن جب ہم آج کے حالات پر غورکرتے ہیں تو محسوس یوں ہوتاہے جیسے
شگاگو کے شہیدوں کی قربانیاں ضائع ہوگئی ہوں دنیا بھر میں یکم مئی جوش و
خروش سے منایا جاتاہے ،بڑے بڑے ہوٹلوں،ایڈیٹوریم ،یخ بستہ ہالوں میں
مذاکرے،بحث و مباحثہ ،تقریریں اور بلندبانگ دعوے کئے جاتے ہیں اس کے برعکس
سینکڑوں ہزاروں شخص مزدوروں کے حقوق کی بات کرکے سرمایہ داروں سے مک مکا
کرلیتے ہیں آج بھی ہر سطح پر مزدوروں کااستحصال جاری ہے ،کہیں مزدور
یونینوں کے نام پر عہدیدار ،انکے عزیز واقارب اور ملنے جلنے والے اپنے ہی
اداروں میں ڈیوٹی کرنا اپنی شان کے خلاف بات سمجھتے ہیں آجراس کے خلاف
ایکشن لینے کا ارادہ کرے تو ان کا سب سے بڑا ہتھیارہڑتال کی دھمکی ہوتاہے
اسی طرح زیادہ تر اداروں میں پاکٹ یونین کاقیام عمل میں لایا جاتاہے جو
مالکان کی ملی بھگت سے صرف اپنے لئے آسودگیاں خریدتے رہتے ہیں اور عام
مزدور کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔۔۔اسی طرح حکومت کے کرتا دھرتا اپنے مخصوص
مفادات کیلئے ۔۔منافع بخش سرکاری اداروں کو پرائیویٹ سیکٹرکو فروخت کردیتے
ہیں یا انہی اداروں میں مختلف حیلوں بہانوں سے مزدوروں کی چھانٹی کی جاتی
ہے۔۔۔کئی صنعتی اداروں میں وقت پر تنخواہ نہیں دی جاتی یہ سب استحصال کی
مختلف شکلیں ہیں طبقاتی نظام میں آج بھی محنت کشوں کوبہت سے مسائل کا
سامناہے جن میں بھوک،افلاس، غربت، بیروزگاری،مہنگائی،بیماری اور جہالت
سرفہرست ہیں جس کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔۔۔ہم مسلمان ہونے
کے باوجود شگاگو کے شہیدوں کو خراج ِ تحسین اس لئے پیش کرتے ہیں کہ انہوں
نے دنیا بھرکے انسانوں کو ظلم سے بچانے کیلئے اپنی جانوں کا نذزانہ پیش کیا
بلاشبہ ان کا انسانیت پر بڑااحسان ہے ان کی قربانیوں کے اثرات
ہررنگ،نسل،مذہب،زبان اور ملک پر مرتب ہوئے ہم سب پر شگاگو کے شہیدوں کا لہو
قرض ہے آئیے!انسانیت پر احسان کرنے والے شگاگو کے مظلو موں کوعقیدت سے سلام
پیش کریں خراج ِ تحسین پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتیں
مزدورکیلئے اس قدرروزگارکے مواقع فراہم کرے کہ ان کے بچوں کا مستقبل تابناک
ہو جائے اورکسی کے ہونٹوں پر یہ شکوہ نہ ہو
کارخانے تو ہوتے جاتے ہیں تعمیر مگر
چہرے چہرے پہ وہی بے سرو سامانی ہے |