انتظامی بدنظی کو ختم کرنا اور
عوامی تکالیف کا ازالہ کرنا بے شک حکومت وقت کا کام ہے لیکن جب عوام الناس
مایوس ہوجاتے ہیں تو اﷲ تعالی کے بعد ایک عدلیہ کاادارہ ہی بچتاہے جس سے
خلق خدا نجات کے لیے التجا کرسکتی ہے ۔اس وقت میں کسی اور کی بات نہیں کر
رہا بلکہ اپنی بات کرنا چاہتا ہوں کیونکہ مجھ جیسے ہزاروں لوگ بجلی گیس کے
محکموں اور ماتحت عدالتوں سے انصاف مانگتے مانگتے قبروں میں اتر جاتے ہیں۔
مجھے گیس کا بل 25 ہزار روپے آگیا میں تو ایک ایسے ادارے سے ریٹائر ہوچکا
ہوں جہاں پنشن کی بجائے صرف دھکے ہی ملتے ہیں میرے دونوں بیٹوں کی تنخواہیں
ملا کر بھی 25 ہزار روپے پورے نہیں ہوپارہے تھے ۔یہ لیگج پرابلم ہے جب 25
ہزا رروپے کا بل معاف کروانے کے لیے وفاقی محتسب اعلی کو درخواست دی تو
ڈیڑھ مہینے بعد ایک بغیر لفافے خط موصول ہواکہ 12 نومبر کو آپ بھی پیش ہوں
۔حسن اتفاق سے 12 نومبر کو ہی میری آنکھ کاآپریشن تھا اگر میں محتسب کے
دفتر پہنچتا ہوں تو ڈاکٹر آپریشن کی نئی تاریخ دینے سے انکاری ہے اور اگر
میں آپریشن کرواتا ہوں تو 25 ہزار روپے کے بل سے نجات کا جو موقعہ میسر آیا
تھا وہ ختم ہوجاتا ہے۔ قوت سماعت کی کمزوری اور گھٹنے کے آپریشن کی وجہ سے
میں خود موٹرسائیکل نہیں چلا سکتا اس لیے بیٹا بہت مشکل سے چھٹی لے کر میرے
ساتھ چل پڑا۔لیکن جب ہم مقررہ وقت پر محتسب کے آفس پہنچے تو ہمیں یہ کہہ کر
واپس کردیاگیا کہ جس افسر نے سماعت کرنی تھی وہ مصروف ہیں چنانچہ ہمیں
19نومبر کی تاریخ دے دی گئی۔آپریشن بھی ملتوی ہوا اور کوئی ریلیف بھی نہ
ملاسکا۔ چند دن بعد آنکھ کا آپریشن ہوا تو ڈاکٹر نے موٹرسائیکل چلانے سے
منع کررکھا تھا لیکن 19نومبر کو ہر حال میں ہمیں محتسب کے دفتر اس لیے
پہنچنا تھاکہ شاید کوئی ریلیف مل جائے ۔اب مسئلہ یہ بھی تھاکہ دونوں میں سے
کوئی ایک بیٹا بھی ساتھ جانے کو تیار نہ تھا کیونکہ ان کے سنئیرچھٹی دینے
سے انکاری تھے ۔پرائیویٹ ملازمت میں روز روز کون چھٹی دیتا ہے ۔پورے خاندان
میں سے ایک نوجوان( مزمل) بہت مشکل سے ہاتھ لگا جو مجھے لے کر محتسب کے
دفتر دس بجے پہنچ گیا لیکن ایک گھنٹہ ویٹنگ روم میں ہمیں بٹھا کر سماعت
کرنے والے صاحب اپنے دفتر میں انجوائے کرتے رہے۔ انصاف لینے والے مجھ جیسے
درجنوں لوگ ویٹنگ روم میں یا تو اونگھ رہے تھے یا اپنے بیٹھنے کی جگہ کے
متلاشی تھے۔گیارہ بجے ہمیں ایک اہلکار نے آکر بتایا کہ آپ کے مقدمات تیسرے
فلور پر خالد لطیف ایڈوائزر کو بھجوا دیے گئے ہیں وہی سماعت کریں گے جب ہم
وہاں پہنچے تو پتہ چلا کہ وہ صاحب تو ابھی آفس میں آئے ہی نہیں ہیں اور نہ
ہی انہیں بیٹھنے کے لیے کوئی کمرہ الاٹ ہواپھر وہ سماعت کیسے کرسکتے ہیں۔
یہ سب کچھ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ جو ادارے انصاف کی فراہمی کے لیے بنائے
جاتے ہیں ان میں پانچ پانچ لاکھ روپے تنخواہوں والے افسر تو بٹھا دیئے جاتے
ہیں لیکن وہاں جانے والوں کو ذلیل وخوار ہی کیا جاتا ہے ۔کیا عدالتی حکم کے
تحت انہیں پابند نہیں بنایا جاسکتا کہ جو تاریخ وہ سماعت کے لیے مقرر کریں
اس پر ہر صورت سماعت ہونی چاہیئے اگر ایک افسر/ جج نہیں تو دوسرا افسر /جج
یہ کام کرے ۔ پتہ نہیں کن مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامناکرکے عمررسیدہ اور
معذور لوگ وہاں پہنچتے ہیں جنہیں یہ کہہ کر ٹرخا دیاجاتا ہے کہ سماعت اگلی
تاریخ پر ہوگی یوں اس طرح مہینے اور سال گزر جاتے ہیں ۔ابھی ان پریشانیوں
میں کھویا ہواگھر پہنچا ہی تھاکہ تو دہلیز پر ہی بجلی کا بل 7600 روپے میرا
منتظر تھا ۔یہ سوچ کر دماغ شل ہوگیا کہ اتنی رقم اور کہاں سے لاؤں گا ۔150
یونٹ زائد ڈال کر جو بل تین چار ہزار بنتا تھااسے ساڑھے سات ہزار تک پہنچا
کر لیسکو اتھارٹی نے میری نیند بھی چرا لی ۔ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ
بجلی کے بل شام کو ملتے ہیں اور دوسرے دن ان کی آخری تاریخ ہوتی ہے ۔ڈاکٹر
کی ہدایت کے برعکس ایک آنکھ بند کرکے خودہی موٹرسائیکل پر سوار جب میں
لیسکو کے متعلقہ دفتر پہنچا تو وہاں صبح سے ہی SDO کی تلاش میں درجنوں
عورتیں اورمرد کھڑے ہوئے تھے پھر وہ اہلکاربھی اپنی سیٹ پر موجودنہیں تھا
جس نے بل کی رقم کو کم کرنے کی سفارش کرنی تھی ۔دوپہر کا ایک بج گیاکسی نے
بتایا کہ لیسکو ہیڈآفس چلے جائیں وہاں سے بھی بل کی تصحیح ہوسکتی ہے چنانچہ
زندگی میں پہلی مرتبہ ایک آنکھ بند کرکے انتہائی خطرناک انداز سے
موٹرسائیکل چلاتا ہوا شاہراہ فاطمہ پر قائم لیسکو کسٹمرز سروس پہنچا تو
وہاں کے ذمہ دار افسر نے یہ کہتے ہوئے بل ٹھیک کرنے سے انکار کردیا کہ آپ
کا بل پچھلے مہینے ٹھیک ہوچکا ہے اس لیے رولز کے مطابق دوبارہ ریلیف نہیں
دیاجاسکتا۔ جوابامیں نے کہا میٹر ریڈر تو ہر مہینے ہزاروں لوگوں کو زائد
ریڈنگ بھیج کر جو پریشان کرتا ہے اس کا علاج کون کرے گا ۔میں یہ دیکھ کر
حیران رہ گیا کہ ضعیف العمر عورتیں ہاتھ میں بیس بیس ہزار کا بل پکڑے نہایت
مشکل سے دور دراز علاقوں سے چل کر وہاں پہنچ رہی ہیں۔متعلقہ عملے کی عدم
موجودگی کی وجہ سے ہر کوئی پریشان ہے کسی کی ادائیگی کی آخری تاریخ آج کی
تھی تو کسی کی کل کی ۔ اگر بل بروقت جمع نہ کروایا جائے تو دو تین ہزار
روپے کا مزید جرمانہ ڈال دیاجاتا ہے ۔چنانچہ حکمت عملی کے طور پر لیسکو
حکام عین اس دن اپنے دفتروں سے غائب ہو جاتے ہیں جب گھروں میں کہرام مچانے
والے بجلی کے بل صارفین کے ہاتھوں میں پہنچتے ہیں ۔بمشکل دس فیصد لوگ ہی
دھکے کھاتے ہوئے بل ٹھیک کروانے آتے ہیں وگرنہ صبر کا دامن تھام کر بل جمع
کروا دینے میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔اس لمحے میں چیف جسٹس آف پاکستان سے
یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ وفاقی صوبائی محتسب اور تمام ماتحت عدالتوں کے جج
صاحبان کو سختی سے پابند کریں کہ سماعت کے لیے جو تاریخ مقرر کی جائے
متعلقہ افسر اور جج صاحبان ہر صورت اپنے دفتروں اور عدالتوں میں موجود رہیں
بلکہ ایک یا دو پیشیوں میں فریقین کا موقف سن کے فیصلہ سنادیں۔ بار بار
تاریخیں دینے اور غیر ضروری طول دینے کا سلسلہ انصاف کے قتل کا باعث بنتا
ہے۔ جو پاکستان کے عدالتی نظام کی بدنامی کا باعث بنتا ہے ۔ |